ٹنڈو غلام علی کی گدھا منڈی
ایک اچھوتا بازار جو میلے کا رنگ اختیار کرگیا ہے
زیریں سندھ کے ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور ٹنڈو محمد خان اضلاع کو مقامی باشندے لاڑ کہہ کر پکارتے ہیں، اسی طرح جیکب آباد اور ملحقہ اضلاع کو اتر کہا جاتا ہے گنے کی بمپرفصل کے باعث یہ علاقہ شوگر اسٹیٹ بھی مشہور ہے۔
ویسے یہاں دھان اور سورج مکھی کی کاشت بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور تیل و گیس کے وافر ذخائر بھی ایک وجہ شہرت ہے۔ اسی علاقے میں ضلع بدین کا قصبہ ٹنڈو غلام علی اپنی ایک انفرادیت کے باعث بھی معروف ہے۔
اول یہ کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ میں 36ء سے 47ء تک سر غلام حسین ہدایت اللہ، اللہ بخش سومرو اور بندے علی تالپور نے وزرائے اعلیٰ کا منصب سنبھالا اس زمانے میں یہ عہدہ وزیراعظم کہلاتا تھا اول الذکر دونوں شخصیات دو دو بار اس عہدے پر متمکن رہیں جب کہ آخر الذکر ایک بار ''پریمیر'' رہے۔ بندے علی تالپور کا تعلق ٹنڈو غلام علی سے تھا اور اس قصبے کا یہ نام بھی ان کے جدامجد کے نام پر ہے۔
ہمارے صحافی دوست حبیب الرحمن قریشی راوی ہیں کہ اس قصبے میں آباد تمام افراد میر صاحبان کے کرایہ دار ہیں اور تمام باشندے ایک علامتی رقم بطور کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اسی قصبے کی ایک اور شہرت یہاں لگنے والی تاریخی گدھا منڈی بھی ہے جو برسوں سے گیارہ محرم الحرام کو لگائی جاتی ہے۔ پورے ملک بالخصوص سندھ بھر سے گدھوں کے خریدار یہاں پہنچتے ہیں۔
اسی طرح مختلف اقسام کے گدھے، خچر اور بعض لوگ دوسرے جانور بھی فروخت کے لیے یہاں لے آتے ہیں لیکن مرکزی شو یا خریداری گدھوں کی ہی ہوتی ہے۔ بدین کے سنیئر صحافی ملک الیاس بتاتے ہیں کہ 19 ویں صدی کے وسط تک موٹر گاڑیوں کا چلن نہ ہونے کے برابر تھا اور سواری کے لیے اونٹ، گھوڑے اور گدھے ہی استعمال ہوتے تھے۔ چونکہ بیشتر میر صاحبان عقیدتاً اہل تشیع ہیں اس لیے عزاداری کا بڑے پیمانے پر یہاں اہتمام ہوتا تھا ویسے بھی سندھ کے صوفیانہ سماج میں اہل بیت اطہار اور شہدائے کربلا سے عقیدت واردات اور سادات کا احترام دیگر خطوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لیے ایام عاشور بالخصوص دسویں محرم کو لاڑ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹنڈوغلام علی پہنچتی تھی۔ رات گئے تک عزاداری اور شام غریباں میں شرکت کے بعد اگلے روز دیہاتی ساتھ لائے بطور سواری گدھوں کی خرید و فروخت کا بازار بھی لگا لیتے۔
ابتداً یہ کاروبار چھوٹے پیمانے پر تھا پھر آہستہ آہستہ رغبت بڑھی تو دور و نزدیک شہرہ ہوا اور بطور خاص لوگ خریداری یا فروخت کے لیے ٹنڈو غلام علی پہنچنے لگے، البتہ دن گیارہ محرم ہی کا مختص رہا۔ صدی گزر گئی، ہزاریہ تبدیل ہوا لیکن یہ سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتا رہا۔ حالانکہ اب گدھے کا استعمال سوائے وزن اٹھانے یا گاڑی میں باندھنے کے کچھ نہ رہا کہ اب سواری کے لیے دیگر ذرائع میسر ہیں جو کم وقت میں طویل فاصلہ طے کرا دیتے ہیں۔
