نظریاتی جمود توڑنے کی ضرورت ہے

ملائیشیا کے وزیراعظم نے مسلم ملکوں کے مسائل کا بہترین حل ’’روشن خیالی‘‘ قرار دیا تھا۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ملائیشیا کے وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد جس میں انھوں نے مسلم ملکوں کے مسائل کا بہترین حل ''روشن خیالی'' قرار دیا تھا ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ سید علی خامنہ ای کا یہ ارشاد کہ ''اسلامی نظام کی بنیادی اساس تیز سائنسی ترقی سے عبارت ہے، نیز ایران کا تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دشواریوں، خطرات اور لغزشوں کا ایک موثر حل علمی اور سائنسی پیشرفت ہے''۔ ایران میں اعتدال پسند رہنما حسن روحانی کے بعد جو تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں وہ دورِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں، ملائیشیا کے بعد ایران کے روحانی پیشوا کا بیان مسلم دنیا کے دو اہم ملکوں کی پالیسیوں میں ایک بڑی اور مثبت پیشرفت کہلا سکتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر نے تہران میں نوجوانوں اور دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام پُرامن ہے لیکن ہم اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کریں گے۔ تین دہائیوں تک مغربی ملکوں کے لیے ایران ایک ڈراؤنا خواب بنا رہا جسے طرح طرح کے تشہیری اور اقتصادی پابندیاں ناکام نہ بنا سکیں وہی ایران اب خطے میں ایک موثر طاقت بن کر مسلم ملکوں کو ایک تشخص دے رہا ہے۔ باصلاحیت ایرانی سائنس دان ہر سائنسی اور علمی ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں جن کے لیے ملک میں انفرااسٹرکچر موجود ہے۔

ایسے حالات میں جب کہ مسلم ملکوں میں مذہبی انتہاپسندی نے ترقی کے سارے راستے مسدود کر کے مسلم ملکوں میں ایک جمود کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے، ملائیشیا اور ایران کی قیادتوں کی طرف سے ترقی کی سمت آگے بڑھنے کا جو راستہ اور روڈ میپ مسلم ملکوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے امید ہے کہ 57 مسلم ملکوں میں اس کا خیر مقدم کیا جائے گا اور ان دونوں ملکوں کے نظریاتی روڈ میپ کو اپنا کر مسلم ملکوں کو اس سیاسی اقتصادی اور ترقیاتی جمود سے نکالنے کی کوشش کریں گے جو دنیا میں مسلم ملکوں کی پسماندگی کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہاں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشلسٹ بلاک کی تیز تر پیش قدمی کو روکنے اور پسماندہ ملکوں خصوصاً مسلم ملکوں میں امریکا نے روشن خیالی کو لادینیت کا نام دے کر مسلم عوام میں جو نظریاتی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اس کا مقصد ان ملکوں میں جدید علوم سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے راستوں کو روکنا تھا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کی ترجیحات اور اہداف میں تبدیلی آئی ہے اور وہ آزاد اور خودمختار ملکوں کے خلاف مختلف بہانوں سے براہ راست جارحیت پر اتر آئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے تھنک ٹینکوں نے اس پالیسی کے خطرناک مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کے نتیجے میں یہ جارحانہ اور احمقانہ پالیسی ناکام ہی نہیں ہو رہی ہے بلکہ ان ملکوں کو اقتصادی بحرانوں میں اس طرح دھکیل رہا ہے کہ امریکا جیسی دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے دیوالیہ ہونے کے خطرات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

مسلم ملک صدیوں سے فکری پسماندگی کے جن صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں اس کے نتیجے میں یہ ملک عالمی برادری میں ہریجن بن کر رہ گئے ہیں لیکن اب ملائیشیا، انڈونیشیا، ایران وغیرہ کی اقتصادی پالیسیوں اور نظریاتی تبدیلیوں نے یہ امید پیدا کر دی ہے کہ یہ ملک مسلم ملکوں کے لیے رول ماڈل کا کام انجام دیں گے۔ لیکن ان ملکوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ترقی کے راستے پر پیش قدمی سے روکنے کے لیے عالمی طاقتیں طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں یہ طاقتیں جو مذہبی انتہاپسندی کی تخلیق کی ذمے دار ہیں، کہیں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرتی نظر آ رہی ہیں تو کہیں مذہبی انتہاپسندی کو استعمال کرتی نظر آ رہی ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت اپنے مذہب سے عقیدت بھی رکھتی ہے اور اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے میں مکمل آزاد بھی ہے اور ان ملکوں میں ان کے عقائد کو کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں لیکن بعض حلقوں کی طرف سے ان ملکوں کو مذہبی ریاستیں بنا کر عالمی برادری میں مذہبی سیاست کے فروغ کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ ملک ترقی کی سمت تیز تر پیش قدمی کے بجائے نظریاتی الجھنوں اور فکری انتشار کا شکار ہو کر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے سے محروم ہو جائیں گے۔ اس سازشانہ ماحول میں ملائیشیا اور ایران کی فکری پیشقدمی مسلم ملکوں کے لیے نہ صرف امید کی کرن بن رہی ہے بلکہ اس فکر کے فروغ کے نتیجے میں مسلم ملکوں میں بڑھتی پھیلتی مذہبی انتہاپسندی کی پسپائی کی راہ ہموار ہو گی۔


