انصاف سب کے لیے
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ازخود جو فیصلہ کیا تھا وہی اس پر عملدرآمد بھی کر دیتے۔
NEW DELHI:
میاں نواز شریف علاج کے لیے لندن پہنچ چکے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کی اکثریت نے میاں نواز شریف کے علاج کے لیے لندن روانگی کے حق میں جب کہ چند ایک نادان دوستوں نے اس کی بے وجہ مخالفت کی یہ جانتے بوجھتے کہ ان کا لیڈر اس بات کا فیصلہ کر چکا ہے کہ ملک کی اہم سیاسی شخصیت کو علاج کے لیے بیرون ملک اجازت دینا ملک اور حکومت کے مفاد میں ہے مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے وزیر اعظم عمران خان کے بیانات نے اپنے خیر سگالی جذبے کو ماندکر دیا اور پھر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور عدالت نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر بیرون ملک علاج کے لیے بھجوانے کے احکامات جاری کر دیے ۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ازخود جو فیصلہ کیا تھا وہی اس پر عملدرآمد بھی کر دیتے تو ان کی نیک نامی میں مزید اضافہ ہوجاتا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عمران خان جب زخمی ہو کر اسپتال داخل ہوئے تھے تو میاں نواز شریف ان کی خیریت معلوم کرنے شوکت خانم اسپتال گئے یہ عمران خان کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ بیمار نواز شریف سے سیاست کے بجائے ان کی مزاج پرسی کر لیتے تو اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات میں جو خلیج بڑھتی جارہی ہے اس میں کمی ہوجاتی لیکن عمران خان نے اپنے مزاج کے مطابق فیصلہ کیا جس پر ان کے حکومتی اتحادی بھی بول پڑے ہیں ۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ چوہدری ظہور الٰہی شہید کے بیٹے شجاعت حسین کلمہ حق کہنے سے کبھی نہیں چوکتے ۔ انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی توانا آواز بلند کرتے رہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں انھوں نے میاں نواز شریف کی بیماری کے بعد حکومت کی جانب سے ان کی لندن روانگی میں روڑے اٹکانے پر حکومت کو کھری کھری سنائی ہیں ۔
شجاعت حسین کسی بھی حکومت کے اتحادی ہوں یا خود حکومت میں ہوں وہ کلمہ حق کہنے سے نہیں ڈرتے ۔ ان کی جماعت جب اقتدار میں تھی اور ملک کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے اس وقت طالبعلموں کے لیے نصاب تبدیل کرنے کی بات ہوئی تو چوہدری شجاعت نے اس پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نصاب تبدیل کرنے کی کوشش کی وہ بھر پور مذمت کرتے ہیں اور وہ ایسی کتابوں کو آگ لگا دیں جن کا نصاب تبدیل کیا گیا ہو گا۔ ان کے سخت ردعمل پر حکومت نے نصاب تبدیلی کے فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی بھی پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر عوام کے دل کی بات کہہ دیتے ہیں۔
چاہے ان کی باتیں کسی کو بری ہی کیوں نہ لگیں ۔ وضع داری کی سیاست کے امین چوہدری خاندان کی پگ چوہدری شجاعت کے سر پر ہے اور انھوں نے اس پگ کو داغ دار نہیں ہونے دیا بلکہ انھوں نے اس کی حفاظت کی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں ان کی بات کو توجہ سے سنا جاتا ہے اور ان کی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے جو ان کی فہم وفراست اور شرافت کی نشاندہی کرتی ہیں ۔
چوہدری شجاعت کے ایک بیان نے سیاسی دنیا میں ہلچل مچا دی اپوزیشن کو یہ تاثر ملا اور ان کے بیانوں میں تیزی آگئی کہ شائد حکومتی اتحادی اب اپنی راہیں تبدیل کرنے کی سوچ رہے ہیں لیکن اپوزیشن کی اس خوش فہمی کا خاتمہ اگلے ہی دن چوہدری پرویز الٰہی نے کردیا انھوں نے ایک وضاحتی پریس کانفرنس میں چوہدری شجاعت کے بیان کی وضاحت کی اور کہا کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں اور رہیں گے ۔ اس سے اگلے ہی دن فوج کے ترجمان نے بھی حکومتی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج ایک صف میں ہیںاور آئینی ذمے داری کے تحت فوج جمہوری حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔
