پاک بھارت مقابلہ جوہری میدان میں

پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کا جواب دینے کی تیاری 90ء سے شروع کر دی تھی، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ

پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کا جواب دینے کی تیاری 90ء سے شروع کر دی تھی، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ

(قسط نمبر 10)

یہ حقیقت ہے کہ 17 اگست 1988 کا واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اب دنیا بہت تیز ی اور بیدردی سے تبدیل ہو رہی تھی، یہ اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ اُن دنوں ہالی وڈ کی ایک فلم اسپیڈ کے نام سے آئی۔

جس کا مرکزی خیال یہ تھا ،،کہ ایک مسافر بس میں ولن بم پلانٹ کر دیتا ہے اور ہیرو کو پیغام دیتا ہے کہ اگر بس کی رفتارایک خاص حد سے کم کی گئی تو بم پھٹ جا ئے گا اور بس مسافروں سمیت تباہ ہو جائے، شائد یہ سپر پاور کا پوری دنیا کے لیے ایک پیغام تھا، پھر انہی دنوں یعنی نوے کی دہا ئی کے آغاز پرہی Samuel P Huntington کی شہرہ آفاق کتاب ( The Clash of Civilizations )Remaking of the World Order سامنے آئی اگرچہ '' تہذیبوں کا تصادم '' کے عنوان سے کتاب سے چند برس پہلے ہی اس موضوع پر سیمول پی ہنٹینگٹون کے مضامین سامنے آنے لگے تھے۔

جن کے موضوعات کو کتابی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جس میں انہوں نے سوویت یونین اور اس کے ساتھ کیمونزم کے خاتمے پر دنیا میں دوبارہ بڑی تہذیبوں کے درمیان ملکوں کی جنگوں کے بارے میں پیش گو ئی کی تھی اوراس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا تھا کہ اس بد لتی ہو ئی صورتحال میں اسلامی دنیا کے اکثر ممالک تباہی وبربادی کا شکار ہو نگے،پاکستان میں یہ تبدیلی بڑے عجیب انداز میں آئی تھی۔

ایک طرف بہاولپور کے فضا ئی حادثے میں وہ فوجی قیادت جان سے گئی تھی جس نے نہ صرف ملک پر گیارہ سال حکومت کرتے ہو ئے اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں نئی سیاسی قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل بھی کی تھی بلکہ پھر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کی اس تیز رفتاری کا سبب بھی بنی تھی مگر اب جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن نہیں تھے اوراب پاکستان میں ایک بار پھر ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسا منجھا ہوا بیوروکریٹ 1973 کے آئین میں آٹھویں ترمیم بشمول 58B2 کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور حکومت کو برخاست کے اختیارات کے ساتھ صدر مملکت ہو گیا تھا۔

غلام اسحاق خان 1915 میں پیدا ہو ئے تھے۔ 1941 میں انڈین سول سروس جوائن کی اور آزادی کے بعد ہی خیبر پختونخوا کے صو بائی سیکرٹری رہے۔ 1955 میں ون یو نٹ کے قیام کے بعد وہ پہلے مغربی پاکستان اور پھر وفاق میں مختلف عہدوں پر فائز رہے، بھٹو دور میں وہ 22 دسمبر1971 سے 30 نومبر1975 تک گورنر اسٹیٹ بنک رہے۔ 12 اکتوبر 1975 سے5 جولائی1977 تک وہ سیکرٹری دفاع رہے۔

پانچ جولائی 1977 میں مارشل لا کے نفاذ پر وہ 21 مارچ 1985 تک وفاقی سیکرٹری خزانہ رہے، اسی دوران انہوں نے اپنے لیے وفاق میں صدر ضیا الحق سے سیکر ٹری انچیف کا نیا عہدہ بھی تخلیق کروایا جو اِن کی عارضی مدت کے بعد ختم ہو گیا۔21 مارچ 1985 سے 17 اگست 1988 تک وہ چیئرمین سینٹ رہے اور پھر17 اگست 1988 سے 18 جولائی 1993 تک وہ پا کستان کے صدر رہے۔

غلام اسحاق خان بہت تجربہ کار اور زیرک ضرور تھے مگر عالمی سطح پر رونما ہو نے والی تبدیلیوں اوردنیا کے اُس وقت کے تیزی سے بدلتے حالات کے لحا ظ سے غالباً اُن کا ویژن قدرے محدود تھا کیونکہ اپنی طویل ملازمت کے دوران اور پھر بطور چیئرمین سینٹ اُن کا اس شعبے سے واسطہ نہیں رہا تھا اور ویسے بھی صدر جنرل ضیا الحق کے پورے دور میں صاحبزادہ یعقوب خان جیسی تجربہ کار اور دوربین نظرکی حامل شخصیت وزیر ِخارجہ رہی۔ غلام اسحاق خان کے دور صدارت میں تین وزراء اعظم بینظیر بھٹو، نوازشریف اور نگران وزیر اعظم غلام مصطفٰی جتوئی رہے۔

