ریلوے تیری کون سی کل سیدھی
گزشتہ پیر جعفر ایکسپریس پر تخریب کاروں کے بزدلانہ بم حملے کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی اور جاں بحق ہوگئے۔
گزشتہ پیر راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی ٹرین جعفر ایکسپریس پر تخریب کاروں کے انسانیت سوز بزدلانہ بم حملے کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی اور جاں بحق ہوگئے۔ یہ حملہ بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی کے قریب کیا گیا۔ ریموٹ کنٹرول بم کو ریلوے ٹریک کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ دہشت گرد ریلوے انجن کو نشانہ بنانا چاہتے تھے مگر ان کا نشانہ خطا ہوگیا اور ریل کے ڈبے اس حملے کی زد میں آگئے، اس حملے کے نتیجے میں معصوم لوگوں کے ناقابل تلافی نقصان کے علاوہ پاکستان ریلوے کا بھی اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔ افسوس کہ یہ سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا جب وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس سنگین چیلنج سے کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آہونے کے لیے اپنا آرام اور چین تج دیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ ریلوے جیسے تباہ حال محکمے کا قلم دان انھوں نے خواجہ سعد رفیق کے حوالے کیا ہے، جنھوں نے ریلوے کی بحالی کو ایک زبردست چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے۔ پاکستان ریلوے ایسا اونٹ ہے کہ جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے، سالہا سال کی بدانتظامی، بدعنوانی اور مجرمانہ غفلت نے وطن عزیز کے اس اہم ترین ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے اور اس کی حالت اس وقت اس مریض کی سی ہے جو آکسیجن کیمپ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہو۔ ریلوے کا جان بہ لب محکمہ عرصہ دراز سے پکار رہا تھا کہ
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
خداوند کریم کا شکر ہے کہ یہ پکار صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی اور دائمی مریض کو خوش قسمتی سے وہ مسیحا میسر آگیا ہے جس کا برسوں سے انتظار تھا۔ پاکستان ریلوے کی موجودہ حالت یہ ہے کہ ''تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم'' (پورا جسم زخم آلود ہے، مرہم کہاں کہاں لگائیں) اس دائمی مریض کا شافی علاج کرنے کے لیے خواجہ سعد رفیق کو بیک وقت کئی محاذوں پر ڈٹ کر جنگ کرنا پڑے گی، جو کہ چومکھی لڑنے کے مترادف ہے۔ سب سے مشکل کام درست ترجیحات کا تعین ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی پیش رفت نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔ دوسرا اہم اور بڑا کام ٹیم کی سلیکشن کا ہے۔ اس کام کے لیے وزیراعظم نواز شریف کو وزیر موصوف کو مکمل طور پر فری ہینڈ دینا ہوگا کیونکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کامیابی کے حصول کے لیے یہ شرط اول ہو گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے اور وہ یہ کہ ریلوے کا محکمہ وہ محکمہ ہے جس کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اس کی درستگی کے لیے بلاتکلف اور بلا رعایت بہت چھان پھٹک کی ضرورت ہے۔ اسکریننگ اور تطہیر کا یہ عمل بھی کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر یہ کام قطعی غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ صرف میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر کیا جائے تو پھر کامیابی یقینی ہے۔