کافی عرصہ قبل ٹنڈو غلام علی جانا ہوا تھا تو اس حوالے سے وہاں دوستوں سے کچہری رہی۔ عیسیٰ کمہار نامی شخص نے جو حیدرآباد سے وین میں ہمارا شریک سفر تھا بتایا کہ اس منڈی کا ٹھیکہ سالانہ نیلام ہوا کرتا تھا اور اس وقت عیسیٰ نے اس کی مالیت کم و بیش اٹھارہ لاکھ روپے بتائی تھی اس کے بقول یہاں دو ہزار گدھے فروخت کے لیے لائے گئے تھے اور خریداروں کا تعلق بھی بلوچستان، رحیم یار خان، کراچی اور پنجاب و سرحد کے مختلف علاقوں سے تھا ان میں لاسی، لاڑھی، تامٹیرا، کھودا، برا، پسر اور تھری و ایرانی نسلوں کے گدھے شامل تھے۔
گدھا منڈی میں اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے ساجن کی گفتگو سے بھی پتا چلا کہ اب سات محرم سے یہاں اسٹال لگنا شروع ہوجاتے ہیں اور خریدار و فروخت کنندہ اپنے مال سمیت آنے لگتے ہیں لیکن اصل کاروبار 11 محرم کو ہی ہوتا ہے جب کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ لاڑکانہ کے ایک شخص نذیر نے جو ایک مرتبہ اس منڈی میں گدھا فروخت کرچکا ہے۔
دعویٰ کیا کہ منڈی میں کھانے پینے کی اشیا خاصی مہنگی ہوتی ہیں حالانکہ دیہاتی علاقہ ہونے کے ناطے اس کا جواز نہیں ہے البتہ اس نے سیکیورٹی، روشنی، پانی کے انتظامات کی تعریف کی جو بہتر تھے گدھا منڈی سے متعلق ایک نجی ٹی وی چینل نے خصوصی رپورٹ پیش کی تو اس میں تاجروں کا شکوہ تھا کہ بیرون شہر سے آنے والے ہم سے سستے داموں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کراچی، کوئٹہ، بہاولپور و پشاور لے جا کر گراں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
ایک تاجر کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے گدھوں کو گھاس نہیں بلکہ، مکھن، سیب اور بادام کھلاتا ہے تاکہ اچھے دام مل سکیں اور وہ زیادہ وزن اٹھا سکے۔ منڈی پر ایک علاقائی اخبار نے فیچر شایع کیا تو اس میں مذکور تھا کہ سال گذشتہ لاسی نسل کا گدھا خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا جس کی قیمت اس کا مالک 18 لاکھ روپے طلب کر رہا تھا بالآخر سودا دس لاکھ روپے میں طے ہوا۔ اسی طرح طوفان نامی ایک گدھے کی قیمت پندرہ لاکھ روپے مانگی جا رہی تھی جبکہ خریدار آٹھ لاکھ روپے لگا چکے تھے۔ مسن وڈی سے لایا جانے والا یہ گدھا اس کے مالک کے بقول دیسی گھی، بادام، باجرہ، گندم، جو وغیرہ کھاتا ہے۔
اسی طرح پارس نامی گدھے کا مالک بھی بارہ لاکھ روپے سے کم پر فروخت کرنے کو تیار نہ تھا اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر شے کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن گدھوں کی قیمتیں کم لگائی جا رہی ہیں۔
حالانکہ اس کی پورے سال نگہداشت پر جو رقم خرچ اور محنت کی گئی ہوتی ہے اس کا معاوضہ تو ملنا چاہیے اگر خرچہ بھی پورا نہ ہو تو فروخت کا کیا فائدہ۔ نگر اور ہنزہ میں گدھوں کی فروخت کے کاروبار سے منسلک افلاطون نامی ضعیف العمر شخص نے کراچی پریس کلب پر دوران ملاقات بتایا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں آج بھی ذریعہ سفر گدھا ہی ہے جو بار برداری کا کام بھی دیتا ہے۔