اسی طرح اِن کے دورصدارت میں تین آرمی چیف بھی رہے جن میں جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل آصف نواز اور جنرل وحید کا کڑ شامل ہیں۔ صدر جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد قانون کے مطابق چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان صدر ہوئے تھے۔

بحیثیت صدر انہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا، پھر شیڈول کے مطابق 16 نومبر 1988کو اُنہوں نے عام انتخابات کروائے جس میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کل 207 جنرل نشستوں میں سے 94 نشستیں حاصل کر کے اشتراک سے کمزور وفاقی حکومت بنائی اور 2 ستمبر 1988 کو بینظیر بھٹو تاریخ میں پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بنیں، 12 دسمبر 1988 کو غلام اسحاق خان 348 ووٹ لیکر پانچ سال کی مدت کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے، اِن کے مقابلے میں نوابزادہ نصر اللہ خان کو 91 اور جعفر ہارون کو 16 ووٹ ملے، 6 اگست 1990 کو صدر اسحاق خان نے 58-B2 کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کر دیا اور تین ماہ کی عبوری مدت کے لیے غلام مصظفیٰ جتوئی کو نگران وزیراعظم مقرر کیا ۔



یکم نومبر 1990 کو ہونے والے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحادی نے قومی اسمبلی کی207 جنرل نشستوں میں سے 106 نشستیں لیکر حکومت بنائی اور میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم ہوئے مگر حالات یہ بتاتے ہیں کہ اس دوران جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں تو ایک جانب تو اِن دونوں سیاسی لیڈروں نے ایک دوسرے کے خلا ف شدید انتقامی کاروائیاں کیں ایک دوسرے کے خلاف قانونی طور پر اقدامات بھی کئے تو دوسری جانب عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اِن کے اسٹیلشمنٹ سے بھی بہت سے اختلافات سامنے آتے رہے چونکہ یہ دور جو پاکستان کے اعتبار سے1988 سے شروع ہوا تھا بہت نازک دور تھا اُس وقت بیک وقت امور خارجہ، مالیاتی و اقتصادیات یعنی وزارت خزانہ اور وزارت دفاع پر بھر پور توجہ کی ضرورت تھی کہ 1945 سے 1990تک جاری رہنے والی روایتی سرد جنگ دنیا سے ختم ہو رہی تھی۔

اشتراکیت کے خاتمے پر نہ صرف دو طاقتی اور دو اقتصاد ی نظام دنیا سے ختم ہو رہے تھے تو ساتھ ہی اس خلا کے تیزی سے پُر ہونے پر منطقی اعتبار سے دنیا بھر میں خصوصاً ان دونوں شعبوں میں ایک زلزلے کی سی کیفیت تھی، سیاسی، عسکری، دفاعی محاذوں پر اِس زلزلے کے نیچے لاوے کی لہریں جو گرافس بنا رہی تھیں بڑی قوتیں اور درمیانی مگر اہم قوتیں اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ ایجنسیوں سے اُس کے ٹھیک ٹھیک پرنٹ حاصل کر نے کی تگ و دو میں تھیں، پاکستان کے لیے اب بہت پیچیدہ اور خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔

افغانستان میں جنیوا معاہدہ قیام امن کے لیے کچھ نہ کر سکا تھا ، بھارت جہاں 1987 تک کشمیر کی تحریک اور خالصتان کی تحریک اس قدر تیز تھی کہ بھارت کی سیاسی قیادت بھارت کے مستقبل سے پریشان تھی، اب یوں لگتا تھا کہ بھارت نہ صرف مطمئین ہے بلکہ اب وہ پاکستان کے لیے پریشانی کا سبب بن رہا تھا، حکومتی سطح پر دونوں جماعتوں کے شدید اختلا فات کے ساتھ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات نواز شریف کے پہلے دورِ حکو مت میں ہی سامنے آگئے حالانکہ وہ صدر ضیا الحق کے متعارف کردہ سیاسی لیڈر تھے۔

یوں 8 اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی تحلیل کر کے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے بحالی کے احکامات صادر کئے تو سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا اور اُس وقت آرمی چیف عبد الوحید کاکڑ کے فارمولے کے تحت پہلے وزیراعظم نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی اور اسمبلی کی تحلیل کے بعد صدر بھی مستعفی ہو گئے۔

