بھارتی توپیں سلگتا مسئلہ کشمیر اور 27 اکتوبر
مقبوضہ کشمیر کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔
22اکتوبر 2013ء کو ایک انگریزی معاصر نے صفحہ اول پر واشنگٹن کی ڈیٹ لائن سے ایک خبر جلی الفاظ میں شایع کی: US Policy On Kashmir Unchanged یعنی (مقبوضہ) کشمیر کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف امریکا جاتے ہوئے لندن رکے تو انھوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے الجھے ہوئے مسئلے کو سلجھانے کے لیے امریکا کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے صاف الفاظ میں وزیراعظم پاکستان پر واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انھیں بھارت کے ساتھ پہلے کی طرح، مذاکرات کرتے رہنا چاہیے۔ واشنگٹن میں متعین اخبار کے نمایندے نے ایک امریکی عہدیدار (جس کا نام نہیں دیا گیا) کی بریفنگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا: ''امریکی سرکار کے ایک نمایاں اہل کارنے واضح الفاظ میں کہا کہ کشمیر کے بارے میں امریکا کی جو پالیسی رہی ہے، اس میں ایک لفظ کی تبدیلی بھی نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ مکالمے اور مذاکرے کے ذریعے ہی کوئی حل نکالے۔'' ہمیں اس ترنت جواب سے خاصی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ ہمارے نئے حکمرانوں نے امریکا بہادر سے بلند امید لگا رکھی تھی کہ 23 اکتوبر 2013ء کو جب وہائٹ ہائوس میں ان کی ''عالمی صاحب'' سے ملاقات ہوگی تو مسئلہ کشمیر کے حل کا ذکر بھی بلند آہنگ کے ساتھ سامنے آئے گا۔ یہ خبر اس روز شایع ہوئی جب اگلے روز، بدھ کو جناب نواز شریف امریکی صدر سے ملنے والے تھے ۔ یہ ملاقات یقینا ہوئی لیکن مذاکرات کے دوران مسئلہ کشمیر کا ذکر دھیمے سُروں میں کیا گیا۔ان حالات میں بھارت اور امریکا کے ان غیر انسانی رویوں کے درمیان 27 اکتوبر کو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا جارہا ہے۔ 27اکتوبر 1947ء کی یاد میں جب بھارتی افواج نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر عالمی قوانین اور یو این او کا مذاق اڑایا۔ 66برسوں کے بعد آج بھی بھارت کشمیر جنت نظیر کے ایک لاکھ انتالیس ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنا ظالمانہ تسلط جمائے رکھنے کے لیے خصوصاً گذشتہ 24برسوں کے دوران 94ہزار کشمیریوں کو شہید، 23ہزار کشمیری خواتین کو بیوہ، ایک لاکھ سات ہزار چار سو اکسٹھ بچوں کو یتیم اور دس ہزار کشمیری عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی ہے۔
واقعہ یہی ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کو کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنا اور دوستی کے بندھن میں بندھنا ہے تو سب سے پہلے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا۔ یہی ہماری جغرافیائی تقدیر اور یو این او میں کیے گئے وعدوں کا یہی تقاضا ہے۔ اس سے کسی طور مفر نہیں۔ اسی مسئلے سے باقی مسائل جڑے ہیں۔ ہمارے بعض دانشور ہمیں بار بار یہ بتانا نہیں بھولتے کہ چین کی طرح ہم لوگوں کو بھی مسئلہ کشمیر ایک سائیڈ پر رکھ کر بھارت سے تجارت اور ٹریڈ وغیرہ کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔ ان احباب کا استدلال ہے کہ اگر چین اپنے حریف (بھارت) سے بعض سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت سے سالانہ اربوں ڈالر کی تجارت کرسکتا ہے تو ہم یہی راستہ کیوں اختیار نہیں کرسکتے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ استدلال گمراہ کن ہے ۔
وہ ہند چینی معاملات کی تاریخ سے آگاہ ہیں نہ اس کی معنویت سے آشنا ۔ کیا منطق بگھارنے والے یہ اہل دانش اپنے ہم وطنوں کو بتا سکتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران چینی سرحد سے متصل بھارتی علاقوں میں متعین بھارتی افواج کتنے چینی شہریوں کو، بغیر کسی چینی اشتعال انگیزی کے، ہلاک کر چکی ہے؟ جب کہ اسی سوال کے جواب میں اور اسی پس منظر میں، ایل او سی اور دوسری سرحدات پر متعین بھارتی افواج ایک درجن کے قریب ہمارے فوجی جوانوں اور سویلین کو شہید اور 69 کو شدید زخمی کرچکی ہے۔ (رواں سال میں بھارتی افواج ایل او سی پر ہمارے خلاف 350 بار سرحدی خلاف ورزیاں کر چکا ہے) اس کے باوجود بھارت مسلسل دریدہ دہنی اور کذب گوئی سے کام لیتے ہوئے پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ افواج پاکستان، بھارت کے خلاف جارحیت کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت خوش قسمت ہے کہ اس کا میڈیا پوری استقامت کے ساتھ بھارتی فوج اور بھارتی حکومت کے پاکستان مخالف منفی پروپیگنڈہ کا ساتھ دے رہا ہے جب کہ یہ خوش بختی پاکستانی میڈیا کی طرف سے ہماری سیکیورٹی فورسز کو میسر نہیں۔
