پاک امریکا تعلقات اور قومی خودمختاری
صدر مملکت نے تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کردیا ہے۔
صدر مملکت نے تحفظ پاکستان Protection of Pakistan آرڈیننس جاری کردیا ہے، اس سے قبل گواہوں کے تحفظ کا قانون Witness Protection Bill 2013 پارلیمنٹ سے پاس کرایا جاچکا ہے۔ حکومت ان قوانین کے وضع و نفاذ کرنے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ دہشت گردی اور خوف و ہراس پیدا کرنے والے عناصر پر ریاست کی علمداری قائم کرنے، ان کے خلاف فوری، موثر، بلاامتیاز اور سخت ترین کارروائی کرنے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ آئین و قانون شکن عناصر کو قرار واقعی سزا دلوانے میں نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کو شدید مشکلات پیش آرہی تھیں، اس بنا پر حکومت نے سخت ترین اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن آہنی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرکے ملک کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنانے کا عزم رکھتی ہے۔
آرڈیننس کے تحت دہشتگردی اور دیگر سنگین جرائم کی تحقیقات کے لیے ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جائیں گی، مخصوص اور سنگین جرائم کے مقدمات کی فوری تحقیقات کے لیے ضرورت پڑنے پر علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کیے جائیں گے، مقدمات کی پیروی اور تحقیقات کے لیے وفاقی پراسیکیوٹر تعینات کیے جائیں گے، سستے اور فوری انصاف کے لیے آئین کے آرٹیکل 37 کے تحت خصوصی وفاقی عدالتیں قائم کی جائیں گی، مخصوص سنگین جرائم پر سخت ترین اضافی سزائیں دی جائیں گی۔ مسلح افواج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فرائض کی انجام دہی میں قانون اور آئینی تحفظ ہوگا، جرائم کے خاتمے کے لیے پوری ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے گا، منظم جرائم پیشہ گروہوں اور مافیا پر قابو پانے کے لیے پیشگی حراست کا اختیار ہوگا۔ سنگین مخصوص جرائم میں ملوث افراد کے خلاف دائر مقدمات اور ان کی سماعت ضرورت کے مطابق ملک کے کسی بھی حصے میں منتقل کیے جاسکیں گے۔ اس قسم کے خطرناک مجرموں کو مخصوص جیلوں میں رکھا جائے گا۔ قانونی ماہرین نے اس نئے آرڈیننس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ قوانین میں یہ تمام چیزیں پہلے سے موجود ہیں، اس سلسلے میں قوانین کی کمی نہیں ہے صرف عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ نئے آرڈیننس میں شہادتوں کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا، جب گواہ کو تحفظ نہیں ہوگا تو وہ سامنے کیسے آئے گا، اور گواہی نہ ہوگی تو سزا کیسے دی جائے گی؟ آرڈیننس ملک کے موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
گزشتہ دنوں پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری اور سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر پیش کردہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کراچی کی عدالتوں میں 5500 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں ساڑھے چار ہزار کے قریب ناجائز اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے سے متعلق ہیں۔ ان سنگین نوعیت کے مقدمات کے التوا میں پولیس کی کوتاہیاں، گواہوں کی ہچکچاہٹ و خوف، ملزموں کے وکلاء کی جانب سے غیر ضروری التوا، متعلقہ محکموں کا عدم تعاون اور ججز کی کمی جیسی کئی وجوہات شامل ہوسکتی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف سندھ آگاہ کرچکے ہیں کہ سزائے موت کے سیکڑوں قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ حائل ہے۔ عدالتیں پورے حقائق و شواہد کا جائزہ لینے کے بعد مجرموں کو سزا سناتی ہیں مگر ان پر عمل نہ ہونے سے ملزموں کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ جب جرائم پیشہ عناصر کو یقین ہو کہ جرائم پر انھیں سزا نہیں ملے گی تو اس کا نتیجہ جرائم میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ نئے نئے قوانین میں سر کھپانے کے بجائے پہلے سے موجود قوانین کو مضبوط استغاثہ، اہل و قابل ججز کی تعیناتی و تقرری، تفتیش کے طریقہ کار کو بہتر بناکر سنگین جرائم کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سزاؤں پر عملدرآمد سے دیگر لوگوں کو بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ ایسا جرم کرنے پر سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