کسی بھی ملک کی ترقی و تعمیر میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایران کے مذہبی رہنما کے خطاب کے ساتھ اخبار ایکسپریس میں اسی صفحے پر ایک خبر یہ بھی شایع ہوئی ہے کہ ''اسرائیل اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے'' ہم اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف اس کی مذمت کرنے میں حق بجانب ہیں لیکن ہم اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے وسیع و عریض علاقے میں ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل جس کی آبادی کراچی کی دو مضافاتی بستیوں سے زیادہ نہیں وہ سارے مشرق وسطیٰ میں کمانڈنگ پوزیشن میں کیوں ہے؟ اس کی طاقت عرب ملکوں کی اجتماعی طاقت سے زیادہ کیوں ہے؟ اس میں شک نہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کی خاطر اس کی بھرپور طریقے سے مدد کر رہے ہیں لیکن اسرائیل خود زندگی کے مختلف شعبوں میں ناقابل یقین ترقی کر رہا ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے حوالے سے اسرائیل دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن اس حوالے سے جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہماری دیہی آبادی میں جو زرعی معیشت سے جڑی ہوئی ہے تعلیمی ادارے وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہیں اور اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ ہمارے صوبائی وزیر تعلیم خود اعتراف کرتے ہیں کہ دیہی علاقے گھوسٹ اسکولوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ہمارے ملک میں شرح تعلیم دیگر پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں 50 فیصد سے کم ہے۔

66 سال سے ہم جس تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں اس میں ایک اور خطرناک اضافہ یہ ہوا ہے کہ قبائلی علاقوں میں مذہبی انتہاپسند تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا رہے ہیں اور لڑکیوں کو علم کے حصول سے روکنے کے لیے ان پر قاتلانہ حملے کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں 66 سال سے جاری دہرے نظام تعلیم کی وجہ آبادی کی بھاری اکثریت کے بچے کالے پیلے سرکاری اسکولوں میں شرارتیں سیکھنے اور لڑنے جھگڑنے کے لیے جاتے ہیں یوں ان کا بچپن اور تعلیم حاصل کرنے کی عمر علم سے محرومی اور غنڈہ گردی سیکھنے میں گزر جاتی ہے اور طبقہ اشرافیہ کی اولاد ملک کے اعلیٰ اور جدید تعلیمی اداروں میں علم حاصل کر کے قومی اداروں پر مسلط ہو جاتی ہے اور وراثتی اقتدار کا حصہ بن جاتی ہے۔ عوام علم سے محرومی کی وجہ سے ملکی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔

آج ہم جس مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہیں اس کا ایک بڑا ہدف تعلیمی ادارے ہیں۔ علم کے بغیر انسان حیوان ہی رہتا ہے اور اپنی قوم کو علم کے حصول سے روکنا حیوانیت کو فروغ دینے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے مذہبی انتہاپسندی کی تخلیق کردہ دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان وغیرہ نے خوف و دہشت کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے صنعت کار اپنی صنعتوں کو دوسرے ملکوں میں شفٹ کر رہے ہیں اس صورت حال میں معاشی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گرد ہمارے دفاعی اداروں کو تباہ کر رہے ہیں فوج اور پیراملٹری فورسز کا قتل عام کر رہے ہیں اور ان سفاکیوں کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ وہ دنیا پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ایسے بدترین ماحول میں ملائیشیا کے وزیر اعظم ایران کے مذہبی رہنما کے بیانات اپنے اندر بڑے گہرے مفاہیم رکھتے ہیں کاش! ہمارے اہل دانش اور میڈیائی آئی کون ان حقائق کو سمجھنے اور عوام تک انھیں پہنچانے کی کوشش کریں۔
Load Next Story