ٹائیفائیڈ ویکسین اور پروپیگنڈہ

آج بھی ہمارے بچوں پر خسرہ ، تپ دق ، کالی کھانسی اور نمونیاکے حملے ہوتے رہتے ہیں۔

ہمارا ملک تیسری دنیا کے اُن ممالک میں سر فہرست ہے جہاں مسائل پے درپے پیدا ہوکر اژدہائی صورت اختیار کرلیتے ہیں ، پھر چاہے وہ مسائل معاشی ، سیاسی ، مذہبی ، سماجی اور ثقافتی ہوں یا پھر شعبہ تعلیم سے متعلق ہوں ۔ زندگی کا ہر شعبہ اس وقت دباؤ کا شکار ہے لیکن شعبہ صحت کی حالت زار کا اندازہ تو اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو شفاخانوں پر پہنچنے کے بعد یہ شمشان گھاٹ محسوس ہونے لگتے ہیں اور یہ بات قابل رحم ہے ۔

ہمارے ملک میں تقریباً 3کروڑ لوگ ہیپاٹائٹس کے شکار ہیں۔ پورے ملک کی درست اسکریننگ پر صورتحال سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔کچھ دن قبل برطانوی جریدے 'دی اکنامسٹ' میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہاں ایڈز، گلے، منہ، چھاتی کے سرطان کے ساتھ ساتھ خونی کینسر بھی بھیانک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ ملیریا اور ڈینگی نے الگ بھونچال پیدا کیا ہوا ہے۔ ملک میں ڈینگی کے تقریباً 40ہزار کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے 13ہزار سندھ میں ہیں، پھر کانگو اور نیگلیریا سے لوگوں کے جاں بحق ہونے کے واقعات بھی میڈیا پر آتے رہے ہیں۔

پولیو کی صورتحال یہ ہے کہ30سال سے ویکسینیشن جاری رہنے کے باوجود آج بھی ملک کے کونے کونے سے پولیو کیسز ظاہر ہورہے ہیں۔بدقسمتی سے دنیا میں افغانستان اور پاکستان ہی وہ ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس موجود ہے اور اُس میں بھی 90%کیسز پاکستان میں ہیں ۔ ماضی بعید پر نظر ڈالنے سے ہمیں دنیا میں طاعون اور جزام کی تباہ کاریاں اس قدر شدید نظر آتی ہیں کہ بستیوں کی بستیاں اُن کی لپیٹ میں آکر موت کی وادیاں بن جاتی تھیں ۔خاص طور پر 19ویں اور 20ویں صدی میں جب لاکھوں لوگ اس کاشکار ہوئے تو مغربی ممالک نے نہ صرف ان بیماریوں بلکہ تمام بیماریوں پر تحقیق کرکے ملیریا کے مچھر سے کینسر کے جرثومہ وائرس تک کا علاج کھوجنے پر کام کیا۔

یہ انھی کا احسان ہے کہ آج دنیا بھر میں تقریباً بیماریوں کا علاج موجود اور میسر ہے ، اور تو اور اُن سے بچاؤ کے لیے ویکسین بھی دستیاب ہیں۔ 1974 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے پلیٹ فارم سے دنیا بھر میں موجود خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے (ویکسین) لگانے کی مہم کا آغاز کیا گیااوردنیا بھر میں یہ ویکسین پروگرام کامیابی سے چل رہے ہیں، جب کہ اُسی کی فنڈنگ سے پاکستان میں بھی یہ پروگرام 1978ء سے جاری ہے۔ لیکن آج بھی ہمارے بچوں پر خسرہ ، تپ دق ، کالی کھانسی اور نمونیاکے حملے ہوتے رہتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایسے پروگرام بھی اگر ناکام ہورہے ہیں تو اس میں ہمارے حکمرانوں کی کرپشن اور بیڈ گورننس کے ساتھ ساتھ جہالت اور توہم پرستی میں مبتلا ہمارے عوام بھی قصور وار ہیں ۔ ہمارا معاشرہ اور یہاں رائج سیاسی و سماجی نظام ایسا ہے کہ ہمیں نہ خود پر اعتما دہے اور نہ ہی دوسروں پر یقین رکھتے ہیں۔

ایک تو ملکی بجٹ میں شعبہ صحت کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ، پھر کرپشن کے باعث وہ بھی عوام تک بجا طور پر پہنچ نہیں پاتا ۔

