ایک اور نامۂ شوق

یہ مواخذے اور احتساب تو ہمارے سیاہ ست دانوں کا پسندیدہ سیاسی مشغلہ اور کھیل ہے

آپ کے خلاف مواخذے کی کمیٹی بنادی گئی ہے اور آپ نے پیش ہوجانے کی حامی بھی بھرلی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالم پناہ، جانِ جہاں عالی جناب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب بہادر!

جناب! کراچی، پاکستان، ایشیا، کرۂ ارض، نظام شمسی، کہکشاں، لوکل گروپ، کلسٹر، سپر کلسٹر اور کائنات میں موجود اپنے واحد عقیدت مند کا سلامِ شوق ایک بار پھر قبول فرمائیے۔

دراصل وہ ہمارے ایک بہت بڑے شاعر گزرے ہیں، ان کا نام تو مرزا اسداللہ خان تھا لیکن پہلے اسد اور بعد میں غالب تخلص کرنے لگے تھے اور اسی نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ انہوں نے کچھ خطوط لکھے تھے اپنے زمانے کے مشاہیر، اپنے دوستوں اور شاگردوں کے نام، جو خطوطِ غالب کے نام سے مرزا کی شاعری کی ہی طرح ادبی تاریخ میں زندہ و جاوید ہوگئے ہیں اور پھر ہمارے ایک افسانہ نگار ہوا کرتے تھے جنہیں سعادت حسن کا پیدائشی نام ملا لیکن وہ منٹو کے نام سے مشہور ہوئے اور اردو زبان کے سب سے بڑے افسانہ نگار کہلاتے ہیں، وہ خود کو انکساراً معاشرے کا گردہ کہا کرتے تھے اور تاک تاک کر معاشرتی برائیوں پر افسانے کی شکل میں نشانے لگاتے تھے۔ انہوں نے بھی کچھ شہرت یافتہ خطوط لکھے جن میں آپ کے ملک کے نام بھی خط لکھے تھے، جنھیں انکل سام کے نام خطوط کا عنوان دیا گیا ہے۔

جناب عالی میں بھی ان ہی مشاہیر کی گھٹیا سی نقل کرتے ہوئے آپ کو اور کبھی کبھی آپ کے بڈی مودی جی کو خط لکھ دیا کرتا ہوں، جو کچھ مہربان دوستوں کی مہربانی سے طبع بھی ہوجاتے ہیں اور وائٹ ہاؤس سے آنے والی اڑتی چڑیا اکثر خواب میں مجھے بتاتی ہے کہ آپ نہ صرف ان خطوط کو پڑھتے ہیں بلکہ سر بھی دھنتے ہیں۔ لیکن بڑی عجیب سی بات ہے کہ اگلے خواب میں انڈیا سے آنے والا اڑتا کوا مجھے بتاتا ہے کہ آپ کے بڈی نریندر موذی، ارے سوری مودی جی میرے خطوط سے کچھ چڑ سے جاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں؟ چلیں چھوڑیں ہمیں کیا۔

بہرحال آپ کی طرف سے آنے والی تشویشناک خبروں نے میری راتوں کی نیند اڑا دی ہے اور دن کا چین لوٹ لیا ہے کہ آپ کے خلاف مواخذے کی کمیٹی بنادی گئی ہے اور آپ نے اس کے سامنے دلیری سے سینہ تان کر پیش ہوجانے کی حامی بھی بھرلی ہے۔ واہ جناب واہ! کیا بات ہے، لیڈر ہو تو ایسا۔

لیکن آپ کی خاندانی وجاہت، شرافت، نجابت اور دلیری سے قطع نظر یہ تو بہت توہین آمیز سی بات ہے سر جی کہ ایک دو ٹیلیفون کالز کی وجہ سے آپ جیسے مہان انسان پر انگشت نمائی کی جائے۔ نہ ہوا پاکستان، ورنہ ایسا سوچنے والوں کے زن و بچہ کولہو میں پلوا دیے جاتے۔ لیکن آپ گھبرائیے گا مت۔ ابھی آپ کے خادم زندہ ہیں اور ہم جان لڑا دیں گے لیکن آپ پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ لیکن پھر بھی آپ صرف ہم پر نہ رہیے گا کہ مصروفیت بہت ہے۔ اپنی دفاعی حکمت عملی بنا لیجیے گا اور میرا مشورہ ہے کہ آپ اس سلسلے میں چند پاکستانی سیاہ ست دانوں سے مشورہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مہان کلاکار آپ کو مواخذے سے بچنے کے ایسے ایسے گر بتادیں گے کہ آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔


