معیشت مستحکم ہو رہی ہے مہنگائی پر قابو پالیں گے حفیظ شیخ
4ماہ سے اسٹیٹ بینک نے نوٹ چھاپنا بندکردیے،روپے کی قدرمیں استحکام آیا،ہماری کوششوں سے برآمدات بڑھ رہی ہیں، مشیر خزانہ
مشیرخزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے کہاہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے، شرح نمو2.4سے بڑھ کر3.5 فیصد سے زیادہ ہوجائے گی ۔ملکی اداروں کوپائیداربنانے پرفوکس ہے جب کہ مہنگائی پر بھی قابو پالیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام'' دی ریویو'' میںکامران یوسف اور شہباز راناسے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا میںنے6 ماہ میں دو دن کی چھٹی کی ہے، ہمارے دورمیں پہلی بار برآمدات میں بہتری آئی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں6 فیصداضافہ ہواہے۔ وفاق سے صوبوں کوملنے والی رقم میں بھی اضافہ ہواہے۔ رواں سال شرح نموکاہدف عبورکرلیں گے ماضی کی معاشی پالیسیوں کو بہتر کرناہوگا،زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کا پی ایس ڈی پی پچھلے سال 600 تھا اس سال900 ہوگا، ٹیکسٹائل، بینک، فرٹیلائزر،ٹیلی کمیونیکیشن، سیمنٹ، الیکٹرانکس وغیرہ کے شعبوں میں بہت بہتری ہو رہی ہے۔ ہمارا بنیادی فوکس ایکسپورٹس کوبڑھانے پرہے، ہم نے جواقدامات لیے ہیں ان پر برقرار رہیں اور آئی ایم ایف کے پروگرام کو اچھے طریقے سے استعمال کرلیں تو آئندہ خودانحصاری بڑھ جائے گی۔میری یہی کوشش ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسیاں مثبت طریقے سے آگے بڑھیں۔
انہوں نے کہا اگرپاکستان کی تاریخ کاجائزہ لیاجائے تو چند چیزیں مستقل اسکے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جوپاکستان کوڈیفائن کرتی ہیں انکاکسی حکومت یاپارٹی کے ساتھ تعلق نہیں۔ یہ پاکستان کے بڑے حقائق ہیں جومسلسل ہمارے ساتھ چلے آرہے ہیں یہاں معاشی گروتھ کبھی چارسال سے زیادہ نہیں چلی60 کی دہائی میں4سال چلی،80ء اور2000ء کی دہائی میںیہ چار سال تک چلی آخرکیوں ہمیں مستقل ترقی حاصل نہیں ہوتی ۔اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں مستقل سیاسی استحکام نہیں ملا یہاں بہت کم وزرائے اعظم ہیں جنہوں نے اپنی مدت پوری کی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم اگران ممالک کودیکھیں جنہوں نے ترقی کی انہوں نے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات بہت اچھے طریقے سے قائم رکھے ہیں۔ لیکن یہ ہماری کمزوری رہی ہے کہ ہم کامیاب اقتصادی تعلقات قائم نہیں کرسکے ۔اس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ بھی نہیں بڑھیں اورہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے والے بھی نہیں بڑھے۔اب ہم نے وہ چیزیں کر دی ہیں جو ہمیں کامیابی دلوائیں گی۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ اگر ہم بنیادی طورپرکامیاب ممالک کو دیکھیں تو تین چیزیںنظر آتی ہیں ایک انہوں نے اپنے لوگوںپر بہت توجہ دی ہے اور انکی تعلیم اور ان کے ہنر پرتوجہ دی ہے یہ ہمیں کرناہوگا اورہم کر رہے ہیں۔ نوکریاں دینا اور ایکسپورٹ کرنا یا دوسرے ممالک سے سرمایہ کاروں کویہاں لانا یہ بنیادی طورپرپرائیویٹ سیکٹرکاکام ہے اور بطورحکومت ہمیں اس میں سہولیات فراہم کرنا اور اسے آسان بناناہے۔
انہوں نے کہا کہ 15یا16کامیاب ممالک ہیں جہاں 20 سال پہلے فی کس آمدن ہزارڈالرتھی لیکن اب بیس ہزارڈالر اور 50 ہزارڈالربھی ہے وہاں حکومتوں کاکام صرف کامیاب پالیسیاں بناناہے، اگر عام پاکستانی سے پوچھیں کہ ان کابڑا مسئلہ کیاہے تو وہ کہیں گے کہ مہنگائی، اس کی وجہ ہم نے کرنسی کو استحکام دینے کیلئے ڈی ویلیو ایشن کی ہے تاکہ ہماری ایکسپورٹس آسانی سے باہرجا سکیں جبکہ ہم باہر سے جو چیزیں امپورٹ کرتے ہیں وہ مہنگی ہوئیں اس وقت لوگوں کی زندگی مہنگائی سے متاثرہورہی ہے اورہماری بھرپورکوشش ہے کہ اس پرقابوپائیں ہم نے پچھلے چار مہینے سے سٹیٹ بینک سے نوٹ چھاپنے بندکردیئے ہیں۔ یہ آئی ایم ایف کی شرط ہمارے لیے بہتر ہے کیونکہ یہ مہنگائی کوقابوکرنے میں مددکرے گی۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک مہنگائی کوکنٹرول کرنے کیلئے یہ کر سکتاہے کہ شرح سود کومناسب سطح پررکھے تاکہ ڈیمانڈ نہ بڑھ۔کچھ لوگ ایسے ہیں جوبینکوں سے قرض لیتے ہیں وہ یہ چاہیں گے کہ یہ کم سے کم ہو تاکہ وہ آسانی سے بینکوں سے قرض لے سکیں۔