الزائیمر کا لاعلاج مرض چھوٹی تبدیلیوں سے شروع ہوتا ہے ماہرین

اب تک کی تحقیق کے مطابق اس مرض کا علاج نہیں اور یہ مرض تیزی سے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے

پاکستان میں 60 سال سے زائد عمر کے 10 فیصد افراد الزائیمر کی کسی نہ کسی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ فوٹو: فائل

دماغی و ذہنی امراض کے ماہرین نے کہا ہے کہ حافظے کی کمزوری (الزائمر) میں انسان کے معمولاتِ زندگی، مزاج اور رویّے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن پر توجہ نہ دینے سے یہ مرض الزائمر میں تبدیل ہوجاتا ہے جو ایک لاعلاج بیماری ہے۔ الزائمر کے لاحق ہونے کا کوئی معروف سبب اب تک دریافت نہیں ہوسکا۔ وٹامن بی 12 کی کمی، بلند فشار خون، شوگر، نیند کی کمی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام زیر تربیت ماہرین اعصاب و دماغ کےلیے پاکستان میں حافظے کی کمزوری (الزائمر) کے متعلق تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ تربیتی ورکشاپ سے پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، پروفیسر اقبال آفریدی، پروفیسر حیدر علی نقوی، ڈاکٹر صفیہ اعوان سمیت دیگر ماہرین دماغ و اعصاب نے شہر بھر کے زیر تربیت ماہرین دماغ و اعصاب کو حافظے کی کمزوری (الزائمر) کے حوالے سے جدید تحقیقات اور علاج کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر ماہرین دماغ و اعصاب پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، پروفیسر اقبال آفریدی، پروفیسر حیدر علی نقوی، ڈاکٹر صفیہ اعوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حافظے کی کمزوری (الزائمر) کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک دماغی اور زندگی کو کم کرنے والا مرض ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً 10 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت اس بیماری سے لاعلم ہے۔

الزائمر کی ابتدائی علامات میں یادداشت کی کمی و روز مرہ سرگرمیوں کا بھول جانا شامل ہے۔ جب مرض بڑھتا ہے تو مریض کھانا کھانا، کپڑے پہننا اور گھر کے پتے سمیت اپنے بچوں اور قریبی عزیزواقارب تک کو بھولنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کی کیفیت چھوٹے بچے کی سی ہو جاتی ہے جسے کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں مریضوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق الزائمر کی ابتدائی شکل ڈیمنشیا (نسیان) دنیا بھر میں ایک بڑھتا ہوا مرض ہے جس کے مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے لیکن ماہرین کے مطابق 2050 تک اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔


ماہرین نے کہا کہ حافظے کی کمزوری (الزائمر) کی تاحال کوئی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی۔ عموماً 60 سال کی عمر کے بعد دماغ کے خلیے ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس سے دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں جن کا تعلق حافظے، سوجھ بوجھ اور شخصیت سازی سے ہوتا ہے نتیجتاً انسان حساب کتاب اور سوچ بچار تک نہیں کرسکتا اور چیزوں کو بھولنا شروع ہوجاتا ہے۔

ماہرین دماغ و ذہنی امراض کے مطابق الزائمر کے لاحق ہونے کا کوئی معروف سبب ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا لیکن وٹامن بی 12 کی کمی، بلند فشار خون، شوگر، نیند کی کمی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی منفی عادات، جیسے کہ دیر تک سونا اور دیر سے جاگنا، چکنائی اور بھاری غذاؤں کا استعمال وغیرہ یادداشت کمزوری کی وجہ بنتی ہیں۔

بے خوابی کی شکایت صبح اٹھ کر سر میں درد ہونا، دن بھر جسم بوجھل رہنا، سوتے میں سانس پھولنا، خراٹے لینا، قوت یادداشت کی کمزوری کی واضح علامات اور وجوہ ہوسکتی ہیں۔ جو افراد نیند کی گولیاں، اینٹی ڈپریسنٹ اور دردِ سر کی گولیاں استعمال کرتے ہیں، انہیں ذہنی کمزوری یا بھولنے کی شکایت ہوسکتی ہے۔ مستقل افسردگی، مایوسی، تنہائی اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کی قوت یادداشت جلد متاثر ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں 60 سال سے زائد عمر کے 10 فیصد افراد کو یہ بیماری لاحق ہے۔ یہ بہت تیزی سے بڑھتی ہے اس لیے ابتداء میں اس کی تشخیص بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس بیماری کو ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم بروقت تشخیص کے بعد اس کی پیچیدگیوں اور شدید تر ہونے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے۔

جو افراد زیادہ سوچ بچار، دماغ کے زیادہ استعمال اور ورزش سمیت صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں انہیں اس بیماری میں مبتلا ہونے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اس لیے صحت مند زندگی گزارنے سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے لوگوں میں آگہی بہت کم ہے۔
Load Next Story