گزشتہ چندروز سے بااثر حلقوں میں ان باتوں کا چرچا ہے کہ اسلام آباد کی فضاؤں میں گہر چھا رہی ہے حکومت کے معاملات میں کچھ گڑ بڑ ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کی باتیں سنائی دے رہی ہیں لیکن اگرحقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو کیا ملک اس وقت اس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ ایک ایسی حکومت جو کہ ایک سال سے کچھ زیادہ کی مدت گزار چکی ہے اس کو رخصت کر دیا جائے اور پاکستان میں کوئی نیا تجربہ کیا جائے کیونکہ ملک کی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو عوام بھگتا چکے ہیں جب کہ تیسری قوت تحریک انصاف کو بھگت رہے ہیں کیونکہ جو وعدے تحریک انصاف نے عوام سے کیے تھے ابھی تک ان وعدوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا گیا اس لیے تحریک انصاف کی حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے لیکن کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا موقع دیا جائے تا کہ عوام خود فیصلہ کر سکیں کہ آیندہ انتخابات میں انھوں نے ہما کس کے سر پر بٹھانا ہے ۔
اس سے پہلے کی دونوں حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کر کے الیکشن میں عوام کی جانب سے مسترد کی جا چکی ہیں لہذا انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔
عمران خان ملک کے اداروں اور خاص طور پر عدلیہ کی خودمختاری کے سب سے بڑے داعی رہے ہیں اور اس وقت وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ اپنی عدلیہ سے شاکی ہیں اس لیے انھیں چیف جسٹس سے یہ اپیل کرنی پڑ گئی کہ وہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال اور ملک کو آزاد کریں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے کیس میںعدلیہ کا طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون کا تاثر واضح طور پر سامنے آیا ہے جو وزیر اعظم کی بات کو تقویت دیتا ہے ۔گو کہ چیف جسٹس صاحب نے وزیر اعظم کے عدلیہ سے گلے کی وضاحت بھی کردی۔
میرے نبی ﷺکا ارشاد ہے کہ '' تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا بڑا امیر و کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی''۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں ان کے ایک گورنر فاتح مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے کسی شخص کو بلا وجہ مارا ۔ حج کے موقعے پر اس شخص نے امیر المومنین سے اس کی شکایت کی آپؓ نے اپنے گورنر اور اس کے بیٹے کو بلایا اور گورنر کے بیٹے کو اس کے گورنر باپ کے سامنے کوڑے لگوائے ۔
میاں نواز شریف علاج کے لیے لندن پہنچ چکے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کی اکثریت نے میاں نواز شریف کے علاج کے لیے لندن روانگی کے حق میں جب کہ چند ایک نادان دوستوں نے اس کی بے وجہ مخالفت کی یہ جانتے بوجھتے کہ ان کا لیڈر اس بات کا فیصلہ کر چکا ہے کہ ملک کی اہم سیاسی شخصیت کو علاج کے لیے بیرون ملک اجازت دینا ملک اور حکومت کے مفاد میں ہے مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے وزیر اعظم عمران خان کے بیانات نے اپنے خیر سگالی جذبے کو ماندکر دیا اور پھر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور عدالت نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر بیرون ملک علاج کے لیے بھجوانے کے احکامات جاری کر دیے ۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ازخود جو فیصلہ کیا تھا وہی اس پر عملدرآمد بھی کر دیتے تو ان کی نیک نامی میں مزید اضافہ ہوجاتا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عمران خان جب زخمی ہو کر اسپتال داخل ہوئے تھے تو میاں نواز شریف ان کی خیریت معلوم کرنے شوکت خانم اسپتال گئے یہ عمران خان کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ بیمار نواز شریف سے سیاست کے بجائے ان کی مزاج پرسی کر لیتے تو اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات میں جو خلیج بڑھتی جارہی ہے اس میں کمی ہوجاتی لیکن عمران خان نے اپنے مزاج کے مطابق فیصلہ کیا جس پر ان کے حکومتی اتحادی بھی بول پڑے ہیں ۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ چوہدری ظہور الٰہی شہید کے بیٹے شجاعت حسین کلمہ حق کہنے سے کبھی نہیں چوکتے ۔ انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی توانا آواز بلند کرتے رہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں انھوں نے میاں نواز شریف کی بیماری کے بعد حکومت کی جانب سے ان کی لندن روانگی میں روڑے اٹکانے پر حکومت کو کھری کھری سنائی ہیں ۔
