پی ٹی وی کے 55 سال
پاکستان ٹیلی ویژن ، پاکستان کے ان شاندار اداروں میں سرفہرست ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد جنم لیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن منگل کے دن اپنی 55ویں سالگرہ منا رہا ہے۔پی ٹی وی ایک ریاستی ادارہ ہے جو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا۔پی ٹی وی کی کہانی چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔
پی ٹی وی نے 30سال سے زائد عرصے تک ایوب خان،یحییٰ خان، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور اور باقی عرصہ نام نہاد جمہوری دور کے تابع گزرا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ، پاکستان کے ان شاندار اداروں میں سرفہرست ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد جنم لیا۔ یعنی یہ وہ ادارہ ہے جو Colonial Legacyنہیں رکھتا ، اس کو نئی قوم نے اپنے شاندار آغاز کے بعد جنم دیا...لیکن اس کو آمرانہ اور حاکمانہ مفادات کے ذریعے اس کے چہرے کومسخ کر دیا گیا۔
پی ٹی وی ایک ایسا قومی ادارہ ہے جسے پاکستان میں ٹیلی ویژن کی ''ماں''کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں جتنے بھی نجی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں، ان کے لیے ابتدائی افرادی قوت، تیکنیکی صلاحیت اور پیشہ وارانہ رہنمائی پاکستان ٹیلی ویژن کے پروفیشنلز نے ہی فراہم کی ہے اور اس وقت بھی اکثر نجی چینلز کا انتظام و انصرام چلانے میں بھی پی ٹی وی کے پرانے اور تجربہ کار لوگ معاونت کر رہے ہیں۔یہ ادارہ جو 1964میں ریڈیو پاکستان کے ایک گوشے(کینٹین کو پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا) سے شروع ہوا،اب یہ ادارہ پھیل کر ایک سلطنت بن چکا ہے۔ کھرب ہا روپے کے عمارتی اثاثے، ارب ہا روپے کے تیکنیکی آثاثے اورکثیر تعداد میں پیشہ وارانہ مہارت کی حامل افرادی قوت نے اس ادارے کو ملک بھر میں ایک منفرد حیثیت کا حامل بنا دیا۔
پی ٹی وی کے پہلے ایم ڈی موسیٰ احمد کا تعلق پولیس سروس سے تھا۔پی ٹی وی کے اندر سے صرف پانچ ڈائریکٹرز کو ایم ڈی بنایا گیا، ان میں اسلم اظہر، آغا ناصر، اختر وقار عظیم ، اشرف عظیم اور مصطفی کمال قاضی شامل ہیں۔تیرہ ایم ڈی بیوروکریسی سے لیے گئے ،ان میں موسیٰ احمد ، روائیداد خان، سید منیر حسین، مسعود بنی نور، اجلال حیدر زیدی، ضیاء نثار احمد، انور زاہد،حمید قریشی، احمد حسن شیخ، شاہد رفیع، احسان الحق خلجی اعجاز رحیم اور احمد نواز سکھیرا ہیں۔جب کچھ ایم ڈیز کا تعلق نہ تو بیورکریسی اور نہ ہی پی ٹی وی سے تھا۔ ان میں ہارون بخاری،فرہاد زیدی، ڈاکٹر شاہد مسعود، ارشد خان، یوسف بیگ مرزا اور عطا الحق قاسمی شامل ہیں۔
پی ٹی وی کی پہلی دہائی ہنی مون کا گولڈن پیریڈ تھا۔ دوسری دہائی میں پروفیشنل ازم اور ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری دہائی میں گلیمر اور اشتہارات کی رہی۔ چوتھی دہائی میں اس کی مناپلی ختم ہوئی اور مسابقت کا دور آیا جو اب بھی ہے۔آج کے دور میںبھی پی ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک ہے۔ اس کے پاس سب سے بہتر تیکنیکی سہولتیں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیشنلز کا گروپ موجود ہے۔یہ ادارہ اب بھی ایک متحرک نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ملک کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی رویوں پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب کام تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومتی سطح پر پی ٹی وی کی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور اسے ایک حکومتی کی بجائے قومی ادارے کے طور پر چلانا چاہیں ۔
پی ٹی وی ہی وہ ادارہ ہے جو میری پہچان بنا ،جس نے مجھے قومی افق پر متعارف کرایا، صحافی بننے کا ڈھب سکھایا، حکمرانوں کی قربت اور ان کے رویوں کو سمجھنے کا شعور دیا۔پاکستان ٹیلی ویژن سے میری وابستگی تین دہائیوں سے بھی زیادہ رہی ہے۔میںنے پی ٹی وی کا وہ دور بھی دیکھا جب پی ٹی وی کا سگنل قومی نشریاتی رابطے پر نہ تھا ۔ لاہور ، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور راولپنڈی/اسلام آباد کی نشریات صرف ان ہی علاقوں تک محدود تھیں۔ ماضی میں پی ٹی وی کی شہرت اور اہمیت ہوتی تھی ، اب ویسی نہیں رہی۔نجی چینلز آنے کے باعث صورتحال خاصی تبدیل ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پی ٹی وی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے لیکن محنت کی جائے تو اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔پی ٹی وی کی صورت حال تویہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریٹائرڈ افراد کو پنشن کے حصول میں بھی دقت کا سامنا ہے۔ پی ٹی وی اسپورٹس کو "کماو پوت" کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پی ٹی وی کو ٹی وی لائسنس فیس کی مد سے سالانہ ارب ہا روپے حاصل ہوتے ہیں جب کہ کمرشل اشتہارات سے بھی اچھی خاصی سالانہ آمدنی ہوتی ہے اس کے باوجود پی ٹی وی کا خسارے میں جانا نہ صرف قابل توجہ ہی نہیں بلکہ قابل تحقیق بھی ہے۔
پی ٹی وی جیسے ادارے میں ابتداء سے قائم ٹیلی ویژن ٹریننگ اکیڈیمی کوبھی غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ٹیلی ویژن اکیڈیمی نہیں مجبوراً ہر چینل محدود وسائل اور حالات کی بناء پر جزو وقتی تربیت کا اہتمام کرتا ہے اسی بناء پر اکثر ٹی وی چینلز میں معیاری پروگرامنگ اور صحافتی اخلاقیات کے عمل میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اس امر کا بھی نوٹس لے کہ ٹیلی ویژن اکیڈیمی جیسے اہم شعبے کو غیر متحرک کیوںکیا گیا ۔