حکومت کو سزائے موت کو ختم کرانے کی بین الاقوامی مہم سے متاثر ہوئے بغیر اپنے معروضی حالات میں موت کی سزا ختم کرنے کے بجائے اس پر فوری عملدرآمد کرنا چاہیے۔ حکومت کو دہشت گردی و دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے محرکات اور جواز کو ختم کرنے کی تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں۔ منظم دہشتگردی کے پیچھے جو جواز سننے میں آتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ڈرونز حملے ہیں جس کی ڈھکے چھپے الفاظ میں دنیا بھر کے اداروں، شخصیات، حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مذمت بھی کی جاتی رہی ہے اور تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر بے گناہوں کی ہلاکتوں پر۔ اب اس آواز میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق کے خصوصی نمایندے نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈرونز حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کے اعداد و شمار منظر عام پر لائے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ڈرونز حملہ کرنے والے اور جہاں حملہ ہورہا ہے ان ممالک کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہونا چاہیے۔
نمایندے نے 1330 حملوں میں 22 سو افراد کی ہلاکت اور 6 سو کے زخمی ہونے کی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ رپورٹ ابھی نامکمل ہے۔ نمایندہ بین ایمرسن کے مطابق ان کی تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی سی آئی اے کی رازداری ہے جس کی وجہ سے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے، امریکا، برطانیہ اور اسرائیل تینوں ڈرونز استعمال کر رہے ہیں۔ ڈرونز حملوں سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بڑے انکشافات کیے ہیں۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈرونز حملوں کے ذریعے غیرقانونی ہلاکتیں کی گئیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکی سی آئی اے کی رازداری نے امریکی انتظامیہ کو عدلیہ اور بین الاقوامی قوانین کی گرفت سے آزاد کرکے قتل و غارت گری کا لائسنس دے دیا ہے۔ ڈرونز حملوں میں نو سو تک شہری ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس پر امریکی انتظامیہ سے جواب طلبی ہونی چاہیے اور عالمی برادری ڈرونز کی مخالفت کرے۔ امریکا سے حملوں کا واضح جواب و جواز طلب اور ہلاکتوں کی تفصیلات مہیا کرنے کو کہا جائے، غیر قانونی کارروائیاں روک کر ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ڈرونز حملوں میں پاکستانی حکام یا اداروں کے عناصر کی مدد بھی شامل ہوسکتی ہے جو قابل تشویش ہے۔
ایمنسٹی نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرونز کا شکار ہونے والوں کو انصاف تک رسائی فراہم کرے اور امریکی حکام سے ان حملوں کی تلافی کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرے۔ کھیت میں کام کرنے والی 68 سالہ بوڑھی عورت یا ڈرون میں ہلاک ہونے والے 18 مزدور امریکی مفادات کے لیے بڑا خطرہ ہوسکتے تھے، اس بات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ حکومت پاکستان نے ایمنسٹی کے موقف کی تائید اور خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعدد بار امریکی ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں، یورپی یونین میں بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ نواز شریف نے بھی امریکا میں ادارہ امن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرونز ہماری خودمختاری کے خلاف اور پاک امریکا تعلقات میں رکاوٹ اور عوام کا بڑا نقصان ہیں اب بند ہونے چاہئیں، امریکا اس کی ٹھوس یقین دہانی کرائے، امریکا پاکستان کے تحفظات سمجھے، عزت کرے اور عزت کروائے۔
