کاش ہم سمجھ سکیں

طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں آج کل پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت، دانش ور اور اہل علم و قلم تذبذب کا شکار ہیں۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں آج کل پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت، دانش ور اور اہل علم و قلم تذبذب کا شکار ہیں، بعض کی سوچ دائیں بازو کی حامل تو کچھ بائیں بازو کی فکر سے متاثر معلوم ہوتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ طالبان سے ہر صورت مذاکرات کیے جائیں جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ طالبان سے کسی صورت بھی مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں اور اس مسئلے کا حل طاقت سے ہی نکالا جانا چاہیے جب کہ بعض اس فکر کے حامی ہیں کہ جنگیں طاقت کے بل پر لڑی جاتی ہیں لیکن جیتی نہیں جاسکتیں، لہٰذا معاہدات و مذاکرات ہی واحد حل ہے۔

وہ طبقہ فکر جو مذاکرات کے خلاف اور طاقت کے حق میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جو مذاکرات پرامن بقائے باہمی کے تحت وقتی طور پر کیے جارہے ہیں یہ بعد میں تباہ کن اثرات مرتب کریں گے، مذاکرات کا مطلب طالبان کو مساوی قوت سمجھتے ہوئے ایک طاقتور فریق تسلیم کرنا ہے جس سے ملک کی سالمیت کو مزید خطرات لاحق ہوں گے اور طالبان اسے ہماری کمزوری تصور کریں گے اور ان کے وہ عزائم جن کا تعلق دائیں بازو سے ہے انھیں مزید تقویت حاصل ہوگی اور کچھ عجب نہیں کہ 2014 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے ایٹمی ہتھیار انتہائی غیر محفوظ ہوجائیں اور جلد یا بدیر ایٹمی طاقت کا حامل پاکستان طالبان و القاعدہ کی دسترس میں چلا جائے اور ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان کے تین بڑے دھڑے ہیں، پہلا دھڑا وہ افغان طالبان ہیں جن کا ٹھکانا جنوبی افغانستان ہے ان کی کمان ملا عمر کے پاس ہے اور یہ عسکری طور پر نہ صرف کرزئی حکومت سے کافی طاقتور ہیں بلکہ انھوں نے امریکا اور اس کے ناٹو اتحادیوں کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور کردیا ہے۔

ان کے شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں بھی ٹھکانے ہیں اور یہ علاقے ان کے لیے اس لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ یہاں سے افغانستان اور پاکستان دونوں پر اپنا کنٹرول اور دراندازی باآسانی رکھتے ہیں ان کے جو لوگ پاکستان میں مقیم ہیں وہ حقانی نیٹ ورک کے نام سے موسوم ہیں، دوسرے دھڑے کی قیادت مصری جہادی رہنما ایمن الظواہری کے ہاتھ میں ہے، امریکی حملے کے بعد جب کابل طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ لوگ بھی اپنی جنگی حکمت عملی کے تحت افغانستان سے پسپا ہوئے اور بالآخر فاٹا میں قیام پذیر ہوئے، ان میں غیرملکی جنگجو شامل ہیں جن کا تعلق عرب، مصر، ازبکستان اور چیچنیا سے ہے اور ان کا براہ راست تعلق القاعدہ سے ہے۔

القاعدہ افغان طالبان کو اور افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان کو سپورٹ کرتے اور تقویت پہنچاتے ہیں اور یہ سب مل کر افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد پوری شدت سے کابل اور بعدازاں پاکستان پر بھی پوری شدت سے حملہ آور ہونے کا عزم کیے بیٹھے ہیں اور طالبان کا تیسرا دھڑا یعنی تحریک طالبان پاکستان، وطن عزیز کی حدود میں منظم عسکری کارروائیوں کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے پہلے تیار بیٹھے ہیں، اس طرح امریکی افواج کے جاتے ہی یہ تینوں دھڑے اپنی عظیم علاقائی حکمت عملی کو حقیقت کا روپ دینے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کی وسیع تر حکمت عملی اولین درجے میں یہ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد وہ کابل، فاٹا اور افغانستان کے جنوب مشرقی علاقوں کو ملاکر اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق ایک نئی امارت تشکیل دیں اور اپنی نئی اسلامی ریاست قائم کریں، ایک ایسی الگ ریاست جس کے تقویت پکڑنے کے ساتھ ہی اسلام آباد کے ایٹمی ہتھیار انتہائی غیر محفوظ ہوجائیں اور القاعدہ، افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کی دسترس میں آجائیں۔ بہ ظاہر ایسا ہونا نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی کسی قیمت گوارا نہ ہوگا، لہٰذا آگ و خون کے ایک ہولناک و بھیانک سلسلے کے آغاز کا بھی امکان ہے۔


