میرا جنون
میرا جنون ایک سیاسی کارکن رائو سلمان خان کی خود نوشت ہے۔
میرا جنون ایک سیاسی کارکن رائو سلمان خان کی خود نوشت ہے۔ رائو سلمان کا تعلق ملتان سے ہے۔ انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی، مزدور کسان پارٹی میں پوری زندگی گزاری۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھر سیاسی اسیروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اور ان کی رہائی کے لیے انتھک کوشش کیں۔ رائو سلمان کی کتاب کے 8 ابواب ان کی پیدائش، ہندوستان تقسیم ہونے کے بعد پاکستان ہجرت، بچپن میں غربت اور جدوجہد کی داستان پھر ملتان کے سینئر وکیل عبدالرحمن خان سے ملاقات اور سیاسی زندگی کے آغاز سے اب تک کے واقعات پر مشتمل ہے مگر آخری دو باب سیاسی رہنمائوں اور سیاسی قیدیوں کے خطوط پر مشتمل ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے ایک طرف پاکستان کی سیاسی تاریخ اور بائیں بازو کی تحریک کی یادیں تازہ ہوتی ہیں تو دوسری طرف جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے حالات اور ان کی بہبود کے لیے رائو سلمان کی کوششوں کے ذکر سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب میں نادر تصاویر بھی شامل ہیں، ان میں سے کچھ تصاویر بائیں بازو کے رہنمائوں کی ہیں۔
راؤ سلمان متحدہ پنجاب کے انبالہ ڈویژن ضلع حصار تحصیل فتح آباد کے گائوں بھوانہ میں پیدا ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گائوں میں ہندو سکھ مسلمان ہر مذہب اور عقیدے کے لوگ آباد تھے، ہر کوئی دوسرے عقیدے کا احترام کرتا تھا۔ ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ پنجاب میں خونریز فسادات ہوئے مگر ہمارے ضلع میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان راجپوت ایک ہی دادا کی اولاد میں سے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گائوں سے ہجرت کرتے وقت والد نزدیک کے ہندوئوں کے گائوں ملنے گئے تو انھوں نے بڑی خاطر مدارات کی۔ ہندوئوں کا کہنا تھا کہ سکھ اور ہندو پولیس والے انھیں مسلمانوں پر حملے پر اکساتے تھے، مگر ہمارا جواب یہ ہے کہ ہم صدیوں سے بھائیوں کی طرح رہتے آئے ہیں اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو اپنا شوق پورا کر لیں اور مزہ بھی چکھ لیں۔ رائوسلمان لکھتے ہیں کہ ان کا خاندان وہاڑی میں آ کر آباد ہوا، انھیں خاندان کو بچانے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑی۔ والدہ بیماری میں بچ نہ سکی، دو چھوٹے بھائی نمونیہ میں جاں بحق ہوئے، پھر والد صاحب انتقال کر گئے۔
راؤ سلمان لکھتے ہیں کہ ایک برا وقت یہ بھی آیا کہ ان کے اور چھوٹے بھائی کے پاس کھانے اور کرائے تک کے پیسے نہیں تھے مگر پھر بھارت کی زمینوں کے کلیم آئے، یوں لودھراں میں رقبہ الاٹ ہوا پھر اپنی خالہ کی لڑکی سے شادی ہو گئی جو عمر میں 10 سال بڑی تھی۔ رائو سلمان نے جدید طریقہ کاشتکاری پر توجہ دی۔ کراچی سے ایل ایل بی کیا، ان کے بھائی اسماعیل نے بی اے کی ڈگری لی، پھر مرزا اعجاز بیگ ایڈووکیٹ نے ان کی ملاقات ملتان میں سینئر وکیل عبدالرحمن خان ایڈووکیٹ سے کرائی۔ عبدالرحمن خان ایڈووکیٹ کے صاحبزادے آئی اے رحمن پاکستان ٹائمز میں صحافی تھے۔ چھوٹے صاحبزادے اطہر رحمن اور بھتیجے اشفاق احمد خان قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اشفاق احمد خان نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے رہنما بنے اور بھٹو نے انھیں ویتنام میں پہلا سفیر مقرر کیا۔ رائو سلمان نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے جس کے صدر مولانا بھاشانی اور سیکریٹری جنرل محمودالحق عثمانی تھے۔ رائو سلمان کا قسور گردیزی، سی آر اسلم، مرزا ابراہیم، میجر اسحاق، سید مطلبی فرید آبادی وغیرہ سے رابطہ ہوا۔
رائو سلمان ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کانفرنس دو روز جاری رہی، مولانا بھاشانی کی تقریر بہت اہم تھی، وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ ان کی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو جائے، مولانا بھاشانی صدر رہیں اور انھیں پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنایا جائے مگر ایسا نہیں ہوا، اگر ایسا ہو جاتا تو ملک کے دونوں حصوں میں نیب کی حکومت ہوتی اور پاکستان نہ ٹوٹتا۔ رائو سلمان لکھتے ہیں کہ ہم نے ملتان میں بھاشانی اکیڈمی بنائی تھی اور اکیڈمی نے تین کتابیں شایع کی تھیں۔ رائو صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مولانا بھاشانی اس اکیڈمی کے استقبالیہ کے لیے ملتان آئے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں واضح اور صاف الفاظ میں کہا تھا کہ آیندہ حالات نے اجازت دی تو میں مغربی پاکستان میں ایک یا دو سال رہوں گا، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت نیب میں بھی کئی گروپ بن گئے ہیں۔ ایک بھاشانی گروپ اور دوسرا ولی خان گروپ، مشرقی پاکستان میں پرویز مظہر گروپ، سرحد اور بلوچستان کے نیپ (ولی خان) رہنما شامل تھے۔ سندھ اور پنجاب میں بھاشانی گروپ زیادہ مضبوط تھا۔
