یمن میں امن ہوا چاہتا ہے
اگر جنگ بندی میں ہوثی ملیشیا بھی شامل ہو جاتی ہے تو شدید دباؤ کی شکار سعودی معیشت کو تو جو راحت ملے گی سو ملے گی۔
تبدیلی دو ماہ قبل آنا شروع ہوئی جب سعودی تیل کمپنی آرامکو کی دو سب سے بڑی ریفائنریز میزائل کا نشانہ بنیں اور سعودی دفاعی چھتری کی ساکھ اور تیل کی پیداوار کو یکساں جھٹکا لگا۔پہلی بار ساڑھے چار برس سے جاری یمنی جنگ کے اثرات براہِ راست سعودی عرب میں بھرپور انداز میں محسوس کیے گئے۔
جو جنگ ولی عہد محمد بن سلمان نے شروع کی اب اسی جنگ کو ان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔گزشتہ ماہ سعودی حمایت یافتہ یمنی صدر ہادی منصور اور اماراتی حمایت یافتہ جنوبی ملیشیا کے درمیان امن سمجھوتہ ہوا۔اور پچھلے ہفتے عمان کے شاہ قابوس کی کوششوں سے مسقط میں شہزادہ خالد بن سلمان اور ایران نواز حوثیوں کے درمیان بات چیت ہوئی۔اس دوران سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عندیہ دیا کہ یمن میں امن کے امکانات پہلے سے کہیں روشن ہیں۔
اگر جنگ بندی میں ہوثی ملیشیا بھی شامل ہو جاتی ہے تو شدید دباؤ کی شکار سعودی معیشت کو تو جو راحت ملے گی سو ملے گی مگر اس سے بھی کئی سو گنا خوشی دو کروڑ سے زائد یمنیوں کو ہو گی۔جہاں جنگ کے آعاز سے اب تک لگ بھگ ایک لاکھ عام لوگ جنگ یا بیماری یا ناکافی غذائیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اسّی فیصد آبادی قحط سے دوچار ہے۔
جن حوثیوں ( زیدی شیعوں)کے خلاف سعودی عرب اور اس کے خلیجی ساتھی آج یکجا ہیں کبھی یمن پر ہزار برس حکومت کرنے والے یہی زیدی شیعہ سعودیوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور بات بھی زیادہ پرانی نہیں۔
جب جمال عبدالناصر نے پچاس کی دہائی میں عرب قوم پرستی کا جھنڈا اٹھایا اس وقت یمن پر امام محمد البدر کی حکومت تھی جسے جمال ناصر کی دشمن تین بادشاہتوں یعنی سعودی عرب، اردن اور ایران (جی ہاں ایران) کی مشترکہ سرپرستی حاصل تھی۔جب کہ امام بدر کی حکومت اکھاڑنے کی قوم پرست تحریک کے سربراہ عبداللہ السلاسل کو جمال ناصر اور سوویت بلاک کی حمایت تھی۔ یوں یمن کا قبائلی معاشرہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں شاہ پرستوں اور جمہور پرستوں میں بٹ چکا تھا۔
اس خانہ جنگی میں سعودیوں ، اردنیوں اور ایرانیوں کی جانب سے زیدی حکمران کو اسلحہ اور رقم کے بدلے ناصر نے ری پبلیکنز کی حمایت میں انیس سو باسٹھ میں یمن میں ستر ہزار مصری فوجی اتار دیے۔امام بدر نے بھاگ کے ایران کے بجائے سعودی عرب میں پناہ لی۔انیس سو پینسٹھ میں سعودی اور ان کے اتحادیوں نے شاہ پرستوں کی حمایت ترک کرنے میں عافیت جانی اور جون انیس سو اڑسٹھ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد جمال ناصر کے گوڈوں کا پانی بھی خشک ہوگیا اور اس نے بھی اپنے یمنی ویتنام سے مصری دستے واپس بلا لیے۔تاہم یہ ضرور ہوا کہ شمالی یمن پر ری پبلیکنز کی حکومت قائم ہوگئی اور زیدیوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا باضابطہ خاتمہ ہوگیا۔