دیگر محکموں کی طرح پاکستان ریلوے میں بھی ایسے بہت سے ملازمین موجود ہیں جو مطلوبہ اہلیت اور تجربہ رکھنے کے علاوہ مخلص اور محنتی بھی ہیں۔ مسئلہ صرف ایسے ملازمین کو دریافت کرنا اور پھر اس کے بعد ان سے کام لینے کا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وزیر ریلوے کے لیے دست و پا ثابت ہوسکتے ہیں اور اس محکمے کی بحالی اور تنظیم نو میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے کا اگلا قدم گھوسٹ ملازمین سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، جو ریلوے کے محکمے کو مدت دراز سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ بظاہر یہ کام بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے جیسا نظر آتا ہے لیکن اگر اس کے لیے ایمان دار اور با کردار مخلص اور محنتی ورکرز کا تعاون حاصل کرکے کوئی معقول حکمت عملی اختیار کی جائے تو Parasites سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ کام چوروں سے نمٹنے کا بھی ہے جنھیں Reward اور Punishment کے طریقہ کار کے ذریعے بڑی حد تک راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر کام چوروں کی گرفت کی جائے اور کام کو عبادت سمجھ کر کرنے والوں کی مختلف انداز میں حوصلہ افزائی کی جائے۔
پاکستان ریلوے کی زبوں حالی کا ایک اور بہت بڑا بلکہ شاید سب سے بڑا مسئلہ وہ کرپشن اور بدعنوانی ہے جس میں چوٹی سے ایڑی تک کے لوگ شامل ہیں اور جن میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ ان میں سے بعض نام تو بے نقاب بھی ہوچکے ہیں مگر چونکہ ان بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا آسان نہ تھا اس لیے ابھی تک گرفت سے باہر ہیں لیکن یہ نہایت خوش آیند بات ہے کہ نیب کے نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد وفاقی وزیر ریلوے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے خاصے پرعزم نظر آتے ہیں۔ ہم میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں وزیر ریلوے کا بھرپور ساتھ دے۔ ہمیں نیب کے نئے چیئرمین سے بھی امید ہے کہ وہ یہ کام مکمل جذبہ حب الوطنی کے ساتھ نہایت جرأت مندی کے ساتھ انجام دینگے اور اس میں غیر ضروری تاخیر بھی نہیں ہونے دینگے۔
وزیر ریلوے نے نیشنل اکائونٹیبیلٹی بیورو سے ریلوے کے تمام گھپلوں اور گھوٹالوں کی چھان بین کرنے کی درخواست کی ہے جس میں سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاہور میں پاکستان ریلوے کی 141 ایکڑ اراضی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اربوں روپے مالیت کے اسکریپ کو اونے پونے فروخت کرنے کی بدعنوانی کا معاملہ اس کے علاوہ ہے۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایسے نازک وقت میں جب کہ وہ ریلوے کے لنگڑے لولے محکمے کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ریلوے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ماضی کے ان تمام گھپلوں کی از سر نو چھان بین ضروری ہے۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی کہاہے کہ اگر دو برسوں میں ریلوے کو بہتر اور اس کا خسارہ کم نہ کرسکا تو وزیر نہیں رہوںگا۔ انھوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ریلوے کی نجکاری کی نوبت نہیں آئے گی۔ انھوں نے ڈیرہ جمالی میں ٹرین پر کیے گئے حالیہ بم حملے کے حوالے سے انتہائی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے پرچم اور قوم کے عزم کو بموں سے جھکایا نہیں جاسکتا۔ پاکستان ریلوے کی نجکاری اس حوالے سے بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کی ایک دفاعی اہمیت بھی ہے جسے الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی دور حکومت میں ریلوے کے محکمے پر بے حد توجہ دی جاتی تھی۔ مخصوص اہمیت صرف حالت جنگ ہی میں نہیں بلکہ حالت امن میں بھی اتنی ہی توجہ کی مستحق ہے۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ خواجہ سعد رفیق اور ان کی ٹیم کی مخلصانہ اور پرزور کاوشوں کے نتیجے میں ریلوے کا محکمہ تمام بحرانوں سے باہر نکل آئیگا اس کے بعد اس کی حیرت انگیز ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ ہمیں اس بات کی بھی پوری توقع ہے کہ خواجہ صاحب کی دور رس نگاہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ریلویز پر بھی مرکوز ہونگی اور ایک دن وہ بھی آئیگا جب پاکستان ریلوے کا شمار دنیا کی جدید ترین ریلویز میں ہو گا۔