اگر نگر یا ہنزہ کا باشندہ اسے سستے داموں فروخت کر رہا ہو تو سمجھ جائیں کہ یہ کام کا نہیں رہا اس لیے بیچا جا رہا ہے ورنہ کوہستانی علاقوں کا آدمی کبھی گدھا کم قیمت پر فروخت نہیں کرے گا۔
ٹنڈو غلام علی کے باشندے اس گدھا منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی گدھا منڈی تصور کرتے ہیں۔ اس میں ان کا قصور نہیں، ہمارے یہاں رواج ہی کچھ ایسا ہے۔ ضلع عمر کوٹ کے شہری کنری کی مرچ منڈی کو بھی ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی قرار دیتے ہیںِ کہ یہاں کی ڈنڈی کٹ اور ہائبرڈ مرچیں ملک اور بیرون ملک پسند کی جاتی ہیں۔
کنری نیشنل پریس کلب کے سابق صدر فتح روز خان بتانے لگے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مرچیں ضلع عمر کوٹ میں کاشت ہوتی ہیں۔ سیزن کے وقت یومیہ 8 سے 10 ہزار بوری مرچ منڈی میں فروخت کے لیے لائی جاتی ہے۔ 20 سے 22 کلو وزن والی بوری کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں۔ گویا سال بھر میں یہ منڈی اور اس کے تاجر کروڑوں کا لین دین کرتے ہیں۔
ضلع ٹنڈو الہٰیار میں نصرپور کا قصبہ پیاز کی پیداوار اور اپنی منڈی کے لحاظ سے مشہور ہے۔ نصر پور کے صحافی عبدالکریم آرائیں بتانے لگے کہ یہاں کی ہزاری پیاز دور دور تک مشہور ہے اور اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ویسے تو پورے ملک بالخصوص سندھ میں ان دنوں پیاز اور ٹماٹر مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں لیکن نصر پور کی پیاز منڈی میں ہزاری پیاز کی آمد نے شہر میں کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔
عبدالکریم آرائیں بی بی سی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر نصرپور کی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی پیاز منڈی بتاتے ہیں۔ فون پر بات ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ آج کل یہاں کی منڈی میں یومیہ درجنوں ٹرک پر پیاز لاد کر ملک بھر میں بھیجی جا رہی ہے۔ ایک ٹرک میں تقریباً ایک سو بیس بوریاں لدی ہوتی ہیں اور اس کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے لاکھوں کا سودا ہوتا ہے۔
انھوں نے اصرار کیا کہ نصرپور کی پیاز منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی پیاز منڈی کا درجہ حاصل ہے۔ سکھر کی چھوارہ منڈی، حیدرآباد کا شاہی بازار، کراچی کی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن اور کراچی ہی کی بلند و بالا عمارت حبیب بینک پلازہ کو بھی ایشیا کی سب سے بلند عمارت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس میں صداقت کتنی ہے اس سے قطع نظر۔ مبالغے کی حد تک لوگ اپنی بستی، شہر اور بازار سے محبت کرتے ہیں یہ اصل بات ہے۔
ٹنڈو غلام علی کی گدھا منڈی سے شروع تذکرہ پیاز، ٹماٹر، مرچ سمیت جانے کتنی اجناس اور شہروں تک پھیل گیا گدھا منڈی میں اس برس بھی ہزاروں گدھے فروخت کے لیے لائے گئے تھے اور ہزاروں خریدار یہاں پہنچے ہوئے تھے جو قد و قامت اور تن و توش ہی نہیں گدھوں کو دوڑا کر بھی دیکھتے اور قیمت کا تعین کرتے تھے۔