حیرت انگیز تصویر یہ بھی ابھر رہی ہے کہ بھارتی توپیں مسلسل پاکستان کے خلاف برس رہی ہیں اور ہم ہیں کہ خاموشی اور صلح جوئی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت ''ادلے کا بدلہ'' کی پالیسی اختیار کرلے تو یقینا ہمارا عسکری اسلوب بھی طاقتور ہوگا۔ گذشتہ دنوں جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب نے بھارتی افواج کے سربراہ اور بھارتی وزیراعظم کے پاکستان کے خلاف بیانات کا براہ راست جواب دیا تو وطن عزیز کا ایک انگریزی اخبار ناراض ہوگیا۔ اس نے اپنے اداریے میں ''سرزنش'' کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے لکھا: ''فوج کا کام ہر گز یہ نہیں کہ وہ غیر ملکی سیاسی بیانات کا جواب دے۔'' ہم تو حیران رہ گئے۔ اس معاصر کو تنقید کرتے ہوئے غالباً یہ بات یاد نہ رہی کہ سرحد کے پار جب جنرل بکرم سنگھ پاکستان کے خلاف خوخیا رہا تھا تو کسی بھارتی اخبار یا ٹی وی کو اُن کی سرزنش کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ ہمارے میڈیا کا یہ رویہ یقینا عسکری قیادت کی حوصلہ شکنی اور ''کار سرکا ر میں مداخلت'' کا مرتکب قرار پاتا ہے ۔ غالباً اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ ہماری عسکری قیادت بھارتی توپوں کا شدت سے جواب دینے کے بجائے اس امر کی منتظر ہے کہ اگلے ماہ ایل او سی کے بگڑے معاملات پر پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کے مذاکرات ہورہے ہیں۔
ایل او سی پر بھارتی افواج کی زیادتیوں پر پاکستان کا صبر رنگ لارہا ہے۔ بھارتی فوجی توپیں پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بمباری بھی کرتی ہیں (تازہ ترین حملہ 23اکتوبر کو سیالکوٹ میں ورکنگ باؤنڈری لائن پر ہوا جس میں چار پاکستانی دیہاتوں میں تین پاکستانی شہید کردیے گئے) اور الٹا پاکستان کو مورد الزام بھی ٹھہراتی ہیں۔ اس دروغ گوئی سے وزیراعظم من موہن سنگھ کے کان بھی کھڑے ہوگئے ہیں۔ ان کے حکم سے بھارتی وزیردفاع اے کے انتھونی نے فوری طور پر بھارتی افواج کے سربراہ جنرل بکرم سنگھ کو اپنے ہاں بلایا تاکہ وہ سچ سچ بتائیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ راز دانوں کا کہنا ہے کہ جب جنرل بکرم سنگھ کو انتھونی کا یہ حکم ملا تو اس وقت وہ سینئر فوجی کمانڈروں کی ایک خصوصی میٹنگ سے خطاب کررہے تھے مگر انھیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر انتھونی کے دفتر میں حاضر ہونا پڑا۔ دوسری طرف ایک کٹھ پتلی نے بھی لب کشائی فرمائی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ''غلام'' وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ''ارشاد'' فرمایا ہے: ''پاکستان ایل او سی پر اپنی وارداتوں سے باز آجائے وگرنہ ہم کوئی دوسرا آپشن بھی اختیار کرسکتے ہیں۔'' سبحان اللہ۔ مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا ہے ۔
بھارت کی مرکزی حکومت کے اشارے پر کٹھ پتلی ابن کٹھ پتلی وزیراعلیٰ (مقبوضہ) کشمیر عمر عبداللہ اپنی ناک کے عین نیچے بعض ایسے اقدامات کرنے کی اجازت دیتے رہتے ہیں جس کے بارے میں بظاہر ان کا رویہ یوں دکھایا جاتا ہے جیسے انھیں اس بارے میں کوئی علم ہی نہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ ماہ کے پہلے ہفتے سری نگر کے شالیمار باغ میں گانے بجانے کے ایک پروگرام کا انعقاد۔ اس کا انتظام تو بظاہر زوبن مہتہ نے کیا تھا، مبینہ طور پر بھارت میں جرمن سفارت خانے کے تعاون سے ۔ اس کنسرٹ میں صوبائی اور یونین وزراء کے ساتھ مقتدر کشمیری سیاستدانوں نے بھی شرکت کی۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے عمر عبداللہ اینڈ کمپنی کو قبل از وقت انتباہ کردیا تھا کہ کنسرٹ نہ کروایا جائے، وگرنہ حالات خراب ہوں گے لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ نتیجتاً گانے بجانے والے دن مقبوضہ کشمیر حکومت نے اے پی ایچ سی کے احتجاج کنندگان پر لاٹھیوں اور بندوقوں سے بے پناہ تشدد کیا جس میں بہت سے نہتے کشمیری شدید زخمی ہوگئے لیکن عمر عبداللہ کو حیاء نہ آئی۔