جو مسئلہ اُس وقت صدر غلام اسحاق خان پھر صدر لغاری اور اسی طرح جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز، جنرل عبدالوحید کا کڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے سامنے تھا وہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا تھا ۔

کیو نکہ بھارت جس نے اپنا پہلا بنیادی نوعیت کا ایٹمی دھماکہ 1974 میں کیا تھا اورپھر 1987 میں جنرل ضیا الحق نے جو کچھ پیغام بھارتی وزیراعظم کو دے دیا تھا اُس کے بعد صورتحا ل عالمی سطح پر نازک ہو تی جا رہی تھی، امریکہ نے اپنا پہلا ایٹمی ٹیسٹ دھماکہ 16 جولائی 1945 کو کیا تھا، سوویت یونین نے پہلا ایٹمی دھماکہ29 اگست1949 کو کیا، برطانیہ نے 3 اکتوبر 1952 کو دھماکہ کیا، فرانس نے13 فروری1960 کو ایٹمی دھماکہ کیا اور چین نے 16 اکتوبر 1964 کو کامیاب ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔

اب پاکستان کو جو اطلا عات اپنے خفیہ ذرائع سے مل رہی تھیں وہ یہ تھیں کہ بھارت کامیاب ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی چھٹی اعلانیہ ایٹمی قوت بن جا ئے گا اور پاکستان کو اس کے مقابلے میں تکنیکی، سائنسی، سیاسی انداز میں ہر طرح سے اعلانیہ ایٹمی قو ت بننے سے روکا جائے گا، اگر چہ پاکستان نے بنیادی ایٹمی صلا حیت 1978 ہی میں حاصل کر لی تھی مگر بھرپور صلاحیت 1982 سے حاصل کر چکا تھا، اس پر اُس وقت عالمی قوتوں کی خاموشی غالباً اس لیے بھی تھی کہ سوویت یونین اور بھارت پاکستان کے خلاف کسی مشترکہ فوجی جنگی کاروائی سے باز رہیں۔

پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کے حق میں دنیا کے سامنے بہت محنت اورخوبی سے کامیاب وکالت کی۔ 1974 سے پا کستان کا بشمول بھارت دنیا سے مطالبہ رہا کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علا قہ قرار دیا جائے، 1986میں ہی گورباچوف اور ا مریکی صدر رونالڈ ریگن دونوں ہی ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے پر اتفاق کر رہے تھے، اور عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف آوازیں زیادہ بلند ہونے لگیں،11 اور12 اکتوبر 1986 کو گوربا چوف اور ریگن میں ایٹمی ہتھیاروں کو محد ود کرنے پر مذاکرات ہوئے، 8 دسمبر1987 کو سوویت یونین اور امریکہ نے 3000 سے 3500 میل تک زمین سے مار کرنے والے میزائلوں کو ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے، جنوبی افریقہ جہاں عرصے سے اقلیتی سفید فام نسل پرست حکومت تھی۔

وہاں 1991-92 میں نیلسن منڈیلا کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے جمہوریت کی بحالی پر ساوتھ افریقہ نے اعلان کیا کہ اُس نے اپنے چھ ایٹم بم ختم کر دئیے اور NPT پر دستخط کر دیئے،15دسمبر 1995 کوجنوب مشرقی ایشیا کو غیر ایٹمی علاقہ قرار دے دیا گیا جس میں برما، فلپائن، لاوس، ویتنام اور انڈونیشیا شامل ہیں،11 اپریل1996 کو افریقہ کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا گیا۔

اس میں مصر سمیت 46 ممالک شامل ہیں، یکم جون 1996 میں یوکرائن نے اپنا آخری نیوکلیئر ہتھیار بھی روس کو واپس کر دیا اور غیر ایٹمی ملک بن گیا اور 8 جولائی 1996 کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے ایٹمی ہتھیاروں کو غیر قانونی قرار دے دیا، 24 ستمبر 1996 کواقوام متحدہ میں Total nuclear test ban کل جوہری ہتھیاروں کے تجربے پر پابند ی کی قرارداد پر اکثر ممالک نے چین، روس، برطانیہ ،فرانس اور امریکہ سمیت دستخط کردئیے، بھارت نے دستخط کرنے سے انکار کردیا ، نومبر 1996 تک بلاروس اور قازقستان جو سوویت یونین کے بعد ایٹمی ہتھیار رکھتے تھے، ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو گئے اور اپنے ایٹمی ہتھیار روس کو واپس کر دئیے۔