کہتے ہیں پونے دو سو برس سے جاری یہ گدھا منڈی ہر برس زیادہ بزنس کرتی ہے اور ماضی کے ریکارڈ توڑتی ہے حالانکہ چنگ چی رکشاؤں کے آجانے کے بعد سواری اور وزن اٹھانے کا دھندا مندا ہوگیا ہے جن کے کرائے بھی کم ہیں ٹاؤن کمیٹی ٹنڈو غلام علی ہر سال اس منڈی کا ٹھیکہ نیلام کرتی ہے جس کے لیے باقاعدہ بولی لگتی ہے اور زیادہ دام دینے والا اسے حاصل کرکے یہاں سہولتوں کا بندوبست کرکے لائے جانے والے گدھوں اور خریداری پر ٹیکس وصول کرتا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کاروبار یا گزر بسر اس منڈی سے وابستہ ہے یہاں اشیائے خوردونوش، جانوروں کا چارہ، پانی ودیگر اشیا کے اسٹال بھی لگتے ہیں اور بہت سے گھرانے پورے سال اس منڈی کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل میں مالی معاونت کرتی ہے۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ میں دو ایسے دیہاتی بھی دکھائے گئے تھے جو برسوں سے اس منڈی میں شرکت کے لیے آتے ہیں لیکن گدھوں کی خریداری کی بجائے وہ اسے ملنے ملانے کا اہم موقع تصور کرتے ہیں۔ بقول ان کے سائیں جو سال بھر نہ مل پائیں وہ یہاں ضرور مل جاتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ منڈی ہی نہیں میل ملاپ کا فیسٹیول بھی ہے اور مجناں یا مولابخش ہی نہیں درجنوں دیگر افراد بھی اپنے پیاروں سے ملنے یہاں آتے ہیں کہ وہ گدھا خریدنے یا بیچنے ضرور آئے ہوں گے۔
بدین کے سنیئر صحافی خالد محمود گھمن نے رابطے پر انکشاف کیا کہ اس برس راکٹ، طوفان، کلاشن کوف، میزائل اور ایف سولہ نامی گدھوں کے ساتھ ساتھ مادھوری، ریشماں، کرشمہ، شرمیلا اور نازو نامی گدھیوں کو بھی فروخت کے لیے لایا گیا تھا۔ ان گدھوں اور گدھیوں کی انٹری دبنگ تھی کہ انھیں خوبصورت سہروں، لڑیوں، جھانجھروں، شیشے والی پٹیوں اور گھنگھروؤں سے سجایا گیا تھا اور بعض کو تو مزید خوبصورت بنانے کے لیے رنگ بھی کیا گیا تھا، جن کی قیمت 80 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک تھی۔ اس مرتبہ افغانی، ملتانی اور کوہستانی نسل کے گدھے بھی فروخت کے لیے موجود تھے۔
گدھوں میں ریس کا مقابلہ راکٹ نامی گدھے نے جیتا۔ رنراپ طوفان رہا ریس جیتنے پر مالک کو 50 ہزار روپے کا انعام بھی دیا گیا۔ منڈی میں خریدوفروخت کے لیے آنے والے بتاتے ہیں کہ اس منڈی سے خریدے گئے گدھے اور خچر افغان روس جنگ میں راشن اور ہتھیاروں کی رسد میں بھی استعمال ہوئے تھے اور آج بھی اسمگلنگ کے لیے سدھائے گئے گدھوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو سامان لے کر طے شدہ راستوں پر کسی نگرانی یا رہنمائی کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔
ٹنڈو غلام علی کا قصبہ اور یہاں کی گدھامنڈی بہت سی داستانوں کی بھی امین ہے۔ تین راتیں یہاں قیام کرنے والے راتوں کو کچہری میں قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں، لوک دانش کے جواہر بکھیرتے ہیں اور لطیف، سچل کے اشعار، وتایو فقیر کے واقعات اور مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی کی پیش گوئیاں سنا کر آنے والے دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں زیربحث لاتے ہیں کہ ان کے خیال میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے۔ وہ مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی نے اپنے اشعار میں شاہ نعمت ولی کی طرح بیان کردیا ہے ویسے یہ موضوع خود تفصیلی مکالمہ چاہتا ہے۔ انشا اللہ آئندہ سہی۔
