اعلیٰ حکام کی باربار عدالت طلبی درست نہیں چیف جسٹس
حکام اپنا کام ٹھیک کریں تو مداخلت کی ضرورت نہیں رہتی،چیف جسٹس
MELBOURNE:
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اعلیٰ حکام کی باربار عدالت طلبی درست نہیں اور حکام اپنا کام ٹھیک کریں تو مداخلت کی ضرورت نہیں رہتی۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں پولیس اصلاحات سے متعلق اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ چیف جسٹس نے عدالتوں میں اندراج مقدمہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اندراج مقدمہ کی درخواستوں کے اضافہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ چکا ہے، پولیس اصلاحات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
چیف جسٹس نے پولیس کمپلینٹ سیل میں موصول شکایات کے فوری ازالے اور تھانہ میں مقدمات کی بروقت اندراج کے اقدامات کو یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق اقدامات یقینی بنایا جائے۔
بعدازں چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے سنٹرل پولیس آفس میں افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عہدہ سنبھالنے پراولین ترجیح عدالتوں میں پیش ہونیوالوں کاوقاربرقراررکھناتھا، بطورچیف جسٹس پولیس،آئی ٹی،عدلیہ میں اصلاحات کیں، جس کے نتیجے میں ہائیکورٹس میں اپیلیں دائرہونے میں15فیصد کمی ہوئی اور انتظامی معاملات بہتر ہونےسے اسی عدلیہ نے زبردست نتائج دیے، پولیس یاکسی بھی شخصیت کی عدالت میں پیشی پراس کا احترام ملحوظ خاطررکھنا چاہیے، اعلیٰ حکام کی باربار عدالت طلبی میرے نزدیک درست نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ملک میں عوامی نوعیت کا کوئی واقعہ پیش آتا تو شور مچتا تھا کہ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینا چاہیے،لیکن سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کا آخری ادارہ ہے جسے پہلا پلیٹ فارم نہیں بننا چاہیے، حکام اپنا کام کر رہے ہوں اور متعلقہ ادارہ پہلے ہی متحرک ہوتوعدالت کو نوٹس لینے اور مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، پہلے دن ہی مداخلت کی جائے تو معاملات الجھ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہمارا کام انصاف کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے، آئندہ کیسز میں جھوٹی گواہی میں مدد پر تفتیشی افسر کو بھی اتنا ہی ملزم بنائیں گے، یہ انصاف دلانا نہیں کہ ایک انصاف دلانے کیلئے 10جرائم آپ خود کرائیں، سب معاہدہ کرلیں کہ جھوٹی گواہی نہیں دیں گے بری ہوتا ہے تو ہوجائے، کام چلانا مقصد نہیں قانون کے مطابق انصاف کا حصول مقصد ہے، انصاف کیلئے جرم کرنا پڑتاہے تو ایسا انصاف انصاف نہیں جو معاشرے کوکرپٹ کرے، ایساانصاف نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کو انصاف دیتے ہوئے معاشرے کو کرپٹ کردیں۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اعلیٰ حکام کی باربار عدالت طلبی درست نہیں اور حکام اپنا کام ٹھیک کریں تو مداخلت کی ضرورت نہیں رہتی۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں پولیس اصلاحات سے متعلق اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ چیف جسٹس نے عدالتوں میں اندراج مقدمہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اندراج مقدمہ کی درخواستوں کے اضافہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ چکا ہے، پولیس اصلاحات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
چیف جسٹس نے پولیس کمپلینٹ سیل میں موصول شکایات کے فوری ازالے اور تھانہ میں مقدمات کی بروقت اندراج کے اقدامات کو یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق اقدامات یقینی بنایا جائے۔
بعدازں چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے سنٹرل پولیس آفس میں افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عہدہ سنبھالنے پراولین ترجیح عدالتوں میں پیش ہونیوالوں کاوقاربرقراررکھناتھا، بطورچیف جسٹس پولیس،آئی ٹی،عدلیہ میں اصلاحات کیں، جس کے نتیجے میں ہائیکورٹس میں اپیلیں دائرہونے میں15فیصد کمی ہوئی اور انتظامی معاملات بہتر ہونےسے اسی عدلیہ نے زبردست نتائج دیے، پولیس یاکسی بھی شخصیت کی عدالت میں پیشی پراس کا احترام ملحوظ خاطررکھنا چاہیے، اعلیٰ حکام کی باربار عدالت طلبی میرے نزدیک درست نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ملک میں عوامی نوعیت کا کوئی واقعہ پیش آتا تو شور مچتا تھا کہ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینا چاہیے،لیکن سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کا آخری ادارہ ہے جسے پہلا پلیٹ فارم نہیں بننا چاہیے، حکام اپنا کام کر رہے ہوں اور متعلقہ ادارہ پہلے ہی متحرک ہوتوعدالت کو نوٹس لینے اور مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، پہلے دن ہی مداخلت کی جائے تو معاملات الجھ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہمارا کام انصاف کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے، آئندہ کیسز میں جھوٹی گواہی میں مدد پر تفتیشی افسر کو بھی اتنا ہی ملزم بنائیں گے، یہ انصاف دلانا نہیں کہ ایک انصاف دلانے کیلئے 10جرائم آپ خود کرائیں، سب معاہدہ کرلیں کہ جھوٹی گواہی نہیں دیں گے بری ہوتا ہے تو ہوجائے، کام چلانا مقصد نہیں قانون کے مطابق انصاف کا حصول مقصد ہے، انصاف کیلئے جرم کرنا پڑتاہے تو ایسا انصاف انصاف نہیں جو معاشرے کوکرپٹ کرے، ایساانصاف نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کو انصاف دیتے ہوئے معاشرے کو کرپٹ کردیں۔