دوسری جانب امریکا نے ایمنسٹی کی اس بات کو قطعی طور پر مسترد کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں، معصوم جانوں کو بچانے کے لیے فوجی دستوں اور دیگر ہتھیاروں کے بجائے ڈرونز کا آپشن استعمال کیا ہے، ہم عالمی قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس کے بعد امریکی انتظامیہ پر بین الاقوامی سیاسی دباؤ تو بڑھ گیا ہے، وزیراعظم کے واشنگٹن یاترا کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ وہ بدمست اور سرکش امریکا کے سیاسی کچھار سے پاکستان کے لیے کیا لے کر آتے ہیں۔ اہل وطن کی نگاہیں کچھ دیکھنے اور سننے کو بے تاب ہیں۔
آرڈیننس کے تحت دہشتگردی اور دیگر سنگین جرائم کی تحقیقات کے لیے ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جائیں گی، مخصوص اور سنگین جرائم کے مقدمات کی فوری تحقیقات کے لیے ضرورت پڑنے پر علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کیے جائیں گے، مقدمات کی پیروی اور تحقیقات کے لیے وفاقی پراسیکیوٹر تعینات کیے جائیں گے، سستے اور فوری انصاف کے لیے آئین کے آرٹیکل 37 کے تحت خصوصی وفاقی عدالتیں قائم کی جائیں گی، مخصوص سنگین جرائم پر سخت ترین اضافی سزائیں دی جائیں گی۔ مسلح افواج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فرائض کی انجام دہی میں قانون اور آئینی تحفظ ہوگا، جرائم کے خاتمے کے لیے پوری ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے گا، منظم جرائم پیشہ گروہوں اور مافیا پر قابو پانے کے لیے پیشگی حراست کا اختیار ہوگا۔ سنگین مخصوص جرائم میں ملوث افراد کے خلاف دائر مقدمات اور ان کی سماعت ضرورت کے مطابق ملک کے کسی بھی حصے میں منتقل کیے جاسکیں گے۔ اس قسم کے خطرناک مجرموں کو مخصوص جیلوں میں رکھا جائے گا۔ قانونی ماہرین نے اس نئے آرڈیننس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ قوانین میں یہ تمام چیزیں پہلے سے موجود ہیں، اس سلسلے میں قوانین کی کمی نہیں ہے صرف عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ نئے آرڈیننس میں شہادتوں کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا، جب گواہ کو تحفظ نہیں ہوگا تو وہ سامنے کیسے آئے گا، اور گواہی نہ ہوگی تو سزا کیسے دی جائے گی؟ آرڈیننس ملک کے موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
گزشتہ دنوں پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری اور سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر پیش کردہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کراچی کی عدالتوں میں 5500 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں ساڑھے چار ہزار کے قریب ناجائز اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے سے متعلق ہیں۔ ان سنگین نوعیت کے مقدمات کے التوا میں پولیس کی کوتاہیاں، گواہوں کی ہچکچاہٹ و خوف، ملزموں کے وکلاء کی جانب سے غیر ضروری التوا، متعلقہ محکموں کا عدم تعاون اور ججز کی کمی جیسی کئی وجوہات شامل ہوسکتی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف سندھ آگاہ کرچکے ہیں کہ سزائے موت کے سیکڑوں قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ حائل ہے۔ عدالتیں پورے حقائق و شواہد کا جائزہ لینے کے بعد مجرموں کو سزا سناتی ہیں مگر ان پر عمل نہ ہونے سے ملزموں کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ جب جرائم پیشہ عناصر کو یقین ہو کہ جرائم پر انھیں سزا نہیں ملے گی تو اس کا نتیجہ جرائم میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ نئے نئے قوانین میں سر کھپانے کے بجائے پہلے سے موجود قوانین کو مضبوط استغاثہ، اہل و قابل ججز کی تعیناتی و تقرری، تفتیش کے طریقہ کار کو بہتر بناکر سنگین جرائم کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سزاؤں پر عملدرآمد سے دیگر لوگوں کو بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ ایسا جرم کرنے پر سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