ویسے یہاں دھان اور سورج مکھی کی کاشت بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور تیل و گیس کے وافر ذخائر بھی ایک وجہ شہرت ہے۔ اسی علاقے میں ضلع بدین کا قصبہ ٹنڈو غلام علی اپنی ایک انفرادیت کے باعث بھی معروف ہے۔
اول یہ کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ میں 36ء سے 47ء تک سر غلام حسین ہدایت اللہ، اللہ بخش سومرو اور بندے علی تالپور نے وزرائے اعلیٰ کا منصب سنبھالا اس زمانے میں یہ عہدہ وزیراعظم کہلاتا تھا اول الذکر دونوں شخصیات دو دو بار اس عہدے پر متمکن رہیں جب کہ آخر الذکر ایک بار ''پریمیر'' رہے۔ بندے علی تالپور کا تعلق ٹنڈو غلام علی سے تھا اور اس قصبے کا یہ نام بھی ان کے جدامجد کے نام پر ہے۔
ہمارے صحافی دوست حبیب الرحمن قریشی راوی ہیں کہ اس قصبے میں آباد تمام افراد میر صاحبان کے کرایہ دار ہیں اور تمام باشندے ایک علامتی رقم بطور کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اسی قصبے کی ایک اور شہرت یہاں لگنے والی تاریخی گدھا منڈی بھی ہے جو برسوں سے گیارہ محرم الحرام کو لگائی جاتی ہے۔ پورے ملک بالخصوص سندھ بھر سے گدھوں کے خریدار یہاں پہنچتے ہیں۔
اسی طرح مختلف اقسام کے گدھے، خچر اور بعض لوگ دوسرے جانور بھی فروخت کے لیے یہاں لے آتے ہیں لیکن مرکزی شو یا خریداری گدھوں کی ہی ہوتی ہے۔ بدین کے سنیئر صحافی ملک الیاس بتاتے ہیں کہ 19 ویں صدی کے وسط تک موٹر گاڑیوں کا چلن نہ ہونے کے برابر تھا اور سواری کے لیے اونٹ، گھوڑے اور گدھے ہی استعمال ہوتے تھے۔ چونکہ بیشتر میر صاحبان عقیدتاً اہل تشیع ہیں اس لیے عزاداری کا بڑے پیمانے پر یہاں اہتمام ہوتا تھا ویسے بھی سندھ کے صوفیانہ سماج میں اہل بیت اطہار اور شہدائے کربلا سے عقیدت واردات اور سادات کا احترام دیگر خطوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لیے ایام عاشور بالخصوص دسویں محرم کو لاڑ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹنڈوغلام علی پہنچتی تھی۔ رات گئے تک عزاداری اور شام غریباں میں شرکت کے بعد اگلے روز دیہاتی ساتھ لائے بطور سواری گدھوں کی خرید و فروخت کا بازار بھی لگا لیتے۔
ابتداً یہ کاروبار چھوٹے پیمانے پر تھا پھر آہستہ آہستہ رغبت بڑھی تو دور و نزدیک شہرہ ہوا اور بطور خاص لوگ خریداری یا فروخت کے لیے ٹنڈو غلام علی پہنچنے لگے، البتہ دن گیارہ محرم ہی کا مختص رہا۔ صدی گزر گئی، ہزاریہ تبدیل ہوا لیکن یہ سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتا رہا۔ حالانکہ اب گدھے کا استعمال سوائے وزن اٹھانے یا گاڑی میں باندھنے کے کچھ نہ رہا کہ اب سواری کے لیے دیگر ذرائع میسر ہیں جو کم وقت میں طویل فاصلہ طے کرا دیتے ہیں۔