کچھ لوگ بینکوں میں اپناپیسہ،پنشن اور ساری عمرکی کمائی رکھتے ہیں تاکہ عمرکے آخری حصہ میں انہیں کوئی بچت ملے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بھی نقصان نہ ہو معاشی پالیسیاں درست کررہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام'' دی ریویو'' میںکامران یوسف اور شہباز راناسے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا میںنے6 ماہ میں دو دن کی چھٹی کی ہے، ہمارے دورمیں پہلی بار برآمدات میں بہتری آئی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں6 فیصداضافہ ہواہے۔ وفاق سے صوبوں کوملنے والی رقم میں بھی اضافہ ہواہے۔ رواں سال شرح نموکاہدف عبورکرلیں گے ماضی کی معاشی پالیسیوں کو بہتر کرناہوگا،زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کا پی ایس ڈی پی پچھلے سال 600 تھا اس سال900 ہوگا، ٹیکسٹائل، بینک، فرٹیلائزر،ٹیلی کمیونیکیشن، سیمنٹ، الیکٹرانکس وغیرہ کے شعبوں میں بہت بہتری ہو رہی ہے۔ ہمارا بنیادی فوکس ایکسپورٹس کوبڑھانے پرہے، ہم نے جواقدامات لیے ہیں ان پر برقرار رہیں اور آئی ایم ایف کے پروگرام کو اچھے طریقے سے استعمال کرلیں تو آئندہ خودانحصاری بڑھ جائے گی۔میری یہی کوشش ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسیاں مثبت طریقے سے آگے بڑھیں۔
انہوں نے کہا اگرپاکستان کی تاریخ کاجائزہ لیاجائے تو چند چیزیں مستقل اسکے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جوپاکستان کوڈیفائن کرتی ہیں انکاکسی حکومت یاپارٹی کے ساتھ تعلق نہیں۔ یہ پاکستان کے بڑے حقائق ہیں جومسلسل ہمارے ساتھ چلے آرہے ہیں یہاں معاشی گروتھ کبھی چارسال سے زیادہ نہیں چلی60 کی دہائی میں4سال چلی،80ء اور2000ء کی دہائی میںیہ چار سال تک چلی آخرکیوں ہمیں مستقل ترقی حاصل نہیں ہوتی ۔اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں مستقل سیاسی استحکام نہیں ملا یہاں بہت کم وزرائے اعظم ہیں جنہوں نے اپنی مدت پوری کی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم اگران ممالک کودیکھیں جنہوں نے ترقی کی انہوں نے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات بہت اچھے طریقے سے قائم رکھے ہیں۔ لیکن یہ ہماری کمزوری رہی ہے کہ ہم کامیاب اقتصادی تعلقات قائم نہیں کرسکے ۔اس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ بھی نہیں بڑھیں اورہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے والے بھی نہیں بڑھے۔اب ہم نے وہ چیزیں کر دی ہیں جو ہمیں کامیابی دلوائیں گی۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ اگر ہم بنیادی طورپرکامیاب ممالک کو دیکھیں تو تین چیزیںنظر آتی ہیں ایک انہوں نے اپنے لوگوںپر بہت توجہ دی ہے اور انکی تعلیم اور ان کے ہنر پرتوجہ دی ہے یہ ہمیں کرناہوگا اورہم کر رہے ہیں۔ نوکریاں دینا اور ایکسپورٹ کرنا یا دوسرے ممالک سے سرمایہ کاروں کویہاں لانا یہ بنیادی طورپرپرائیویٹ سیکٹرکاکام ہے اور بطورحکومت ہمیں اس میں سہولیات فراہم کرنا اور اسے آسان بناناہے۔
انہوں نے کہا کہ 15یا16کامیاب ممالک ہیں جہاں 20 سال پہلے فی کس آمدن ہزارڈالرتھی لیکن اب بیس ہزارڈالر اور 50 ہزارڈالربھی ہے وہاں حکومتوں کاکام صرف کامیاب پالیسیاں بناناہے، اگر عام پاکستانی سے پوچھیں کہ ان کابڑا مسئلہ کیاہے تو وہ کہیں گے کہ مہنگائی، اس کی وجہ ہم نے کرنسی کو استحکام دینے کیلئے ڈی ویلیو ایشن کی ہے تاکہ ہماری ایکسپورٹس آسانی سے باہرجا سکیں جبکہ ہم باہر سے جو چیزیں امپورٹ کرتے ہیں وہ مہنگی ہوئیں اس وقت لوگوں کی زندگی مہنگائی سے متاثرہورہی ہے اورہماری بھرپورکوشش ہے کہ اس پرقابوپائیں ہم نے پچھلے چار مہینے سے سٹیٹ بینک سے نوٹ چھاپنے بندکردیئے ہیں۔ یہ آئی ایم ایف کی شرط ہمارے لیے بہتر ہے کیونکہ یہ مہنگائی کوقابوکرنے میں مددکرے گی۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک مہنگائی کوکنٹرول کرنے کیلئے یہ کر سکتاہے کہ شرح سود کومناسب سطح پررکھے تاکہ ڈیمانڈ نہ بڑھ۔کچھ لوگ ایسے ہیں جوبینکوں سے قرض لیتے ہیں وہ یہ چاہیں گے کہ یہ کم سے کم ہو تاکہ وہ آسانی سے بینکوں سے قرض لے سکیں۔کچھ لوگ بینکوں میں اپناپیسہ،پنشن اور ساری عمرکی کمائی رکھتے ہیں تاکہ عمرکے آخری حصہ میں انہیں کوئی بچت ملے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بھی نقصان نہ ہو معاشی پالیسیاں درست کررہے ہیں۔