اصل میں سر جی آپ بہت مصروف آدمی ہیں۔ دن رات گوناگوں مصروفیات میں مگن رہتے ہیں۔ اس لیے شاید آپ کو نہیں معلوم ہو کہ یہ مواخذے اور احتساب تو ہمارے سیاہ ست دانوں کا پسندیدہ سیاسی مشغلہ اور کھیل ہے۔ اور اگر کچھ دن وہ یہ کھیل نہ کھیل پائیں تو طبعیت خراب ہونے لگتی ہے۔ تو ایسے تجربہ کار ماہرین سے رجوع کرنا آپ کےلیے فائدہ مند ہوگا۔

اچھا سر جی! وہ بابا جی کالے کرتوتی گورداس پوری آپ کو سلام کہہ رہے تھے اور مجھ پر عتاب بھی فرمارہے تھے کہ کیا تو یہ چھچھوروں کی طرح ہر خط میں تعویز کے ہدیے کا ذکر کردیتا ہے۔ ٹمپ بابو سے کہنا کہ ہدیہ شکرانہ بھجوانے کی زیادہ فکر نہ کریں، جب ان کے پاس ہوں بھجوا دیں کوئی، جلدی نہیں۔ اور سر جی میں آپ کو بتاؤں کہ بابا جی تو یہ سن کر مجھ سے بھی زیادہ بے چین ہوگئے کہ آپ کا مواخذہ کرنا زیر غور ہے۔ اور سر جی مجھے لگتا ہے کہ اب میں ساری دنیا میں آپ کا اکلوتا عقیدت مند اور عاشق نہیں رہوں گا بلکہ بابا جی کی صورت میں ایک رقیب روسیاہ ملنے والا ہے۔ بلکہ بابا جی تو بتا رہے تھے کہ اماؤس کی رات انہوں نے آپ سے خواب میں ملاقات بھی کرلی ہے۔ میں سر جی اندر سے جلن سے کھول کر رہ گیا کہ یار ہم اتنے پرانے عاشق لیکن ملاقاتیں بابا جی سے۔ پر اوپر سے سوکھے منہ سے مبارک باد دے دی اور کیا کرتا۔

بہرحال بابا جی آپ کےلیے کوئی نیا چلہ کاٹنے بیٹھ رہے ہیں اور مجھ سے حکماً فرمایا ہے کہ ابے جب تو ٹمپ بابو کو خط لکھیو تو یہ بتادیجیو کہ ایسی کاٹ کروں گا کہ مواخذہ کمیٹی والے سر نوچتے پھریں گے اور یہ کہہ کر فوراً مراقبے میں چلے گئے اور میں پوچھ بھی نہیں سکا کہ کس کے سر کی بات کر رہے ہیں۔ تو اب آپ اس مواخذے وغیرہ سے تو بے فکر ہوجائیں بالکل کہ بابا جی کے موکل یا ہمارے سیاہ ست داں کوئی نہ کوئی سیٹنگ بنا اور بتا ہی دیں گے۔

اب سر ایک بین الاقوامی گستاخی کی طرف جناب کی توجہ مبذول کرانا درکار ہے کہ آپ کے صریح ارشاد، انکار اور حکم کے باوجود چین اور فرانس کے صدور نے پچھلے دنوں عالمی ماحولیاتی معاہدے پر کام جاری رکھنے اور آگے بڑھنے کا اعلان کردیا۔

سرجی! یہ کیا ہورہا ہے؟ کیا ان حضرات کو آپ کے قہر سے ڈر نہیں لگتا اور اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ گلوبل وارمنگ اور عالمی ماحول سے زیادہ قیمتی وہ ہزاروں امریکی فیکٹریاں اور صنعتیں ہیں، جو لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کررہی ہیں۔ اگر ان کی وجہ سے بالکل ذرا سا، چنا منا سا ماحولیاتی بگاڑ پیدا ہو بھی رہا ہے تو کیا مضائقہ ہے۔ نہیں سر جی! اب بہت ہوگیا۔ میں تو کہتا ہوں کہ آپ ان دونوں سے ویٹو پاور چھین لیں اور اقوام متحدہ میں ان دونوں کے داخلے پر پابندی لگادیں۔ بس یہی اس گستاخی اور آپ کے حکم کو نظر انداز کرنے کی کم سے کم سزا ہونی چاہیے۔
اچھا اب اجازت دیں، پھر آدھی ملاقات ہوگی۔
فقط آپ کا اکلوتاعقیدت مند۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story