شمالی یمن کے برعکس جنوبی یمن اس زمانے میں برطانیہ کے زیرِ انتظام تھا کیونکہ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان رابطے کے لیے انگریز کو بحیرہِ قلزم اور بحیرہ ہند کے نکڑ باب النمدب پر واقع عدن کی بندرگاہ درکار تھی۔مگر انیس سو سڑسٹھ میں لاغر برطانیہ نے بھی اپنا نوآبادیاتی تسلط اٹھانے کا فیصلہ کیا۔یوں عدن سمیت کچھ ساحلی صوبے جنوبی یمن کے نام سے ایک نیا ملک بن گئے اور وہاں قوم پرست مارکسسٹ حکومت برسراقتدار آگئی اور عدن میں سوویت بحری اڈہ بھی قائم ہوگیا۔انیس سو نوے میں یمن کے دونوں حصے متحد ہوگئے اور متحدہ وفاق کے سربراہ انیس سو اٹہتر سے شمالی یمن پر حکومت کرنے والے صدر علی عبداللہ صالح بن گئے۔
سعودی اور یمنی چپقلش کی تاریخی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔لہذا ہم اس برگد میں الجھے بغیر سیدھے انیس سو چونتیس میں آجاتے ہیں جب دو برس پرانی سعودی حکومت اور یمن کی زیدی امامیہ حکومت کے درمیان موٹی موٹی سرحدی حد بندی طے پائی۔آسر اور نجران کا یمنی علاقہ سعودیوں نے اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔اس کے عوض یمنیوں کو سعودی عرب میں بلا روک ٹوک آنے جانے، رہنے اور کام کرنے کی اجازت مرحمت ہوئی۔مگر یہ تعلق ایک غریب اور امیر کا دوستانہ تھا۔
لیکن یمنیوں اور سعودیوں نے کبھی سو فیصد باہمی اعتبار نہیں کیا۔یمن آج بھی اپنی فطرت میں ایک آزادی پسند کثیر نسلی جنگجو قبائلی معاشرہ ہے۔یہاں جس نے بھی جس نظریے سے حکومت کی اس نے قبائلی جوڑ توڑ کے بل پر ہی حکومت کی۔سعودی عرب کے برعکس یمنی قبائل وہابیت کی چھتری تلے مجتمع نہ ہوسکے۔یہاں کی ایک تہائی آبادی زیدی شیعہ ہے۔اور اس آبادی کی اکثریت بھی شمالی یمن کے سعودی عرب سے ملنے والے دو صوبوں سدہ اور امران میں بستی ہے۔
جب تک ایران میں بادشاہت تھی تب تک سعودیوں کو زیدیوں سے زیادہ شکایت نہیں تھی۔لیکن ایرانی انقلاب کے بعد سعودیوں کو خدشہ ہوا کہ کسی دن ایرانی ان زیدیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں لہذا دل میں ایسا نفسیاتی کھٹکا پیدا ہوگیا کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔جب کہ زیدیوں کو کئی برس سے یہ شکایت پیدا ہوچلی ہے کہ سعودی اسٹیبلشمنٹ ان قبائل کو اپنے مذہبی نظریے پر لانے کے لیے مالی ترغیبات کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کو بڑہاوا دے رہی ہے۔
سعودیوں نے انیس سو نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کو بھی بادلِِ نخواستہ قبول کیا کیونکہ دو کے مقابلے میں ایک یمن کہ جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہو منطقی اعتبار سے زیادہ بڑا علاقائی مسئلہ بن سکتا ہے۔اور جب انیس سو نوے میں متحدہ یمن نے کویت پر قبضہ کرنے والے صدام حسین کی مخالفت سے انکار اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہونے کے باوجود امریکی اتحادی فوج کشی کی حمایت میں ووٹ دینے سے انکار کردیا تو یمن پر گویا دہرا عذاب ٹوٹ پڑا۔