کافی عرصہ قبل ٹنڈو غلام علی جانا ہوا تھا تو اس حوالے سے وہاں دوستوں سے کچہری رہی۔ عیسیٰ کمہار نامی شخص نے جو حیدرآباد سے وین میں ہمارا شریک سفر تھا بتایا کہ اس منڈی کا ٹھیکہ سالانہ نیلام ہوا کرتا تھا اور اس وقت عیسیٰ نے اس کی مالیت کم و بیش اٹھارہ لاکھ روپے بتائی تھی اس کے بقول یہاں دو ہزار گدھے فروخت کے لیے لائے گئے تھے اور خریداروں کا تعلق بھی بلوچستان، رحیم یار خان، کراچی اور پنجاب و سرحد کے مختلف علاقوں سے تھا ان میں لاسی، لاڑھی، تامٹیرا، کھودا، برا، پسر اور تھری و ایرانی نسلوں کے گدھے شامل تھے۔
گدھا منڈی میں اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے ساجن کی گفتگو سے بھی پتا چلا کہ اب سات محرم سے یہاں اسٹال لگنا شروع ہوجاتے ہیں اور خریدار و فروخت کنندہ اپنے مال سمیت آنے لگتے ہیں لیکن اصل کاروبار 11 محرم کو ہی ہوتا ہے جب کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ لاڑکانہ کے ایک شخص نذیر نے جو ایک مرتبہ اس منڈی میں گدھا فروخت کرچکا ہے۔
دعویٰ کیا کہ منڈی میں کھانے پینے کی اشیا خاصی مہنگی ہوتی ہیں حالانکہ دیہاتی علاقہ ہونے کے ناطے اس کا جواز نہیں ہے البتہ اس نے سیکیورٹی، روشنی، پانی کے انتظامات کی تعریف کی جو بہتر تھے گدھا منڈی سے متعلق ایک نجی ٹی وی چینل نے خصوصی رپورٹ پیش کی تو اس میں تاجروں کا شکوہ تھا کہ بیرون شہر سے آنے والے ہم سے سستے داموں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کراچی، کوئٹہ، بہاولپور و پشاور لے جا کر گراں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
ایک تاجر کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے گدھوں کو گھاس نہیں بلکہ، مکھن، سیب اور بادام کھلاتا ہے تاکہ اچھے دام مل سکیں اور وہ زیادہ وزن اٹھا سکے۔ منڈی پر ایک علاقائی اخبار نے فیچر شایع کیا تو اس میں مذکور تھا کہ سال گذشتہ لاسی نسل کا گدھا خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا جس کی قیمت اس کا مالک 18 لاکھ روپے طلب کر رہا تھا بالآخر سودا دس لاکھ روپے میں طے ہوا۔ اسی طرح طوفان نامی ایک گدھے کی قیمت پندرہ لاکھ روپے مانگی جا رہی تھی جبکہ خریدار آٹھ لاکھ روپے لگا چکے تھے۔ مسن وڈی سے لایا جانے والا یہ گدھا اس کے مالک کے بقول دیسی گھی، بادام، باجرہ، گندم، جو وغیرہ کھاتا ہے۔
اسی طرح پارس نامی گدھے کا مالک بھی بارہ لاکھ روپے سے کم پر فروخت کرنے کو تیار نہ تھا اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر شے کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن گدھوں کی قیمتیں کم لگائی جا رہی ہیں۔
حالانکہ اس کی پورے سال نگہداشت پر جو رقم خرچ اور محنت کی گئی ہوتی ہے اس کا معاوضہ تو ملنا چاہیے اگر خرچہ بھی پورا نہ ہو تو فروخت کا کیا فائدہ۔ نگر اور ہنزہ میں گدھوں کی فروخت کے کاروبار سے منسلک افلاطون نامی ضعیف العمر شخص نے کراچی پریس کلب پر دوران ملاقات بتایا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں آج بھی ذریعہ سفر گدھا ہی ہے جو بار برداری کا کام بھی دیتا ہے۔
اگر نگر یا ہنزہ کا باشندہ اسے سستے داموں فروخت کر رہا ہو تو سمجھ جائیں کہ یہ کام کا نہیں رہا اس لیے بیچا جا رہا ہے ورنہ کوہستانی علاقوں کا آدمی کبھی گدھا کم قیمت پر فروخت نہیں کرے گا۔
