کتب سے دوری کیوں
نہ صرف کتاب کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے بلکہ کتب کے ساتھ ساتھ اخبارات و جرائد کے مطالعے کا شوق پیدا کریں۔
یہ تذکرہ زمانہ قدیم کا نہیں ہے بلکہ فقط 35 سے 40 برس قبل کا ذکر ہے کہ جب کتاب بینی کا بے حد شوق پایا جاتا تھا، اس وقت جو بہترین تحفہ کسی کی نذرکیا جاتا تھا، وہ کتاب تھی ۔ جو کتاب کسی کو تحفے میں دی جاتی تو اس کے ذوق مطالعہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا، مثلاً اگرکسی کو ناول دیا جاتا تو اول اس چیزکو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ کس قسم کے مطالعے کا ذوق رکھتا ہے۔
رومانوی، سماجی، جاسوسی و مزاح سے بھرپور۔ یہی خیال شاعری کی کتاب دیتے وقت ذہن میں رکھا جاتا ہے کہ جسے کتاب تحفے میں دی جا رہی ہے وہ کس قسم کی شاعری پسند کرتا ہے۔ رومانوی شاعری، مزاحمتی شاعری جیسے کہ ترقی پسند نظریات کی عکاسی کرتی ہو یا نامور ترین ترقی پسند ادبا کی ایسی تحریروں پر مبنی کتب دی جاتی تھیں، جنھیں پڑھنے کے بعد انسان نیند کی وادیوں میں نہیں جاتا بلکہ شعوری طور پر بیدار ہو جاتا ہے۔
ایسی کتب میں کارل مارکس، لینن، میکسم گورکی، رابندر ناتھ ٹیگور، فیض احمد فیضؔ وغیرہ کی کتب کثرت سے تحفے میں دی جاتیں پھر ہوتا یہ کہ تحفہ وصول کرنے والا بھی تحفے کے جواب میں کتب ہی تحفے میں پیش کرتا گو کہ آج بھی اہل ادب تحفے میں کتاب پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ روایت اب کم ہوتی جا رہی ہے۔
اگر ذکر کریں 1970ء کا یا اس سے قبل کا تو کیفیت یہ تھی کہ اس وقت متحدہ پاکستان میں یعنی مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان۔ 1971ء مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان موجودہ پاکستان ہے تو مغربی پاکستان کی آبادی کوئی پانچ کروڑ پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی مگر اس وقت جو بھی کتاب چھپتی تھی اس کی تعداد ہوتی تھی گیارہ سو، البتہ عصر حاضر میں کتب کے ساتھ ناانصافی دیکھیے کہ اس وقت ملک کی آبادی ہے 22 کروڑ نفوس پر مشتمل اور جب کوئی کتاب چھاپی جاتی ہے تو اس کی تعداد ہوتی ہے پانچ سو، اور اس پانچ سو میں سے 150 کتب احباب میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔
اب جو کتب ہے حقیقی وہ ہے 350، اب ان میں سے کتنی تعداد میں فروخت ہوتی ہوں گی، یہ ایک الگ بات ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کتب میں سے اکثریت کباڑی شہر کی راہداریوں پر رکھے فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ کتب کے ساتھ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ فی زمانہ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں کم سے کم چار ہزار پانچ سو کتب چھاپی جاتیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی نئی کتاب جب بازار میں فروخت کے لیے آتی ہے تو اس کتاب کی مارکیٹنگ فقط اسی شہر تک محدود ہوتی ہے جس شہر میں وہ کتاب ناشر چھاپتا ہے مثلاً کراچی میں چھپنے والی کتاب لاہور میں اور لاہور میں چھپنے والی کتاب کراچی میں دستیاب نہیں ہوتی۔
ایک تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ ماضی میں چھپنے والی کتب کے ادبا کو معقول معاوضہ بھی ملتا تھا۔ عصر حاضر میں ایسا کچھ نہیں ہے، پھر کتب پڑھنے والوں کے ساتھ ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ کتب کی قیمتیں عام قاری کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں یہاں ایک لطیفہ اگر تحریر کر دیا جائے تو بے محل نہ ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے کتب فروشی کا کاروبار شروع کیا کافی دنوں بعد ان کتب فروش کے ایک دوست ان کی دکان پر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ کہیے صاحب کیسا جا رہا ہے آپ کا کتب فروشی کا کاروبار؟ اپنے دوست کے دریافت کرنے پر کتب فروش نے جواب دیا کہ کاروبار ایک دم ٹھپ ہے کیونکہ جو لوگ کتب خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