ایک جانب اسے عراق کی مالی مدد سے ہاتھ دھونا پڑا اور دوسری طرف سعودی عرب نے گستاخی اور نمک حرامی کی سزا دینے کے لیے راتوں رات ساڑھے سات لاکھ یمنی کارکنوں کو ملک سے کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔یوں ایک ہفتے میں ہی یمن کی آبادی پانچ فیصد بڑھ گئی۔
اور جب انیس سو چورانوے میں جنوبی یمن نے وفاق سے علیحدگی کی مسلح کوشش شروع کی تو سعودیوں نے جنوبی یمن کے باغیوں کی دامے درمے حوصلہ افزائی کی۔تاہم علی عبداللہ صالح کی حکومت نے اس بغاوت کو کچل دیا۔اس دوران یمن میں اسی کے عشرے میں دریافت ہونے والے چار ارب بیرل تیل کے ذخائر سے دو لاکھ بیرل روزانہ کی پیداوار بھی شروع ہوگئی۔لہذا سعودی عرب کی جانب سے امداد معطل ہونے اور تارکینِ وطن کے نکالے جانے کا دھچکا بھی یمنی برداشت کرگئے۔
یمن کے تیل کی پیداوار ان صوبوں سے آتی ہے جن کی حد سعودی عرب سے لگتی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان انیس سو چونتیس کے سرحدی حد بندی کے معاہدے کی معیاد انیس سو بانوے میں ختم ہوگئی۔مگر تیل کی دریافت کے سبب دونوں ممالک نے اپنی ایک ہزار میل سے زائد سرحد کی نئی حدبندی سے پہلے ایک دوسرے کے علاقوں پر تاریخی ملکیت کے دعوے شروع کردیے۔ سن دو ہزار میں جدہ سمجھوتے کے تحت سرحدی حد بندی کو بالاخر باقاعدہ شکل مل گئی۔
پھر نائن الیون ہوگیا۔القاعدہ بڑی ہوگئی۔سعودی عرب میں جب کریک ڈاؤن ہوا تو القاعدہ شدت پسندوں کو سرحد پار یمن کے پسماندہ ، پہاڑی علاقوں میں پناہ ملنے لگی۔لہذا یمن کی صالح حکومت ، سعودی عرب اور امریکا کو بادلِ نخواستہ ایک میز پر آنا پڑا اور امریکی ڈرونز کو بھی جگہ دینا پڑی۔اس دوران زیدی قبائل کی مرکزی حکومت کے ساتھ اس پر ٹھن گئی کہ ان کی ترقی پر زیادہ وفاقی توجہ نہیں دی جارہی چنانچہ انھوں نے حسین بدر الدین الہوڑی کی قیادت میں دو ہزار چار میں مسلح جدوجہد شروع کردی۔
سعودی کوششوں سے انیس سو دس میں فریقین میں قومی مصالحتی معاہدہ طے پایا اور یمن کو چھ خطوں کا وفاق تسلیم کیا گیا۔لیکن اگلے برس عرب اسپرنگ کا وائرس یمن تک پہنچ گیا اور علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کے خلاف سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔انھیں حکومت چھوڑ کے بغرضِ علاج سعودی عرب جانا پڑا اور ایک سمجھوتے کے تحت اقتدار ان کے نائب عبدالرب منصور ہادی کے حوالے ہوگیا۔
زیدی قبائل نے وفاقی اقتدارمیں حصے داری کے وعدے پورے نہ ہونے کے سبب پھر بغاوت کردی اور دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا۔ ملک کے زیادہ تر شمالی علاقوں پر ان کا کنٹرول ہے۔صدر منصور ہادی بھی اپنے ایک پیشرو امام بدر کی طرح بھاگ کے سعودی عرب پہنچ گئے اور سعودی قیادت میں ان کی حکومت کی بحالی کے لئِے مشترکہ عرب فوجی کارروائی توازنِ طاقت ٹس سے مس کرنے میں ناکام رہی۔