اس دوران 19 اکتوبر 1993 کو بینظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں اور فاروق لغاری 13 نومبر 1993 کو وسیم سجاد کے168 ووٹ کے مقابلے میں 274 ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے اور پھر 5 نومبر 1996 کو صدر فارق لغاری نے اسمبلی توڑ کو بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا۔

فروری 1997 کے عام انتخابات میں نوازشریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے، یوں 1990 کے بعد سے اور 1993 سے دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے خلاف پوری دنیا کی رائے یہ تھی کہ اب کوئی ایٹمی دھماکہ نہ ہو مگر بھارت بہت تیزی سے اپنے ایٹمی ہتھیار بنا کر اِن کو ٹیسٹ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا اور درپردہ اس حوالے سے اُس نے بڑی قوتوں کے بعض عناصر سے ممکنہ اقتصادی مالیاتی پابندیوں پر ضمانتیں بھی لے رکھی تھیں اور ایک غیر اعلانیہ ایٹمی قوت کی اُسے حمایت بھی حاصل تھی۔

یوںصدر غلام اسحاق ، صدر فاروق لغاری اور جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز ،جنرل جہانگیر کرامت ، یہ وہ شخصیات تھیں جن کے دور میں بہت خاموشی سے چاغی کے پہاڑوں میں راس کوہ کے نیچے ہزاروں فٹ کی گہرائی تک آہنی مضبوطی کی سرنگیں تعمیر ہوتی رہیں یہ گہری اور طویل سرنگیں چاغی اور آواران میں 1990 کی دہائی کے آغاز سے شروع کر دی گئیں تھیں جس کے لیے ایسے میٹریل کی ضرورت تھی جو ایٹمی دھماکوں کی قوت کو یہاں زمین کے پاتال میں برداشت کر سکے اور یہ ضروری تھا کہ تابکاری کے اثرات کو پوری گارنٹی کے ساتھ روکا جائے ورنہ بھارت سمیت امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ملکوں نے اقوام متحد ہ کے ذریعے پا کستان پر دباؤ ڈال کر اُسے اِس کے ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کر دینا تھا۔


اس لیے یہاں نہ صرف اس نکتہ نظر سے پوری تیاری کی گئی بلکہ ساتھ ہی اس کا اندیشہ بھی تھا کہ جب پاکستان یہاں اپنے ایٹمی دھماکے کرے تو سیٹلائٹ اور جدید خلا ئی ٹیکنالوجی کے ذریعے جیمرز کی مدد سے دھماکوں کو منجمد کر دیا جائے، یوں اس کے لیے بھی پاکستان کے عظیم سپوت ڈاکٹر قدیرخان نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کی مدد سے ایسے انتظامات کر لیے تھے جو اس طرح کی خلائی ٹیکنالوجی کو بے اثر کردیں۔

اُس وقت پوری دنیا ایٹمی د ھماکوں کے شدید خلاف تھی اور دنیا کے ملکوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے حوصلے اس لیے بھی بلند تھے کہ اب سرد جنگ ختم ہو گئی تھی اور روس کے گورباچوف اور امریکی صدر ریگن دونوں ہی ایٹمی دھماکوں یا نیوکلیئر ٹیسٹ کے خلاف تھے اور اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا بھر میں قدرتی ماحولیات کی تیز رفتاری سے تباہی تھی، اس وقت تک امریکہ ریکارڈ کے مطابق 1945 سے نوے کی دہائی تک 1032 ایٹمی ٹیسٹ یا تجربات میں 1132 ایٹمی دھماکے کر چکا تھا جب کہ بارہ دھماکوں کا ریکارڈ ظاہر نہیں، یوں دنیا میں ہونے والے کل ایٹمی دھماکوں میں امریکہ کا تناسب 48.7% سوویت یونین نے727 ایٹمی تجربات میں ریکارڈ کے مطابق981 ایٹمی دھماکے کئے اور 248 دھماکے ریکارڈ پر نہیں، ایٹمی تجربات اور دھماکوں میں روس کا تناسب 34.4% ہے۔



برطانیہ نے اب تک 88 ایٹمی تجربات میں ریکارڈ کے مطابق 88 ایٹمی دھماکے کئے اور بغیر ریکارڈ 31 دھماکے تناسب 4.15% ، فرانس نے 217 ایٹمی تجربات میں 217 ہی ایٹم د ھماکے کئے اس کا تنا سب 10.2 فیصد ہے، چین نے 47 ایٹمی تجربات میں 48 ایٹمی دھماکے کئے اس کا تناسب 2.22% ہے، یوں ان سب کا کل تناسب فیصد 99.67 بنتا ہے پھر تعریف کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنا پہلا دھماکہ میکسیکو میں، برطانیہ نے آسٹر یلیا میں، فرانس نے صحارا میں اور روس نے قازقستان میں کیا اور اس کے بعد بھی زیادہ تر تجر بات اپنے ملک سے باہر یا انٹارکٹیکا، میں یا سمندر کے نیچے اور وہ بھی کسی اور ملک کے نزدیک انٹر نیشنل واٹر میں کئے۔