ٹنڈو غلام علی کے باشندے اس گدھا منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی گدھا منڈی تصور کرتے ہیں۔ اس میں ان کا قصور نہیں، ہمارے یہاں رواج ہی کچھ ایسا ہے۔ ضلع عمر کوٹ کے شہری کنری کی مرچ منڈی کو بھی ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی قرار دیتے ہیںِ کہ یہاں کی ڈنڈی کٹ اور ہائبرڈ مرچیں ملک اور بیرون ملک پسند کی جاتی ہیں۔
کنری نیشنل پریس کلب کے سابق صدر فتح روز خان بتانے لگے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مرچیں ضلع عمر کوٹ میں کاشت ہوتی ہیں۔ سیزن کے وقت یومیہ 8 سے 10 ہزار بوری مرچ منڈی میں فروخت کے لیے لائی جاتی ہے۔ 20 سے 22 کلو وزن والی بوری کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں۔ گویا سال بھر میں یہ منڈی اور اس کے تاجر کروڑوں کا لین دین کرتے ہیں۔
ضلع ٹنڈو الہٰیار میں نصرپور کا قصبہ پیاز کی پیداوار اور اپنی منڈی کے لحاظ سے مشہور ہے۔ نصر پور کے صحافی عبدالکریم آرائیں بتانے لگے کہ یہاں کی ہزاری پیاز دور دور تک مشہور ہے اور اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ویسے تو پورے ملک بالخصوص سندھ میں ان دنوں پیاز اور ٹماٹر مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں لیکن نصر پور کی پیاز منڈی میں ہزاری پیاز کی آمد نے شہر میں کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔
عبدالکریم آرائیں بی بی سی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر نصرپور کی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی پیاز منڈی بتاتے ہیں۔ فون پر بات ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ آج کل یہاں کی منڈی میں یومیہ درجنوں ٹرک پر پیاز لاد کر ملک بھر میں بھیجی جا رہی ہے۔ ایک ٹرک میں تقریباً ایک سو بیس بوریاں لدی ہوتی ہیں اور اس کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے لاکھوں کا سودا ہوتا ہے۔
انھوں نے اصرار کیا کہ نصرپور کی پیاز منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی پیاز منڈی کا درجہ حاصل ہے۔ سکھر کی چھوارہ منڈی، حیدرآباد کا شاہی بازار، کراچی کی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن اور کراچی ہی کی بلند و بالا عمارت حبیب بینک پلازہ کو بھی ایشیا کی سب سے بلند عمارت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس میں صداقت کتنی ہے اس سے قطع نظر۔ مبالغے کی حد تک لوگ اپنی بستی، شہر اور بازار سے محبت کرتے ہیں یہ اصل بات ہے۔
ٹنڈو غلام علی کی گدھا منڈی سے شروع تذکرہ پیاز، ٹماٹر، مرچ سمیت جانے کتنی اجناس اور شہروں تک پھیل گیا گدھا منڈی میں اس برس بھی ہزاروں گدھے فروخت کے لیے لائے گئے تھے اور ہزاروں خریدار یہاں پہنچے ہوئے تھے جو قد و قامت اور تن و توش ہی نہیں گدھوں کو دوڑا کر بھی دیکھتے اور قیمت کا تعین کرتے تھے۔