انھوں نے 1970ء کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور عوامی لیگ کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کیا، مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کامیاب ہو گئی، سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی اور سرحد و بلوچستان سے نیپ ولی خان نے کامیابی حاصل کی۔ بھٹو نے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا۔ اندرونی خلفشار عروج پر پہنچ گیا، حکومت کی گرفت کمزور ہو گئی، پھر مکار دشمن بھارت نے مشرقی بازو پر حملہ کیا۔ سیاستدانوں اور اعلیٰ فوجی قیادت کی غلط حکمت عملی سے ہم آدھے پاکستان سے محروم ہو گئے۔ رائو سلمان نے بنگلہ دیش کی آزادی کا ذکر کرتے ہوئے فوج اور دائیں بازو کی اصطلاحات کا سہارا لیا ہے۔ رائو سلمان لکھتے ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی میں پھر دو گروپ بن گئے۔ قسور گردیزی سی آر اسلم گروپ کو چھوڑ کر ولی خان کی نیپ میں شامل ہو گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مزدور کسان پارٹی فوجی حکومت اور مارشل لاء کی مخالف تھی۔ وہ 4 اپریل 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس دن ان کے اسکول آنے والے والدین اور فوجی بھی غمزدہ تھے۔ وہ ایم آر ڈی کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایم آرڈی گیارہ جماعتوں کا اتحاد تھا پھر ایم آر ڈی کے کارکنوں کی گرفتاری کے دوران فوجی عدالتوں نے بہت سے سیاسی کارکنوں میں قید و بند کی سزائیں دی تھی۔ رائو سلمان کو بھی متعدد بار نظر بند کیا گیا۔
ایک دفعہ بیرک میں ایسے افراد لائے گئے جن کو بیڑیاں اور ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھی، یہ وہ سیاسی قیدی تھے جو گوریلا وار شروع کرنا چاہتے تھے، ان میں سے دو کو سزائے موت ہو چکی تھی۔ ان میں سے سب کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ کچھ دوسری ترقی پسند جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان لوگوں سے ملاقات کے لیے لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور دیگر شہروں سے آتے تھے، ہمارا گھر ان کے لیے کھلا ہوا تھا، کئی وکیلوں نے سیاسی کارکنوں کی مدد کی، ان میں اطہر رحمن خان سب سے زیادہ متحرک تھے۔ رائو صاحب ایم آر ڈی پنجاب کے صدر رہے، سیاسی کارکنوں پر مظالم کے خلاف پریس کانفرنس کی، جب 1985ء میں قومی اسمبلی وجود میں آئی تو ان کے اراکین کو عرضداشتیں بھجوائیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایم آر ڈی کی آخری میٹنگ میں یہ طے کیاگیاتھا کہ انتخابات میں مشترکہ امیدوار کھڑے کیے جائیں گے تا کہ جمہوری جماعتیں اکثریت حاصل کر سکیں، یہ طے پایا تھا کہ رکن جماعتیں اپنی حلیف جماعتوں کے صدور اور سیکریٹری جنرل کے مقابلے میں امیدوار کھڑی نہیں کریں گی مگر پیپلز پارٹی نے تنہا پرواز کا فیصلہ کیا، پیپلز پارٹی انتخابات میں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔
راؤ سلمان نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے دوران ملتان میں ایک اسکول قائم کیا اور مظفر گڑھ میں زمینوں کی آبادکاری کا کام کیا۔ وہ اپنی مزدور کسان پارٹی کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صوبہ سرحد میں کسانوں کی جدوجہد کے مرکز ہشت نگر گئے، جہاں انھیں کسانوں سے ملنے اور مزیدار کھانوں اور نظریاتی تعلیم دینے کے مواقع ملے۔ کتاب کا ایک اہم باب سیاسی رہنمائوں کے 20 سے زیادہ خطوط ہیں، ان خطوط میں بائیں بازو کی تحریک کے کئی اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے، آخری بات ان سیاسی قیدیوں کے 40 سے زیادہ خطوط پر محیط ہے، ان خطوط کے مطالعے سے جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاسی اسیروں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور ان کارکنوں کی بہبود کے لیے رائو صاحب کی کوششوں کا ذکر ملتا ہے۔ رائو نے جس طرح ان خطوط کو محفوظ کر رکھا ہے وہ خود ایک کارنامہ ہے۔ رائو سلمان کی کتاب سیاسی کارکنوں کے علاوہ پاکستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والوں کے لیے خوبصورت تحفہ ہے۔