غم روزگار
میری کُل کائنات ایک سکوٹر تھا جسے بیچ کر ایک ٹائپ رائٹر خریدا، شیخ رشید
HARIPUR:
میری کُل کائنات ایک سکوٹر تھا جسے بیچ کر اس کے پیسوں سے ایک ٹائپ رائٹر خریدا، اپنی کمپنی شیخ اینڈ سنز بنائی لیکن چند دنوں بعد دونوں بڑے بھائیوں نے کاروبار میں دلچسپی کا اظہار کیا تو یہ رجسٹرڈ شدہ کمپنی اپنے بھائی کو دے دی اور خود ایک کمپنی ''گل مرگ'' کے نام سے اپنے گھر کے پتہ پر کل پانچ ہزار کے سرمایہ سے قائم کی۔
یہ سرمایہ سکوٹر بیچ کر حاصل کیا جس میں سے 1800 روپے کی ٹائپ رائٹر خریدی پانچ سو روپے بینک میں سکیورٹی جمع کروائی دو تین سو روپے کے لیٹر پیڈ چھپوائے اور اچھی کمپنیوں کو خط ڈالنے شروع کردیئے۔ تقریباً دو ہزار روپے کی مالیت کے خط دوسری کمپنیوں کو بھیجے یہ ایڈریس میں نے اس وقت سے سنبھال رکھے تھے جب میں پہلی دفعہ لندن اور امریکہ کے دورے پر گیا تھا۔
یہاں ٹیلی فون بوتھوں میں بعض اوقات ڈائرکٹریاں پڑی ہوتی تھیں۔ اس میں سے اپنے قالینوں اور ریشم کے غیر ملکی کاروباری اداروں کے مطلوبہ پیجز پھاڑ لیتا تھا یہ میرے پاس محفوظ تھے ان سب کو میں نے خط لکھنے شروع کردیئے۔ خطوں کے جواب سے یہ اندازہ ہوا کہ کیٹلاگ CATALOG کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پنجاب سمال انڈسٹریز والوں نے پچاس روپے کی ایک کیٹلاگ بنا رکھی تھی اس کا باہر والا صفحہ پھاڑ کر گل مرگ کا گتہ چڑھا دیا اور کیٹلاگ کا مطالبہ کرنے والی بعض فرموں کو اپنا نام چسپاں کرکے بھجوادی۔
ہالینڈ سے ایک خط مسٹربروک کا آیا اس نے کہا کہ وہ قالین خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ تین اور پارٹیاں بھی ہیں وہ پاکستان آنا چاہتے تھے۔ اب مجھے بڑی فکر لاحق ہوگئی کہ نہ میرے پاس دفتر ہے نہ اسٹاک اور نہ ہی عملہ۔ بھابڑا بازار کی تنگ و تاریک گلیوں سے خط و کتابت کرتا ہوں تو کیا بنے گا۔ لاہور گیا بڑے بھائی کو صورتحال بتائی اس نے ایک ٹرک قالینوں کا ادھار لادیا لیکن مسئلہ دفتر کا تھا کہ کہاں رکھا جائے اور کہاں دکھایا جائے۔ یکایک مجھے خیال آیا۔ میں نے کالج روڈ پر پاک پراپرٹی ڈیلر کے ٹھیکیدار عبدالرحمان سے جس نے نیا نیا دفتر سجایا تھا ایک دن کیلئے دفتر ادھار مانگا۔
مجھے یورپ میں کمپنیوں کے بورڈوں کے سائزوں کا پتہ تھا کہ چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں۔ جس طرف سے انہوں نے آنا تھا اس طرف سے پاک پراپرٹی ڈیلر کا بورڈ اتار کر گل مرگ کا بورڈ لگادیا۔ جہاں تک عملے کا تعلق تھا حبیب بینک سٹی برانچ کے فارن ایکسچینج میں شیخ نصیر صاحب امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو سمجھتے تھے (میں اس معاملے میں بالکل کورا تھا) میں نے ان سے کہا انہوں نے ایک دن کی چھٹی پر آمادگی ظاہر کی اور میں نے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر میں جو ایک دن کیلئے امپورٹ ایکسپورٹ کا دفتر بن گیا تھا انہیں اپنی کمپنی کا منیجر بنادیا۔ ہالینڈ کی کمپنی سے میں نے کچھ زیادہ دوستی بڑھائی۔
ان کی بڑی خاطر مدارت کی۔ اشتیاق اور چودھری مشتاق سے بیس ہزار روپے ادھار لیے۔ بروک میرے ذاتی دوست بن گئے۔ اس طرح مجھے 10 لاکھ کا بڑا آرڈر ملا جو انہوں نے ہالینڈ پہنچتے ہی فیکس کردیا۔ سب سے پہلا کام میں نے یہی کیا کہ شالیمار پلازہ ایک دفتر کرائے پر لیا۔ غلام مصطفی یہاں پارٹ ٹائم کام کرنے آتا تھا۔ انصاری صاحب مرحوم واحد سٹاف ممبر تھے اس طرح حبیب بینک سے پہلا او ڈی ایڈوانس 50 ہزار روپے ملا اور میں خود گل مرگ اینڈ کمپنی کا ایم ڈی بن چکا تھا۔ میں قالینوں کے ساتھ ساتھ ریشم کی امپورٹ ایکسپورٹ میں بھی دلچسپی لے رہا تھا۔ اس آرڈر کو میں نے تین قسطوں میں ایکسپورٹ کیا کیونکہ آرڈر کی زرضمانت رکھنے کو کچھ نہ تھا۔ اس لیے ایک شپمنٹ کے پیسے وصول کرکے دوسری بھیجتا اور تین قسطوں میں کام مکمل کیا۔