اس وقت یمن ایک ملک سے زیادہ وہ کھچڑی ہے جسے کئی داخلی و خارجی باورچی پکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مگر اب یہ کچھڑی جل چکی ہے اور کسی کے کھانے کے قابل نہیں رہی۔لہذا قوی امید ہے کہ اگلے چند ماہ میں یمنی چولہا ٹھنڈا ہو جائے گا اور باورچی اپنی اپنی راہ لیں گے۔پھر کسی اور دیگ اور چولہے کی تلاش میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
جو جنگ ولی عہد محمد بن سلمان نے شروع کی اب اسی جنگ کو ان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔گزشتہ ماہ سعودی حمایت یافتہ یمنی صدر ہادی منصور اور اماراتی حمایت یافتہ جنوبی ملیشیا کے درمیان امن سمجھوتہ ہوا۔اور پچھلے ہفتے عمان کے شاہ قابوس کی کوششوں سے مسقط میں شہزادہ خالد بن سلمان اور ایران نواز حوثیوں کے درمیان بات چیت ہوئی۔اس دوران سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عندیہ دیا کہ یمن میں امن کے امکانات پہلے سے کہیں روشن ہیں۔
اگر جنگ بندی میں ہوثی ملیشیا بھی شامل ہو جاتی ہے تو شدید دباؤ کی شکار سعودی معیشت کو تو جو راحت ملے گی سو ملے گی مگر اس سے بھی کئی سو گنا خوشی دو کروڑ سے زائد یمنیوں کو ہو گی۔جہاں جنگ کے آعاز سے اب تک لگ بھگ ایک لاکھ عام لوگ جنگ یا بیماری یا ناکافی غذائیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اسّی فیصد آبادی قحط سے دوچار ہے۔
جن حوثیوں ( زیدی شیعوں)کے خلاف سعودی عرب اور اس کے خلیجی ساتھی آج یکجا ہیں کبھی یمن پر ہزار برس حکومت کرنے والے یہی زیدی شیعہ سعودیوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور بات بھی زیادہ پرانی نہیں۔
جب جمال عبدالناصر نے پچاس کی دہائی میں عرب قوم پرستی کا جھنڈا اٹھایا اس وقت یمن پر امام محمد البدر کی حکومت تھی جسے جمال ناصر کی دشمن تین بادشاہتوں یعنی سعودی عرب، اردن اور ایران (جی ہاں ایران) کی مشترکہ سرپرستی حاصل تھی۔جب کہ امام بدر کی حکومت اکھاڑنے کی قوم پرست تحریک کے سربراہ عبداللہ السلاسل کو جمال ناصر اور سوویت بلاک کی حمایت تھی۔ یوں یمن کا قبائلی معاشرہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں شاہ پرستوں اور جمہور پرستوں میں بٹ چکا تھا۔
اس خانہ جنگی میں سعودیوں ، اردنیوں اور ایرانیوں کی جانب سے زیدی حکمران کو اسلحہ اور رقم کے بدلے ناصر نے ری پبلیکنز کی حمایت میں انیس سو باسٹھ میں یمن میں ستر ہزار مصری فوجی اتار دیے۔امام بدر نے بھاگ کے ایران کے بجائے سعودی عرب میں پناہ لی۔انیس سو پینسٹھ میں سعودی اور ان کے اتحادیوں نے شاہ پرستوں کی حمایت ترک کرنے میں عافیت جانی اور جون انیس سو اڑسٹھ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد جمال ناصر کے گوڈوں کا پانی بھی خشک ہوگیا اور اس نے بھی اپنے یمنی ویتنام سے مصری دستے واپس بلا لیے۔تاہم یہ ضرور ہوا کہ شمالی یمن پر ری پبلیکنز کی حکومت قائم ہوگئی اور زیدیوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا باضابطہ خاتمہ ہوگیا۔