ملک میں گورننس کی بات کی جائے توملک سرکاری محکمے اور اداروں کا قبرستان بنا ہوا ہے، جس محکمے پر عوام کی صحت کی ذمے داری ہے، اُس کی انتظامیہ اپنی ناقص کارکردگی سے ملک میں بیماریوں کو سازگار ماحول فراہم کررہی ہے ۔ لوگوں کو غیر انسانی ماحول میں جینا پڑ رہا ہے ۔ اُس کی حالت یہ ہے کہ لوگ اسپتال تو آتے ہی ہیں لیکن علاج اور شفا پانے کے بجائے دھکے و حقارت کا تماشہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ کہیں اسپتال کی بیرونی دیوار کے سائے میں مائیں بچے جنتی نظر آتی ہیں تو کہیں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنے پر بچہ اپنی ماں کی گود میں بلک بلک کر ہی دم توڑجاتا ہے ۔

کہیں غریب آدمی اپنی بچی کی لاش چنگچی رکشہ اور ریڑھی پر لیجانے پر مجبور ہیں تو کہیں نادار ماں لاش گھر لیجانے کے لیے ایمبولینس کے لیے اسپتال کے صحن میں میت رکھے چندہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اسپتالوں میں حفظان ِ صحت کے اُصولوں اور صفائی ستھرائی کا یہ عالم ہے کہ کہیں قدیم دور کی طرح مچھر دانیاں لگے بیڈ نظر آتے ہیںتو کہیں پارکوں میں گھاس پر پڑے مریضوں کو ڈرپس لگانے کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ملک میں صحت کی بہتری کے نام پر ملکی و بیرونی فنڈنگ کے تحت اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں مگر ہم صحت کے معاملے میں ترقی یافتہ دنیا تو چھوڑیں ، تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی سب سے پست حالت میں ہیں ۔

گزشتہ کچھ سالوں سے صوبہ سندھ میں ٹائیفائیڈ کی ایک نئی قسم بڑی شدت سے پھیلتی نظر آئی ہے۔ہزاروں بچے اس کی لپیٹ میں ہیں اور کئی تو لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ جس کے تدارک کے لیے محکمہ صحت سندھ نے ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے ٹیکے (ویکسین) لگانے کا پروگرام تشکیل دیا اور ہر سرکاری اسپتال میں ویکسین دستیاب کردی گئی جب کہ پولیو ٹیموں کی طرح ٹائیفائیڈ ٹیکے لگانے والی ٹیمیں بھی بنائی گئی ہیں جو گھر گھر جاکر 9ماہ سے 15سال کی عمر تک کے بچوں کو ٹیکے لگانے کے کام پر مامور ہیں۔ لیکن اس ویکسین پروگرام کو بھی کچھ قوتیں پولیو ویکسین کی طرح غلط پروپیگنڈہ کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔

اس پروپیگنڈہ کے تحت افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ یہ ویکسین محض تجربہ کرنے کے لیے لگائی جارہی ہیں اور ان سے بچے بے ہوش و بیمار ہوجاتے ہیں ۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کون ہیں یہ قوتیں جو ہمارے بچوں اور ہماری نسلوں کی دشمن بنی ہوئی ہیں اور ایسی افواہیں پھیلا رہی ہیں۔ حالانکہ اب تک صوبہ بھر میں 30فیصد بچوں کو کامیابی سے ویکسین دی جاچکی ہیں ، لیکن سوائے ایک آدھ شکایت کے کہیں پر کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا اور ویکسین لینے والے بچوں کی اکثریت چاک و چوبند رہی ۔جب کہ یہ شکایت بھی ایک اسکول میں ہوئی ، جس کی وجہ بچوں کا خالی پیٹ ہونا تھی ۔

بچے اسکول ناشتہ کرکے نہیں آتے اور خالی پیٹ ہونے کی وجہ سے کچھ بچوں کو ویکسین سے سر چکرانے کی شکایت ہوئی اور ایک آدھ کے بے ہوش ہونے کی اطلاعات ملیں۔ یہ شکایت بھی عملے کی اور والدین کی مشترکہ لاپرواہی کا نتیجہ تھی ۔ محکمہ کی جانب سے ان شکایات کا بھی تدارک کیا جاچکا ہے اور عملے کو احتیاطی اقدامات اور پیشگی جانکاری حاصل کرنے کے بعد ویکسین دینے کے احکامات جاری کیے جاچکے ہیں۔ لیکن لوگ اب بھی پروپیگنڈہ کا شکار ہورہے ہیں ۔