حکومت کو سزائے موت کو ختم کرانے کی بین الاقوامی مہم سے متاثر ہوئے بغیر اپنے معروضی حالات میں موت کی سزا ختم کرنے کے بجائے اس پر فوری عملدرآمد کرنا چاہیے۔ حکومت کو دہشت گردی و دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے محرکات اور جواز کو ختم کرنے کی تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں۔ منظم دہشتگردی کے پیچھے جو جواز سننے میں آتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ڈرونز حملے ہیں جس کی ڈھکے چھپے الفاظ میں دنیا بھر کے اداروں، شخصیات، حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مذمت بھی کی جاتی رہی ہے اور تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر بے گناہوں کی ہلاکتوں پر۔ اب اس آواز میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق کے خصوصی نمایندے نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈرونز حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کے اعداد و شمار منظر عام پر لائے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ڈرونز حملہ کرنے والے اور جہاں حملہ ہورہا ہے ان ممالک کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہونا چاہیے۔
نمایندے نے 1330 حملوں میں 22 سو افراد کی ہلاکت اور 6 سو کے زخمی ہونے کی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ رپورٹ ابھی نامکمل ہے۔ نمایندہ بین ایمرسن کے مطابق ان کی تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی سی آئی اے کی رازداری ہے جس کی وجہ سے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے، امریکا، برطانیہ اور اسرائیل تینوں ڈرونز استعمال کر رہے ہیں۔ ڈرونز حملوں سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بڑے انکشافات کیے ہیں۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈرونز حملوں کے ذریعے غیرقانونی ہلاکتیں کی گئیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکی سی آئی اے کی رازداری نے امریکی انتظامیہ کو عدلیہ اور بین الاقوامی قوانین کی گرفت سے آزاد کرکے قتل و غارت گری کا لائسنس دے دیا ہے۔ ڈرونز حملوں میں نو سو تک شہری ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس پر امریکی انتظامیہ سے جواب طلبی ہونی چاہیے اور عالمی برادری ڈرونز کی مخالفت کرے۔ امریکا سے حملوں کا واضح جواب و جواز طلب اور ہلاکتوں کی تفصیلات مہیا کرنے کو کہا جائے، غیر قانونی کارروائیاں روک کر ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ڈرونز حملوں میں پاکستانی حکام یا اداروں کے عناصر کی مدد بھی شامل ہوسکتی ہے جو قابل تشویش ہے۔
ایمنسٹی نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرونز کا شکار ہونے والوں کو انصاف تک رسائی فراہم کرے اور امریکی حکام سے ان حملوں کی تلافی کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرے۔ کھیت میں کام کرنے والی 68 سالہ بوڑھی عورت یا ڈرون میں ہلاک ہونے والے 18 مزدور امریکی مفادات کے لیے بڑا خطرہ ہوسکتے تھے، اس بات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ حکومت پاکستان نے ایمنسٹی کے موقف کی تائید اور خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعدد بار امریکی ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں، یورپی یونین میں بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ نواز شریف نے بھی امریکا میں ادارہ امن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرونز ہماری خودمختاری کے خلاف اور پاک امریکا تعلقات میں رکاوٹ اور عوام کا بڑا نقصان ہیں اب بند ہونے چاہئیں، امریکا اس کی ٹھوس یقین دہانی کرائے، امریکا پاکستان کے تحفظات سمجھے، عزت کرے اور عزت کروائے۔
دوسری جانب امریکا نے ایمنسٹی کی اس بات کو قطعی طور پر مسترد کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں، معصوم جانوں کو بچانے کے لیے فوجی دستوں اور دیگر ہتھیاروں کے بجائے ڈرونز کا آپشن استعمال کیا ہے، ہم عالمی قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس کے بعد امریکی انتظامیہ پر بین الاقوامی سیاسی دباؤ تو بڑھ گیا ہے، وزیراعظم کے واشنگٹن یاترا کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ وہ بدمست اور سرکش امریکا کے سیاسی کچھار سے پاکستان کے لیے کیا لے کر آتے ہیں۔ اہل وطن کی نگاہیں کچھ دیکھنے اور سننے کو بے تاب ہیں۔