شمالی یمن کے برعکس جنوبی یمن اس زمانے میں برطانیہ کے زیرِ انتظام تھا کیونکہ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان رابطے کے لیے انگریز کو بحیرہِ قلزم اور بحیرہ ہند کے نکڑ باب النمدب پر واقع عدن کی بندرگاہ درکار تھی۔مگر انیس سو سڑسٹھ میں لاغر برطانیہ نے بھی اپنا نوآبادیاتی تسلط اٹھانے کا فیصلہ کیا۔یوں عدن سمیت کچھ ساحلی صوبے جنوبی یمن کے نام سے ایک نیا ملک بن گئے اور وہاں قوم پرست مارکسسٹ حکومت برسراقتدار آگئی اور عدن میں سوویت بحری اڈہ بھی قائم ہوگیا۔انیس سو نوے میں یمن کے دونوں حصے متحد ہوگئے اور متحدہ وفاق کے سربراہ انیس سو اٹہتر سے شمالی یمن پر حکومت کرنے والے صدر علی عبداللہ صالح بن گئے۔
سعودی اور یمنی چپقلش کی تاریخی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔لہذا ہم اس برگد میں الجھے بغیر سیدھے انیس سو چونتیس میں آجاتے ہیں جب دو برس پرانی سعودی حکومت اور یمن کی زیدی امامیہ حکومت کے درمیان موٹی موٹی سرحدی حد بندی طے پائی۔آسر اور نجران کا یمنی علاقہ سعودیوں نے اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔اس کے عوض یمنیوں کو سعودی عرب میں بلا روک ٹوک آنے جانے، رہنے اور کام کرنے کی اجازت مرحمت ہوئی۔مگر یہ تعلق ایک غریب اور امیر کا دوستانہ تھا۔
لیکن یمنیوں اور سعودیوں نے کبھی سو فیصد باہمی اعتبار نہیں کیا۔یمن آج بھی اپنی فطرت میں ایک آزادی پسند کثیر نسلی جنگجو قبائلی معاشرہ ہے۔یہاں جس نے بھی جس نظریے سے حکومت کی اس نے قبائلی جوڑ توڑ کے بل پر ہی حکومت کی۔سعودی عرب کے برعکس یمنی قبائل وہابیت کی چھتری تلے مجتمع نہ ہوسکے۔یہاں کی ایک تہائی آبادی زیدی شیعہ ہے۔اور اس آبادی کی اکثریت بھی شمالی یمن کے سعودی عرب سے ملنے والے دو صوبوں سدہ اور امران میں بستی ہے۔
جب تک ایران میں بادشاہت تھی تب تک سعودیوں کو زیدیوں سے زیادہ شکایت نہیں تھی۔لیکن ایرانی انقلاب کے بعد سعودیوں کو خدشہ ہوا کہ کسی دن ایرانی ان زیدیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں لہذا دل میں ایسا نفسیاتی کھٹکا پیدا ہوگیا کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔جب کہ زیدیوں کو کئی برس سے یہ شکایت پیدا ہوچلی ہے کہ سعودی اسٹیبلشمنٹ ان قبائل کو اپنے مذہبی نظریے پر لانے کے لیے مالی ترغیبات کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کو بڑہاوا دے رہی ہے۔
سعودیوں نے انیس سو نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کو بھی بادلِِ نخواستہ قبول کیا کیونکہ دو کے مقابلے میں ایک یمن کہ جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہو منطقی اعتبار سے زیادہ بڑا علاقائی مسئلہ بن سکتا ہے۔اور جب انیس سو نوے میں متحدہ یمن نے کویت پر قبضہ کرنے والے صدام حسین کی مخالفت سے انکار اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہونے کے باوجود امریکی اتحادی فوج کشی کی حمایت میں ووٹ دینے سے انکار کردیا تو یمن پر گویا دہرا عذاب ٹوٹ پڑا۔
ایک جانب اسے عراق کی مالی مدد سے ہاتھ دھونا پڑا اور دوسری طرف سعودی عرب نے گستاخی اور نمک حرامی کی سزا دینے کے لیے راتوں رات ساڑھے سات لاکھ یمنی کارکنوں کو ملک سے کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔یوں ایک ہفتے میں ہی یمن کی آبادی پانچ فیصد بڑھ گئی۔