ان کو کتب پڑھنے کا شوق نہیں اور جو لوگ کتب پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ان کی جیب میں کتب خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ اب ان حالات میں کتب فروشی کا کاروبار کیسے چل سکتا ہے۔ البتہ پڑوسی ملک ہندوستان میں ایسا نہیں ہے، وہاں جو بھی کتاب چھاپی جاتی ہے اس کی تعداد ہوتی ہے 20 ہزار۔ یہ ضرور ہے کہ کتاب چھپنے کے بعد اس کی مناسب طریقے سے مارکیٹنگ کی جاتی ہے تا کہ نئی چھپنے والی کتب تک عام قاری کی رسائی ممکن بنائی جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کتب دوست لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جن کی ذاتی لائبریری میں ہزارہا کتب موجود ہیں۔ ایسے کتب دوست لوگوں میں نامور ادبی شخصیت سحر انصاری ہیں گو کہ ان کے ذاتی کتب خانے میں آگ لگ گئی تھی اور بہت ساری کتب اس آگ کی نظر ہو گئیں مگر اس کے باوجود ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود کتب کی تعداد ہے 45 ہزار۔ دعا ہے کہ خداوند کریم انھیں سدا سلامت رکھے مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ جب کسی کتاب دوست انسان کا انتقال ہوتا ہے تو اس کتاب دوست شخصیت کے ذاتی کتب خانے کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔
اس بارے میں علی حسن ساجد نے ایک تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ساٹھ برس تک بچوں کے رسالہ نونہال کے مدیر اعلیٰ کے فرائض انجام دینے والے مسعود احمد برکاتی کا جب انتقال ہوا تو ان کی شریک حیات نے انھیں بلوایا اور کہا کہ آپ کو جس قدر برکاتی صاحب کے ذاتی کتب خانے سے کتب درکار ہوں آپ لے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ اب یہ کتب ہم اپنے گھر میں رکھنے سے قاصر ہیں۔
علی حسن ساجد صاحب نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے برکاتی صاحب کے ذاتی کتب خانے سے چند کتب لیں اور چلا آیا۔ بلاشبہ برکاتی صاحب کا ذاتی کتب خانہ کسی کباڑی کے حوالے کر دیا گیا ہو گا۔ البتہ انھوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ جن ادبا کرام کا وصال ہو جاتا ہے کوشش کی جائے کہ ان کا سرمایہ حیات یعنی ان کا ذاتی کتب خانہ پورے کا پورا حاصل کر لیا جائے اور محفوظ کر لیا جائے تا کہ عام قاری ان کتب سے استفادہ کر سکے، تاہم لازم ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک لائبریری قائم کی جائے۔ علی حسن ساجد کی جانب سے لائبریری کی تجویز اچھی بات ہے مگر میرے خیال میں تنہا شاید وہ لائبریری کا قیام عمل میں نہ لا سکیں۔
لازم ہے ادب دوست لوگ آگے آئیں اور سب مل کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، اگر سندھ حکومت بھی اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات اٹھائے تو یہ احسن عمل ہوگا۔ آخر میں ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگرچہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا اپنا کردار ضرور ہے مگر نہ تو کتاب کے کردار کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کتاب کی اہمیت سے انحراف کیا جا سکتا ہے۔
لیکن لازم ہے کہ نہ صرف کتاب کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے بلکہ کتب کے ساتھ ساتھ اخبارات و جرائد کے مطالعے کا شوق پیدا کریں مگر ضروری ہے کہ حکومت کتب لکھنے والوں وکتب چھاپنے والوں کی سرپرستی کرے تاکہ کتب زیادہ سے زیادہ لکھی جائیں اور چھاپی جائیں۔ یاد رکھیں زندہ قومیں علم دوست و ادب دوست ہوتی ہیں نہ کہ علم سے دوری اختیار کرتی ہیں، چنانچہ ضروری ہے کہ کتب بینی کا شوق پیدا کریں اور کتب دوستی کا عمل پیدا کریں یوں بھی کتاب بہترین دوست ہوتی ہے۔