(خود نوشت ''فرزند پاکستان'' سے)
میری کُل کائنات ایک سکوٹر تھا جسے بیچ کر اس کے پیسوں سے ایک ٹائپ رائٹر خریدا، اپنی کمپنی شیخ اینڈ سنز بنائی لیکن چند دنوں بعد دونوں بڑے بھائیوں نے کاروبار میں دلچسپی کا اظہار کیا تو یہ رجسٹرڈ شدہ کمپنی اپنے بھائی کو دے دی اور خود ایک کمپنی ''گل مرگ'' کے نام سے اپنے گھر کے پتہ پر کل پانچ ہزار کے سرمایہ سے قائم کی۔
یہ سرمایہ سکوٹر بیچ کر حاصل کیا جس میں سے 1800 روپے کی ٹائپ رائٹر خریدی پانچ سو روپے بینک میں سکیورٹی جمع کروائی دو تین سو روپے کے لیٹر پیڈ چھپوائے اور اچھی کمپنیوں کو خط ڈالنے شروع کردیئے۔ تقریباً دو ہزار روپے کی مالیت کے خط دوسری کمپنیوں کو بھیجے یہ ایڈریس میں نے اس وقت سے سنبھال رکھے تھے جب میں پہلی دفعہ لندن اور امریکہ کے دورے پر گیا تھا۔
یہاں ٹیلی فون بوتھوں میں بعض اوقات ڈائرکٹریاں پڑی ہوتی تھیں۔ اس میں سے اپنے قالینوں اور ریشم کے غیر ملکی کاروباری اداروں کے مطلوبہ پیجز پھاڑ لیتا تھا یہ میرے پاس محفوظ تھے ان سب کو میں نے خط لکھنے شروع کردیئے۔ خطوں کے جواب سے یہ اندازہ ہوا کہ کیٹلاگ CATALOG کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پنجاب سمال انڈسٹریز والوں نے پچاس روپے کی ایک کیٹلاگ بنا رکھی تھی اس کا باہر والا صفحہ پھاڑ کر گل مرگ کا گتہ چڑھا دیا اور کیٹلاگ کا مطالبہ کرنے والی بعض فرموں کو اپنا نام چسپاں کرکے بھجوادی۔
ہالینڈ سے ایک خط مسٹربروک کا آیا اس نے کہا کہ وہ قالین خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ تین اور پارٹیاں بھی ہیں وہ پاکستان آنا چاہتے تھے۔ اب مجھے بڑی فکر لاحق ہوگئی کہ نہ میرے پاس دفتر ہے نہ اسٹاک اور نہ ہی عملہ۔ بھابڑا بازار کی تنگ و تاریک گلیوں سے خط و کتابت کرتا ہوں تو کیا بنے گا۔ لاہور گیا بڑے بھائی کو صورتحال بتائی اس نے ایک ٹرک قالینوں کا ادھار لادیا لیکن مسئلہ دفتر کا تھا کہ کہاں رکھا جائے اور کہاں دکھایا جائے۔ یکایک مجھے خیال آیا۔ میں نے کالج روڈ پر پاک پراپرٹی ڈیلر کے ٹھیکیدار عبدالرحمان سے جس نے نیا نیا دفتر سجایا تھا ایک دن کیلئے دفتر ادھار مانگا۔
مجھے یورپ میں کمپنیوں کے بورڈوں کے سائزوں کا پتہ تھا کہ چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں۔ جس طرف سے انہوں نے آنا تھا اس طرف سے پاک پراپرٹی ڈیلر کا بورڈ اتار کر گل مرگ کا بورڈ لگادیا۔ جہاں تک عملے کا تعلق تھا حبیب بینک سٹی برانچ کے فارن ایکسچینج میں شیخ نصیر صاحب امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو سمجھتے تھے (میں اس معاملے میں بالکل کورا تھا) میں نے ان سے کہا انہوں نے ایک دن کی چھٹی پر آمادگی ظاہر کی اور میں نے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر میں جو ایک دن کیلئے امپورٹ ایکسپورٹ کا دفتر بن گیا تھا انہیں اپنی کمپنی کا منیجر بنادیا۔ ہالینڈ کی کمپنی سے میں نے کچھ زیادہ دوستی بڑھائی۔
ان کی بڑی خاطر مدارت کی۔ اشتیاق اور چودھری مشتاق سے بیس ہزار روپے ادھار لیے۔ بروک میرے ذاتی دوست بن گئے۔ اس طرح مجھے 10 لاکھ کا بڑا آرڈر ملا جو انہوں نے ہالینڈ پہنچتے ہی فیکس کردیا۔ سب سے پہلا کام میں نے یہی کیا کہ شالیمار پلازہ ایک دفتر کرائے پر لیا۔ غلام مصطفی یہاں پارٹ ٹائم کام کرنے آتا تھا۔ انصاری صاحب مرحوم واحد سٹاف ممبر تھے اس طرح حبیب بینک سے پہلا او ڈی ایڈوانس 50 ہزار روپے ملا اور میں خود گل مرگ اینڈ کمپنی کا ایم ڈی بن چکا تھا۔ میں قالینوں کے ساتھ ساتھ ریشم کی امپورٹ ایکسپورٹ میں بھی دلچسپی لے رہا تھا۔ اس آرڈر کو میں نے تین قسطوں میں ایکسپورٹ کیا کیونکہ آرڈر کی زرضمانت رکھنے کو کچھ نہ تھا۔ اس لیے ایک شپمنٹ کے پیسے وصول کرکے دوسری بھیجتا اور تین قسطوں میں کام مکمل کیا۔
(خود نوشت ''فرزند پاکستان'' سے)