شجاعت حسین کسی بھی حکومت کے اتحادی ہوں یا خود حکومت میں ہوں وہ کلمہ حق کہنے سے نہیں ڈرتے ۔ ان کی جماعت جب اقتدار میں تھی اور ملک کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے اس وقت طالبعلموں کے لیے نصاب تبدیل کرنے کی بات ہوئی تو چوہدری شجاعت نے اس پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نصاب تبدیل کرنے کی کوشش کی وہ بھر پور مذمت کرتے ہیں اور وہ ایسی کتابوں کو آگ لگا دیں جن کا نصاب تبدیل کیا گیا ہو گا۔ ان کے سخت ردعمل پر حکومت نے نصاب تبدیلی کے فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی بھی پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر عوام کے دل کی بات کہہ دیتے ہیں۔
چاہے ان کی باتیں کسی کو بری ہی کیوں نہ لگیں ۔ وضع داری کی سیاست کے امین چوہدری خاندان کی پگ چوہدری شجاعت کے سر پر ہے اور انھوں نے اس پگ کو داغ دار نہیں ہونے دیا بلکہ انھوں نے اس کی حفاظت کی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں ان کی بات کو توجہ سے سنا جاتا ہے اور ان کی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے جو ان کی فہم وفراست اور شرافت کی نشاندہی کرتی ہیں ۔
چوہدری شجاعت کے ایک بیان نے سیاسی دنیا میں ہلچل مچا دی اپوزیشن کو یہ تاثر ملا اور ان کے بیانوں میں تیزی آگئی کہ شائد حکومتی اتحادی اب اپنی راہیں تبدیل کرنے کی سوچ رہے ہیں لیکن اپوزیشن کی اس خوش فہمی کا خاتمہ اگلے ہی دن چوہدری پرویز الٰہی نے کردیا انھوں نے ایک وضاحتی پریس کانفرنس میں چوہدری شجاعت کے بیان کی وضاحت کی اور کہا کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں اور رہیں گے ۔ اس سے اگلے ہی دن فوج کے ترجمان نے بھی حکومتی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج ایک صف میں ہیںاور آئینی ذمے داری کے تحت فوج جمہوری حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔
گزشتہ چندروز سے بااثر حلقوں میں ان باتوں کا چرچا ہے کہ اسلام آباد کی فضاؤں میں گہر چھا رہی ہے حکومت کے معاملات میں کچھ گڑ بڑ ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کی باتیں سنائی دے رہی ہیں لیکن اگرحقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو کیا ملک اس وقت اس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ ایک ایسی حکومت جو کہ ایک سال سے کچھ زیادہ کی مدت گزار چکی ہے اس کو رخصت کر دیا جائے اور پاکستان میں کوئی نیا تجربہ کیا جائے کیونکہ ملک کی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو عوام بھگتا چکے ہیں جب کہ تیسری قوت تحریک انصاف کو بھگت رہے ہیں کیونکہ جو وعدے تحریک انصاف نے عوام سے کیے تھے ابھی تک ان وعدوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا گیا اس لیے تحریک انصاف کی حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے لیکن کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا موقع دیا جائے تا کہ عوام خود فیصلہ کر سکیں کہ آیندہ انتخابات میں انھوں نے ہما کس کے سر پر بٹھانا ہے ۔
اس سے پہلے کی دونوں حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کر کے الیکشن میں عوام کی جانب سے مسترد کی جا چکی ہیں لہذا انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔
عمران خان ملک کے اداروں اور خاص طور پر عدلیہ کی خودمختاری کے سب سے بڑے داعی رہے ہیں اور اس وقت وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ اپنی عدلیہ سے شاکی ہیں اس لیے انھیں چیف جسٹس سے یہ اپیل کرنی پڑ گئی کہ وہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال اور ملک کو آزاد کریں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے کیس میںعدلیہ کا طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون کا تاثر واضح طور پر سامنے آیا ہے جو وزیر اعظم کی بات کو تقویت دیتا ہے ۔گو کہ چیف جسٹس صاحب نے وزیر اعظم کے عدلیہ سے گلے کی وضاحت بھی کردی۔
میرے نبی ﷺکا ارشاد ہے کہ '' تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا بڑا امیر و کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی''۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں ان کے ایک گورنر فاتح مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے کسی شخص کو بلا وجہ مارا ۔ حج کے موقعے پر اس شخص نے امیر المومنین سے اس کی شکایت کی آپؓ نے اپنے گورنر اور اس کے بیٹے کو بلایا اور گورنر کے بیٹے کو اس کے گورنر باپ کے سامنے کوڑے لگوائے ۔