کہتے ہیں پونے دو سو برس سے جاری یہ گدھا منڈی ہر برس زیادہ بزنس کرتی ہے اور ماضی کے ریکارڈ توڑتی ہے حالانکہ چنگ چی رکشاؤں کے آجانے کے بعد سواری اور وزن اٹھانے کا دھندا مندا ہوگیا ہے جن کے کرائے بھی کم ہیں ٹاؤن کمیٹی ٹنڈو غلام علی ہر سال اس منڈی کا ٹھیکہ نیلام کرتی ہے جس کے لیے باقاعدہ بولی لگتی ہے اور زیادہ دام دینے والا اسے حاصل کرکے یہاں سہولتوں کا بندوبست کرکے لائے جانے والے گدھوں اور خریداری پر ٹیکس وصول کرتا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کاروبار یا گزر بسر اس منڈی سے وابستہ ہے یہاں اشیائے خوردونوش، جانوروں کا چارہ، پانی ودیگر اشیا کے اسٹال بھی لگتے ہیں اور بہت سے گھرانے پورے سال اس منڈی کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل میں مالی معاونت کرتی ہے۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ میں دو ایسے دیہاتی بھی دکھائے گئے تھے جو برسوں سے اس منڈی میں شرکت کے لیے آتے ہیں لیکن گدھوں کی خریداری کی بجائے وہ اسے ملنے ملانے کا اہم موقع تصور کرتے ہیں۔ بقول ان کے سائیں جو سال بھر نہ مل پائیں وہ یہاں ضرور مل جاتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ منڈی ہی نہیں میل ملاپ کا فیسٹیول بھی ہے اور مجناں یا مولابخش ہی نہیں درجنوں دیگر افراد بھی اپنے پیاروں سے ملنے یہاں آتے ہیں کہ وہ گدھا خریدنے یا بیچنے ضرور آئے ہوں گے۔
بدین کے سنیئر صحافی خالد محمود گھمن نے رابطے پر انکشاف کیا کہ اس برس راکٹ، طوفان، کلاشن کوف، میزائل اور ایف سولہ نامی گدھوں کے ساتھ ساتھ مادھوری، ریشماں، کرشمہ، شرمیلا اور نازو نامی گدھیوں کو بھی فروخت کے لیے لایا گیا تھا۔ ان گدھوں اور گدھیوں کی انٹری دبنگ تھی کہ انھیں خوبصورت سہروں، لڑیوں، جھانجھروں، شیشے والی پٹیوں اور گھنگھروؤں سے سجایا گیا تھا اور بعض کو تو مزید خوبصورت بنانے کے لیے رنگ بھی کیا گیا تھا، جن کی قیمت 80 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک تھی۔ اس مرتبہ افغانی، ملتانی اور کوہستانی نسل کے گدھے بھی فروخت کے لیے موجود تھے۔
گدھوں میں ریس کا مقابلہ راکٹ نامی گدھے نے جیتا۔ رنراپ طوفان رہا ریس جیتنے پر مالک کو 50 ہزار روپے کا انعام بھی دیا گیا۔ منڈی میں خریدوفروخت کے لیے آنے والے بتاتے ہیں کہ اس منڈی سے خریدے گئے گدھے اور خچر افغان روس جنگ میں راشن اور ہتھیاروں کی رسد میں بھی استعمال ہوئے تھے اور آج بھی اسمگلنگ کے لیے سدھائے گئے گدھوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو سامان لے کر طے شدہ راستوں پر کسی نگرانی یا رہنمائی کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔
ٹنڈو غلام علی کا قصبہ اور یہاں کی گدھامنڈی بہت سی داستانوں کی بھی امین ہے۔ تین راتیں یہاں قیام کرنے والے راتوں کو کچہری میں قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں، لوک دانش کے جواہر بکھیرتے ہیں اور لطیف، سچل کے اشعار، وتایو فقیر کے واقعات اور مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی کی پیش گوئیاں سنا کر آنے والے دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں زیربحث لاتے ہیں کہ ان کے خیال میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے۔ وہ مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی نے اپنے اشعار میں شاہ نعمت ولی کی طرح بیان کردیا ہے ویسے یہ موضوع خود تفصیلی مکالمہ چاہتا ہے۔ انشا اللہ آئندہ سہی۔