جہاں تک تعلق امریکہ کے طاقتور ترین ہونے کا ہے تو اس کا گھمنڈ تھوڑے عرصے تک امریکی عوام میںایٹمی تجربات اور ہتھیاروں کے لحاظ سے رہا اور پھر امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت اہل مغرب کے اُس وقت کے اہم دانشوروں نے اس کے خلا ف آواز بلند کی، 9 جولائی1955 کو رسل،آئن اسٹائن مینیفسٹو جاری ہوا جس میں اس وقت دنیا کے دو اہم ترین مفکرین یعنی آئن اسٹائن اور برٹزنڈ رسل کے ساتھ اُس وقت دنیا کے کئی اہم دانشور وں اور سائنس دانوں نے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کی جانب توجہ دلاائی اور اس سلسلے کو بند کر نے پر زور دیا۔

یکم دسمبر 1959کو انٹار کٹیکا میں ایٹمی تجربات پر پابندی عائید کر دی گئی۔ 1961 میں بحرالکاہل میں تابکاری کے خلاف امریکہ کے شہروں میں پچاس ہزار افراد نے مظاہرہ کیا۔ 1963 کو پارشل ٹیسٹ بین ٹریٹی دستخطوں کے لیے اوپن کیا گیا،1967ء کو لاطینی امریکہ نیو کلیئر فری زون بن گیا ، 1968ء میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان Nuclear Non Proliferation Treaty NPT ہوا، یہ معاہدہ اس اعتبار سے پہلی کامیابی تھا، 22 ستمبر 1979 کو شمالی بحیرہ ہند میں کیپ آف گڈ پر ایک ایٹمی دھماکہ کیا گیا جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دھماکہ جنوبی افریقہ کی اقلیتی سفید فام نسل پرست حکومت نے اسرائیل کے تعاون سے کیا تھا۔

عراق نے بھی اسرائیل کے مقابلے میں اپنا ایٹمی پروگرام ساٹھ کی دہائی میں شروع کر دیا تھا۔ 1976ء میں عراق نے اوریسس کلاس نیوکلیئر پلانٹ فرانس سے خریدا اور یہ کہا کہ یہ پُر امن مقاصد کے لیے خریدا گیا ہے مگر بعد میں اسرائیل نے اس کے بارے میں کہنا شروع کیا کہ عراق اس پلانٹ سے ایٹمی ہتھیار بنا نے کی تیاریاں کر رہا ہے، 7 جون 1981 اسرائیلی F16A اور F15A کے طیاروں نے اچانک حملہ کر کے بغداد کے قریب واقع ایٹمی ری ایکڑ کو تباہ کردیا، اسرائیل نے اس حملے کا نام آپریشن اُوپرا رکھا تھا جسے آپریشن بیلان بھی کہتے ہیں۔

یہ آپریشن دنیا کی عسکری تاریخ میں فضائی مہارت کے اعتبار سے بہت مشہور ہے اسرائیلی جہاز اردن ، سعودی عرب کی سرحدی پٹی پر پر واز کرتے آئے اور تھوڑی دیر میں پورا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر کے چلے گئے، اس حملے میں عراقی فوجی اور ایک فرانسیسی جان بحق ہوا، اسرائیل کی اقوام متحدہ میں امریکہ سمیت دیگر ملکوں نے مذمت کی، مگر اسرائیل کا موقف یہ تھا کہ اُس نے یہ آپریش حفظِ ماتقدم یعنی سیلف ڈیفنس میں کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کا ایک فضائی حملہ اس سے پہلے 30 ستمبر1980 میں ایران نے اسی ایٹمی ری ایکٹر پر F4phantom لڑاکا طیاروں سے کیا تھا۔

جس میں اس ایٹمی ری ایکٹر کے ایک بہت چھوٹے حصے کو نقصان پہنچا تھا جس کو فرانس کے ماہرین نے فوراً مرمت کر دیا تھا۔ 1982 میں نیویارک میں ایٹمی ہتھیاروں اور تجربات کے خلاف دس لاکھ افراد نے مظاہر ہ کیا، یوں جیسا کہ پہلے بتایا گیاکہ ستمبر1996 کواقوام متحدہ کی میز پر آئندہ ایٹمی دھماکوں اور تجر بات پر پابندی کی قرارداد پر امریکہ ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین نے دستخط کئے مگر بھارت نے انکار کر دیا تو بعض اطلاعات کے مطابق ٹیسٹ کئے جانے والے چھ ایٹم بموں میں سے 1997 کے آغاز ہی میں پاک فوج نے چاغی میں پانچ بم اور ایک بم آوارن میں پہنچا دیاتھا۔