ایسے میں محکمہ کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر اس قیمتی اور فائدہ مند ویکسین کی حفاظتی تدابیر سے متعلق اور اس منفی پروپیگنڈہ اور اُس میں پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے جوابات پر مبنی ریگیولر میڈیااور سوشل میڈیا پرMotivational آگاہی مہم کا آغاز کرے ۔ جب کہ عوام کو بھی اس پروپیگنڈہ پر کان دھرنے کے بجائے اپنے بچوںکو اس خطرناک بیماری سے محفوظ بنانے پر توجہ دینی چاہیے ۔ عوام کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مذہبی و سیاسی طور پر پیدا کیے گئے شکوک پر مبنی پروپیگنڈہ کی بناء پر ہم آج تک پولیو کی وبا سے جان نہیں چھڑا پائے ہیں اور آج بھی ہمارے ملک میں بچے عمر بھر کی معذوری جیسی لعنت کا شکار ہورہے ہیں ۔

دنیا ہمارے بچوں کی صحت کے لیے ہمیں پیسے اور ویکسین دیتی ہے اور ہم اس کا بھی استعمال بجا طور پر نہیں کرتے اور اس پر شرعی شکوک کی دیواریں کھڑی کرکے اپنے ہی بچوں کو موت کے منہ میں جھونکنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ رواں سال میں ملک میں 86پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس پروپیگنڈہ گروہ کی سازشوں کا شکار ہوکر اپنے بچوں کوXDR ٹائیفائیڈ جیسے وائرس کا نوالہ بنانے کے مرتکب نہ بن جائیں ۔

والدین سے گذارش ہے کہ اپنے اندیشوں کو ختم کرنے کے لیے آنے والی ٹیموں اور ڈاکٹرز سے ویکسین اور اُس کی احتیاطی تدابیر پر مشورہ ضرور کریں مگر کسی بھی صورت اس ویکسین سے اپنے بچے کو دور نہ رکھیں ۔ ایسا نہ ہو کہ آگے چل کرآپ کو کوئی پچھتاوا اُٹھانا پڑے ۔ ٹائیفائیڈ کا یہ وائرس پہلی مرتبہ 2016 میں حیدرآباد میں دیکھنے میں آیاتھا۔ جب کہ 2018 میں امریکا میں ایسے 29افراد میں بھی یہ وائرس پائے گئے جو کہ پاکستان کا سفر کرچکے تھے ۔

بنیادی طور پر ٹائیفائیڈ ایک بیکٹیریا ہے جو متاثر شخص کی آنتوں میں سوزش پیدا کرتا ہے ، جس سے بخار ، پیٹ میں درد ، کمزوری اور اُلٹی وغیرہ ہوتی ہے ۔ اگر فوری علاج نہ ہو تو آنتوںمیں سوراخ اور جسم میں دیگر پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں جوکہ خاص طور پر کمزور مدافعت (Weak Immunity)کے حامل بچوں میں موت کا باعث بنتی ہیں ۔ یہ وائرس گندے پانی ، آلودہ غذا کے ذریعے اور متاثرہ شخص کے پاخانے کے ذریعے پھیلتا ہے ۔

ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کی ویکسین پہلے سے موجود ہے اور وہ ایک طویل عرصہ تک ٹائیفائیڈ سے محفوظ رکھتی ہے لیکن گزشتہ 3برس سے صوبہ سندھ میں تقریباً 10ہزار ٹائیفائیڈ کے ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں بیماری کو پرانی ویکسین روکنے میں ناکام رہی ہے ۔ ملک بھر میں ٹائیفائیڈ سے ہلاک ہونیوالوں میں 70فیصد تعداد 15سال سے کم عمر بچوں کی ہے جب کہ صوبہ سندھ میں مجموعی تعداد کا 65%ہے ۔ اس لیے حکومت، آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور عالمی اداروں کی جانب سے ایک نئی ویکسین متعارف کرائی گئی ہے ، جسے Typhoid Conjugated Vaccineکا نام دیا گیا ہے ۔