سیاستدانوں، علما، اہل دانش اور اہل علم و قلم کا دوسرا طبقہ فکر جو مذاکرات و معاہدات کے حق میں ہے ان کا خیال ہے کہ مذاکرات ہر حال میں اور ہر صورت اس لیے کیے جائیں کیونکہ یہ پاکستان کی ضرورت بلکہ مجبوری ہے اگر آج اے پی سی اور پاک فوج کی قیادت حکومتی سطح پر طالبان سے مذاکرات کی تائید و حمایت کر رہے ہیں تو یہ اکتوبر 2001 سے اب تک بارہ برس کے عسکری ٹکراؤ اور فوجی کشمکش کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے وہ تاریخی و زمینی حقائق ہیں جو نہ صرف ناقابل تردید بلکہ ناقابل بیان بھی ہیں جن میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہمراہ وطن عزیز کو اسٹرٹیجک پارٹنر اور نان ناٹو اتحادی ہونے کا ناقابل تلافی نقصان اور بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، پاکستان کی حاکمیت اور علاقائی سالمیت داؤ پر لگی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی واضح خلاف ورزیاں کی گئیں، ڈرون حملوں سے معصوم انسانی جانوں کا نقصان ہوا تو دوسری جانب عوامی ردعمل بڑھا اور رائے عامہ حکمرانوں کے خلاف ہموار ہوئی امریکا کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو دھچکا پہنچا اور سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے ضمن میں پہلے سے محتاط ہوگئے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب سے پاکستان امریکا کی جانب سے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں شریک کار بنا تو گویا نہ صرف دوسروں کی جنگ ہم پر مسلط ہوگئی بلکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان وہ پاکستانی معصوم قوم برداشت کر رہی ہے جس کا نائن الیون کے مذموم واقعے سے دور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہ تھا سرکاری اعلانات اس امر پر شاہد ہیں، چالیس ہزار عام پاکستانی شہری اور 10 سے 15 ہزار فوجی یا فرنٹیئر کور اور پولیس کے افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں (جب کہ عام خیال ہے کہ یہ اعدادوشمار اصل کے مقابلے میں بہت کم ہیں)۔ اس جنگ کی بدولت پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گئی اور ملک کے طول و عرض میں جان و مال کا تحفظ باقی نہ رہا، اس جنگ کے نتیجے میں جو معاشی تباہی آئی وہ ہر اندازے سے کہیں زیادہ ہے، امریکا سے ملنے والی پانچ ارب ڈالر کی امداد کے مقابلے میں نقصان 67 ارب ڈالر کا ہوا اور اس میں انسانی جانوں کے اتلاف، زخمیوں کی دیکھ بھال کے معاشی مصارف اور پورے ملک میں انفرااسٹرکچر میں جو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان (Wear & Tear) ہوا اس کا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے، اگر ان تمام چیزوں کو معاشی نقصان کی شکل میں شمار کیا جائے تو اس تباہی کی معاشی قیمت 150 سے 200 ارب ڈالر سے کم نہیں ہوسکتی جوکہ ہماری پوری سالانہ قومی پیداوار کے قریب بھی نہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں نے امریکا سے بیزاری کا اظہار کیا ہے خود امریکی اداروں کے تحت عوامی رائے جاننے کے لیے جو سروے کرائے گئے ان کے مطابق تیسری دنیا کی اکثریت نے امریکا کو دوست قرار نہیں دیا خود پاکستانی عوام نے امریکا کی سامراجی پالیسیوں سے ناراضی اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے 93 فیصد نے اس کی کارروائیوں اور کردار کی پرزور مذمت کی جب کہ صرف 7 فیصد نے تائید کی جس سے مکمل واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستانی عوام کو کبھی بھی امریکا کی دوستی پر اعتماد نہیں تھا، یہ صرف حکمران ہی تھے جنہوں نے عوام کے جذبات کے علی الرغم امریکا سے دوستی کا رشتہ استوار کیا اور اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کیا۔

لیکن اب وہ لمحہ آگیا ہے کہ جب ان اہم ترین مسائل و چیلنجز اور زمینی و تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادت کو وسیع تر ملکی سالمیت اور قومی مفادات کے پیش نظر دو ٹوک انداز میں فیصلہ کن اقدام کو ناگزیر جانتے ہوئے اہم ترین عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے اور ان اہم عملی اقدامات کی پہلی کڑی طالبان کے ساتھ وہ مذاکرات ہیں جو بارہ سالہ عسکری کشمکش کے بعد طالبان کو اسٹیک ہولڈر تسلیم کرتے ہوئے اے پی سی اور عسکری قیادت کی مکمل تائید و حمایت سے شرمندہ تعبیر ہونے جارہے ہیں چونکہ آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کا حل نہ نکل سکا اسی لیے مذاکرات کے ذریعے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے طالبان اگر مذاکرات کی ٹیبل پر آنا چاہتے ہیں تو انھیں عسکری کارروائیوں سے باز رہنا ہوگا۔

خارجی و داخلی انتشار و بحران، معاشی بدحالی، دہشت گردی اور امن وامان کا فقدان ایسے چیلنجز ہیں جو بڑے بڑے حوصلہ مند رہنما کی بھی نیندیں اڑا دیتے ہیں اور یہی حال آج ہمارے حکمرانوں کا بھی ہے۔ جب ہر جنگ کا اختتام ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات کے بعد مذاکرات و معاہدات پر ہی ہوتا ہے تو پھر کیوں آغاز ہی میں مذاکرات کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا؟ اور کیوں مذاکرات کو اولین ترجیحی بنیادوں پر نہیں رکھا جاتا ہے۔ ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے، حالانکہ تاریخ ہماری بہترین رہنما ہے۔ کاش! کہ ہم سمجھ سکیں۔
Load Next Story