5 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹوکی حکومت کو برخاست کر کے اسمبلی تحلیل کر دی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا ، ملک معراج خالد نگران وزیراعظم مقرر ہو ئے فروری 1997 کو عام انتخابات ہونے تھے، یہاں صورتحال یوں تھی کہ پوری دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے خلا ف اہل فکر و دانش نے آوازیں بلند کیں کہ اب یہ گمان ہونے لگا تھا کہ جو اطلاعات بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے حوالوں سے آئی تھیں کیا اب بھارت ا پنے پروگرام پر نظر ثانی کرے گا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں تھا۔

جہاں تک پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا تعلق تھا تو وہ تو بہت پہلے ہی سے تیار ہو چکے تھے بلکہ جہاں اِ ن کا تجربہ ہونا تھا وہاں بھی پہنچا دیئے گئے تھے، بھارت کا مسئلہ یہ تھا کی اُس کی تیاری مکمل نہیں ہو رہی تھی، یہ ایٹمی دھماکے پاکستان کے لیے تو بڑی طاقتوں کی جانب سے کسی ممکنہ تکنیک کے استعمال کے اندیشے کے تحت قدرے گھراہٹ اور فکرمندی کا سبب تھے مگر بھارت پر بھی دباؤ تھا کہ اگر یہ ایٹمی دھماکے ناکام ہو جاتے یا ریڈیشن (تابکاری) کے اثرات پھیل جاتے تو پھر بھارت ہمیشہ کے لیے جوہری ہتھیاروں سے محروم ہو جاتا اس لیے بھارت اب بہت محتاط تھا۔

یہاں پاکستان میں 3 فروری 1997 میں انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی 207 جنرل نشستوں میں سے 137 نشستیں حاصل کر کے واضح اکثریت لی، 17 فروری کو نواز شریف نے دوسری مرتبہ بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا، انہیں اعتماد کے 181 ووٹ ملے انہوں نے پیپلز پارٹی سے مل کر یکم اپریل کو آئین میں 13 ویں ترمیم کرکے حقیقی پارلیمانی جمہوریت بحال کر دی، صدر کے اسمبلی توڑنے، فوجی سربراہوں اور گورنر مقرر کرنے کے اختیارات ختم کردئے گئے اور آئین سے آرٹیکل58 (2 ) بی اورآرٹیکل 112 (2 ) بی کو نکال دیا گیا لیکن اَن کے اقتدار میں آتے ہی آٹے کی شدید قلت پیدا ہو ئی۔

29 اپریل 1997 کو صدر فاروق لغاری جب چین روانہ ہوئے تو اختیارات میں کمی کے ساتھ اُن کا پرو ٹوکو ل بھی کم کر دیا گیا، کمشنر راولپنڈی نے اُنہیں رخصت کیا، 12 مئی کو نواز شریف نے سارک کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال سے ملا قات کی، 3 مئی 1997 کو افغانستان میں طالبان نے تین صوبوں پر قبضہ کر کے اسلامی حکومت کا اعلان کیا اور پاکستان نے اس حکومت کو فوراً تسلیم کر لیا، 5 ستمبر1997 کو ججوںکی تعداد میں کمی کا نوٹس سپریم کورٹ نے معطل کر دیا، 9 ستمبر کو چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ نے آرمی چیف سے براہ راست تحفظ مانگ لیا ، 28 نومبر کو سپر یم کورٹ میں زبردستی داخل ہوکر مسلم لیگ ن کے لیڈروں نے کارکنوں کے ہمراہ شدید ہنگامہ آرائی کی۔

2 دسمبر کو صدر فاروق لغاری نے استعفیٰ دے دیا اور وسیم سجاد صدر ہو گئے۔ 3 دسمبر کو جسٹس سجاد علی شاہ اور مختارجونیجو طویل رخصت پر چلے گئے، 13 دسمبر کو ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافے سے لو گوں کے اربوں روپے ڈوب گئے، 2 مارچ 1998 کو 17 سال بعد ملک میں مردم شماری ہوئی،7 اپریل1998 کو پاکستان نے زمین سے زمین پر 1500 کلومیٹر مار کرنے والے حتف 5 غوری میزائل کاکامیاب تجربہ کر لیا،11 مئی کو بھارت نے دو ایٹمی تجربات کی صورت میں پوکھرن راجستھان میں 5 ایٹمی دھماکے کر دیئے۔