یہ ویکسین ٹائیفائیڈ کی بگڑی ہوئی قسم میں کارگر ہے ۔ یہ صرف ایک مرتبہ لگائی جائے گی اور اس کے کوئی منفی اثرات (Side Effects) نہیں ہیں ۔ دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے اور اُس میں بھی صوبہ سندھ کو یہ فوقیت ہے، جہاں یہ نئی قسم کے ٹائیفائیڈ ویکسین کی مہم چلائی جارہی ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ 30نومبر تک جاری رہے گی ۔2021میں اس پروگرام کو توسیع دیکر معمول کے ویکسین پروگرام میں شامل کرکے ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔

اس پروگرام میں یو ایس ایڈ کی جانب سے 2لاکھ 50ہزار ویکسین فراہم کی گئی ہیں اور اس میں مزید توسیع کی امید ہے جب کہ جہاں مشہور زمانہ مائکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالی معاونت کی ہے وہیں بھارت کے فارما شعبے کی طرف سے بھی 2لاکھ ویکسین محکمہ صحت سندھ کو مفت فراہم کی گئی ہیں ۔ عالمی اداروں ، وفاقی اور صوبائی حکومت بالخصوص محکمہ صحت سندھ کا یہ اہم کام قابل تحسین ہے لیکن تمام والدین، سماجی تنظیموں اور معاشرے کے باشعور افراد کا فرض ہے کہ اس ویکسین سمیت تمام حفاظتی ٹیکوں اور ویکسینز کے مکمل استعمال کی کوششوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔

نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر جے ڈی واٹسن اور ایف ایچ سی کرک کی جینیاتی ڈی ایس اے مالیکیول کی کیمیائی تحقیق کی بدولت جینیاتی سائنس میں ہونے والی ترقی کے تحت Frozen Embryoوالی جینیٹکس تھیوری پر دنیا میں کام ہورہا ہے تاکہ ماں کو قد و کاٹھ،رنگت سے لے کر بیماریوں سے پاک بچے کی پیدائش کی ضمانت حاصل ہو ، مگر ہمارا معاشرہ تو محض بیماریوں پر تحقیق سے حاصل شدہ علاج پر بھی اوہام پرستی کا شکار ہے ۔ اگر مارکیٹ میں کوئی نئی ویکسین آئی تو افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ یہ پہلے ہم پر کیوں استعمال ہورہی ہے ، پہلے کسی اور پر استعمال کی جائے ، اس سے فلاں مسئلہ پیدا ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔

اب انھیں کون سمجھائے کہ یہ مارکیٹ میں آنے سے قبل لیباریٹری میں سیکڑوں افراد پر آزمائی جاچکی ہوتی ہے ۔ جب کہ سمجھنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں بیماری ہوگی وہیں تو استعمال ہوگا نہ ۔ ورنہ کیا صحت مند لوگوں پر استعمال کرکے خیالی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟ ویسے قارئین کی جانکاری کے لیے یہاں یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ یہ حیدرآباد کے دیہی تعلقہ میں آغاخان یونیورسٹی اسپتال کی جانب سے تجرباتی بنیادوں پر اس ویکسین کا پہلے استعمال کیا گیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے بعد ہی صوبہ بھر میں یہ ویکسین مہم شروع کی گئی ہے ۔

حکومت اس بات پر سنجیدگی سے عمل کرے کہ عوام کو مناسب Motivationاور آگاہی سے اپنے بچوں کو ویکسین کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے ، جب کہ گورننس کے معیار کو بہتر کرنے سے لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور علاج معالجے سے اُن موتمار بیماریوں پر ضابطہ لایا جاسکتا ہے ۔ جس کے لیے صحت کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب ملک میں ایدھی اور چھیپا جیسے محدود وسائل رکھنے والے کامیابی سے اپنا نظام چلا سکتے ہیں تو سرکاری ادارے ایسا کیوں نہیں کرسکتے ۔

دنیا میں مقبول ہے کہ' احتیاط علاج سے بہتر ہے '، جس دن ہمارا معاشرہ اس جملے پر عمل پیرا ہوجائے گا اُس دن سے ملک میں صحت عامہ کی صورتحال بہتر ہوجانا شروع ہوجائے گی ۔ بس کاش یہ بات کسی طرح ہمارے لوگوں کی سمجھ میں آجائے اور وہ مختلف سماجی و مذہبی اور سیاسی تضادات ، اندیشوں، افواہوں بالخصوص اوہام پرستی جیسی جہالت سے نکل آئیں!
Load Next Story