اور جب انیس سو چورانوے میں جنوبی یمن نے وفاق سے علیحدگی کی مسلح کوشش شروع کی تو سعودیوں نے جنوبی یمن کے باغیوں کی دامے درمے حوصلہ افزائی کی۔تاہم علی عبداللہ صالح کی حکومت نے اس بغاوت کو کچل دیا۔اس دوران یمن میں اسی کے عشرے میں دریافت ہونے والے چار ارب بیرل تیل کے ذخائر سے دو لاکھ بیرل روزانہ کی پیداوار بھی شروع ہوگئی۔لہذا سعودی عرب کی جانب سے امداد معطل ہونے اور تارکینِ وطن کے نکالے جانے کا دھچکا بھی یمنی برداشت کرگئے۔
یمن کے تیل کی پیداوار ان صوبوں سے آتی ہے جن کی حد سعودی عرب سے لگتی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان انیس سو چونتیس کے سرحدی حد بندی کے معاہدے کی معیاد انیس سو بانوے میں ختم ہوگئی۔مگر تیل کی دریافت کے سبب دونوں ممالک نے اپنی ایک ہزار میل سے زائد سرحد کی نئی حدبندی سے پہلے ایک دوسرے کے علاقوں پر تاریخی ملکیت کے دعوے شروع کردیے۔ سن دو ہزار میں جدہ سمجھوتے کے تحت سرحدی حد بندی کو بالاخر باقاعدہ شکل مل گئی۔
پھر نائن الیون ہوگیا۔القاعدہ بڑی ہوگئی۔سعودی عرب میں جب کریک ڈاؤن ہوا تو القاعدہ شدت پسندوں کو سرحد پار یمن کے پسماندہ ، پہاڑی علاقوں میں پناہ ملنے لگی۔لہذا یمن کی صالح حکومت ، سعودی عرب اور امریکا کو بادلِ نخواستہ ایک میز پر آنا پڑا اور امریکی ڈرونز کو بھی جگہ دینا پڑی۔اس دوران زیدی قبائل کی مرکزی حکومت کے ساتھ اس پر ٹھن گئی کہ ان کی ترقی پر زیادہ وفاقی توجہ نہیں دی جارہی چنانچہ انھوں نے حسین بدر الدین الہوڑی کی قیادت میں دو ہزار چار میں مسلح جدوجہد شروع کردی۔
سعودی کوششوں سے انیس سو دس میں فریقین میں قومی مصالحتی معاہدہ طے پایا اور یمن کو چھ خطوں کا وفاق تسلیم کیا گیا۔لیکن اگلے برس عرب اسپرنگ کا وائرس یمن تک پہنچ گیا اور علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کے خلاف سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔انھیں حکومت چھوڑ کے بغرضِ علاج سعودی عرب جانا پڑا اور ایک سمجھوتے کے تحت اقتدار ان کے نائب عبدالرب منصور ہادی کے حوالے ہوگیا۔
زیدی قبائل نے وفاقی اقتدارمیں حصے داری کے وعدے پورے نہ ہونے کے سبب پھر بغاوت کردی اور دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا۔ ملک کے زیادہ تر شمالی علاقوں پر ان کا کنٹرول ہے۔صدر منصور ہادی بھی اپنے ایک پیشرو امام بدر کی طرح بھاگ کے سعودی عرب پہنچ گئے اور سعودی قیادت میں ان کی حکومت کی بحالی کے لئِے مشترکہ عرب فوجی کارروائی توازنِ طاقت ٹس سے مس کرنے میں ناکام رہی۔
اس وقت یمن ایک ملک سے زیادہ وہ کھچڑی ہے جسے کئی داخلی و خارجی باورچی پکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مگر اب یہ کچھڑی جل چکی ہے اور کسی کے کھانے کے قابل نہیں رہی۔لہذا قوی امید ہے کہ اگلے چند ماہ میں یمنی چولہا ٹھنڈا ہو جائے گا اور باورچی اپنی اپنی راہ لیں گے۔پھر کسی اور دیگ اور چولہے کی تلاش میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)