گیارہ مئی سے اٹھائیس مئی تک پوری پاکستانی قوم شدید بے چینی اور اضطراب کے عالم میں رہی، نا قابل بیان حد تک پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ بھارت کے جواب میں دھماکے نہ کرے، ایک جانب عالمی سطح پر اربوں ڈالر کی امداد، قرضوں کی معافی جیسے لالچ دیئے جا رہے تھے تو دوسری طرف اقتصادی مالیا تی پابندیوں کے علاوہ اشاروں میں تباہ و برباد کر نے کی دھمکیوں تک نوبت پہنچ رہی تھی، افواج پاکستان اور پاکستان اٹامک کمیشن تو بہت پہلے ہی چاغی اور آواران میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب دینے کے اقدامات کر چکا تھا اور پوری قوم کے ساتھ اِن کا حکومت پر شدید دباؤ تھا کہ فوراً بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر دیئے جائیں۔

کیونکہ پاکستان تو روز اوّل سے پوری دنیا سے یہ مطالبہ کرتا رہا کہ بھارت کو ایٹمی قوت بننے سے روکا جائے کیونکہ اس طرح خطے میں میں نہ صرف بھارت اور پاکستا ن کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ جائے گا تو مجبوراً پاکستان کو بھی اس کا جواب دینا پڑے گا بلکہ اس علاقے میں جہاں پہلے سے روس اور چین جیسی بڑی اور ایٹمی قوتیں موجود ہیں یہاں دو اور ایٹمی قوتوں کے وجود میں آجانے سے صورتحال ہمیشہ اندیشوں کے تابع رہے گی کیونکہ چین اور بھارت کے درمیان بھی تنازعات ہیں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تو کشیدگی کہیں زیادہ ہے اور پھر 1990 میں سرد جنگ کے بعد روس کی صورتحال بھی تیزی سے بدل رہی تھی۔

اُس وقت چونکہ پوری دنیا ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی تجربات کی وجہ سے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پر شدید برہم تھی اور روس امریکہ مفاہمت کی وجہ سے فرانس، برطانیہ اور چین نے بھی دنیا میں ایٹمی تجربات اور دھماکوں کی اقوام متحدہ کی قرار داد پر دستخط کر دیئے تھے، پاکستان نے 9 مئی کے بعد دنیا پر زور دیا کہ بھارت کے خلاف عالمی سطح پر شدید نوعیت،غیر معینہ مدت کی پابندیاں لگائی جائیں جس کے نتیجے میں بھارت فوراً ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے تو پاکستان بھی ایٹمی دھماکوں سے باز رہے گا، لیکن امریکہ، فرانس ، برطانیہ، روس اور چین جو اعلانیہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور کی بنیاد پر مستقل رکن بھی ہیں۔

بھارت کے خلاف مشترکہ طور پر کو ئی موثر اور شدید نوعیت کے اقدامات کرنے کے اعلان سے قاصر رہے، اُس وقت میاں نواز شریف کی کابینہ 20 وفاقی وزرا پر مشتمل تھی جن میںاسحاق ڈار، محمد علی خان ہو تی، شیخ رشید، سید غوث علی شاہ ، سید احمد محمود، سرتاج عزیز،گوہر ایوب، جاوید ہاشمی، خالد مقبول صدیقی، مشاہد حسین ، جنرل(ر) عبدالمجید ملک، خالد انور، راجہ محمد ظفرالحق، یٰسین خان وٹو، عابدہ حسین، سردار یعقوب خان ناصر، تہمینہ دولتانہ، راجہ نادر پرویز، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری نثار علی شامل تھے۔

اُس وقت کی اطلاعات کے مطابق دھماکوں کے حق میں اگرچہ کابینہ کی اکثریت تھی لیکن شدید دباؤکے طور پر گوہر ایوب، چوہدری نثار علی اور شیخ رشید اہم تھے اور پھر 28 مئی 1998 کو پہلے بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں پانچ ایٹمی دھماکے چاغی کے پہاڑ راس کوہ میں کئی ہزار فٹ کی گہرائی میں کئے گئے اور دو دن بعد 30 مئی کو ایک ایٹمی دھماکہ خاران میں کیا گیا، 28 مئی کے دھماکوں کے وقت یہاں چاغی میں راس کوہ پر بھارت، اسرائیل، امریکہ اور روس سمیت دیگر قوتوں کی جانب سے تکنیکی طور پر دھماکوں کو روکنے کے توڑ بھی کر لئے گئے تھے، مگر بعض اطلاعات کے مطابق جب ایٹمی تجربات کی بنیاد پر دھماکوں کے لیے بٹن دبایا گیا تو چند سیکنڈز کی دیر ہوئی تو وہاں موجود سب کے چہرے زد پڑ گئے لیکن جیسے ہی دھماکے کامیاب ہوئے تو کنٹرول روم اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا اور پاکستان دنیا کی اعلانیہ ساتویں اور اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔

اور یہ کریڈٹ اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے حصے میں آیا۔ اب پاکستان کو بڑے بحران کا سامنا تھا، اقتصادی بحران مہنگا ئی ڈالر کی قیمت اور افراط زر میں اضافہ تو پہلے ہی سے تھا لیکن ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے عالمی سطح کی مالیاتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں تھیں حالانکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے جذبہ حب الوطنی اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، اِن حالات میں پاکستان کو امدادی زرمبادلہ بھیجا مگر بدقسمتی سے بعض مفاد پرستوں نے ڈالر ذخیرہ کر لیے یا باہر بھجوائے۔

مئی کے بعد ہی جون میں ہر سال کی طرح قومی بجٹ پیش کرنا تھا، یوں مالی سال 1998-99 کا وفاقی بجٹ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیا جس کا مجموعی حجم 6.6 کھرب روپے تھا جس میں55 ارب 60 کروڑ روپے کا خسارہ تھا، پھر 18 جون کو پٹرول کی قیمتوں میں 25% اضافہ کر دیا گیا،17 اکتوبر 1999 کو نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کر دیا اور جنرل جہانگیر کرامت جن کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 9 جنوری1999 تھی وہ ازخود وقت سے پہلے یہ عہدہ چھوڑ گئے، یوں فروری1997 سے اکتوبر 1998 تک 20 مہینوں کے اقتدار میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ، صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری اور پھر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اپنی مدت ملازمت پوری کرنے سے پہلے اپنا عہدہ چھوڑ گئے، یوں ان اداروں اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بالکل واضح ہو گئے تھے۔

پیپلز پارٹی نے اگرچہ جمہوریت کے حق میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں آئینی ترامیم میں غیر مشروط طور پر مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا تھا مگر اس حکو مت نے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھولا،17 اکتوبر 1998 کو نامور شخصیت سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا،18 نومبر 1998 کو امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت اور پاکستان پر عائد اقتصادی پابندیاں از خود اٹھا دیں،11 جنوری 1999 میں بھارت میں اقلیتوں کے قتل عام پر پاکستان کے عیسائیوں نے ملک بھر میں بھرپور احتجاج کیا، سپریم کورٹ نے سندھ اسمبلی بحال کردی اور کہا کہ اسے قانون سازی کے پورے اختیارات حاصل ہونگے، تحریک جعفریہ نے مسلم لیگ سے الحاق ختم کر دیا۔

15 جنوری کو کھلی کچہری میں وزیر اعظم سے نہ ملنے دینے پر ایک شخص نے احتجاجاً خود کو آگ لگا کر ہلاک کر لیا، فروری ہی میںسابق وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ 19 فروری1999 کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی واہگہ سے بذریعہ بس پاکستان لاہور آئے وزیراعظم نواز شریف نے اُن کا استقبال کیا،21 فروری1999 کو اعلان لاہور پر دستخط ہوئے جس کے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات پر باہم گفتگو کے ذریعے حل پر زور دیا گیا،اگرچہ یہ دورہ 1988-89 کی سابق وزیراعظم راجیو گاندھی بینظیر بھٹو ملا قات کے دس سال بعد اور مئی 1998 میں بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی سے پاکستان کے وزیراعظم کی ملاقات اہم تھی، مگر نہ تو اس میں ایٹمی قوت بن جانے کے بعد کی خصوصی صورتحال زیر بحث آئی اور نہ ہی کشمیر ، سرکیک، سیا چن سمیت دیگر تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کے لیے کو ئی ٹائم فریم یا طریقہ کار طے پایا۔

جہاں تک تعلق اعلانِ لاہور کا تھا تو یہی بات 1972 کے شملہ معاہد ے میں کی گئی تھی، پھر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد ہی پاکستان پر ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہو نے کے الزامات کے ساتھ پراپیگنڈا شروع ہو گیا اور پھر وہی دہشت گردی اور تخریب کاری کو سپورٹ کر نے کے الزمات پاکستان پر عائد کئے جانے لگے جس میں بھارتی لیڈر اور ذرائع ابلا غ پیش پیش تھے۔ (جاری ہے)
Load Next Story