پاکستان ٹیم کی تیاریوں کا پول کھل گیا

کند ہتھیاروں سے کینگروز کے شکار کا منصوبہ ناکام


Abbas Raza November 24, 2019
کند ہتھیاروں سے کینگروز کے شکار کا منصوبہ ناکام۔ فوٹو: فائل

آسٹریلوی سرزمین پر پاکستان ٹیم کی کارکردگی کبھی اچھی نہیں رہی،گرین کیپس نے ٹیسٹ میچز کے ایک آدھ سیشن میں اگر بہتر کھیل پیش بھی کیا تو دوسرے میں غلفت کا شکار ہوئے اور بازی ہاتھ سے نکل گئی،اس کی ایک مثال گزشتہ ٹور کا برسبین ٹیسٹ تھا جس میں پہلی اننگز میں خسارے کا شکار ہونے کے باوجود پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے دوسری باری میں 450رنز جوڑے لیکن صرف 39رنز کے فرق سے فتح کو گلے نہ لگاسکے۔

مصباح الحق کی قیادت میں میدان میں اترنے والی ٹیم میں یونس خان، اظہر علی اور اسد شفیق سمیت کئی تجربہ کار بیٹسمین شامل تھے، بولنگ میں محمد عامر اور وہاب ریاض کی خدمات بھی حاصل تھیں، 25سال سے کینگروز کے دیس میں پہلی فتح کو ترستی پاکستان ٹیم اس بار نوآموز بولرز سے حیران کن کارکردگی کی توقعات کیساتھ ملک سے روانہ ہوئی لیکن کوئی کرشمہ نہ ہوا،برسبین ٹیسٹ میں کسی ایک موقع پر مہمان ٹیم میزبانوں پر حاوی ہوتی نظر نہیں آئی،پہلے روز سے ہی کھلاڑیوں کی باڈی لینگوئیج بتا رہی تھی کہ وہ میچ جیتنے نہیں بلکہ صرف تجربہ حاصل کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں،گرچہ آسٹریلوی کنڈیشنز میں دونوں ٹیموں کی قوت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن مایوس کن کارکردگی میں پاکستان ٹیم مینجمنٹ کے کئے غلط فیصلوں کا بھی ہاتھ نظر آتا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہیڈکوچ، چیف سلیکٹر اور بیٹنگ کوچ کی تہری ذمہ داریاں سنبھالنے والے مصباح الحق نے سکواڈ میں 3اوپنرز شان مسعود، امام الحق اور عابد علی شامل کئے لیکن اننگز کا آغاز کرنے کے لیے ایک عرصہ سے آؤٹ آف فارم اظہر علی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا، اسی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کپتان کے بجائے حارث سہیل کو تیسرے نمبر پر بیٹنگ کا موقع ملے، سری لنکا کے بعد آسٹریلیا کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی ناکام رہنے والے مڈل آرڈر بیٹسمین پریکٹس میچز میں بھی کوئی کارکردگی نہیں دکھاپائے،اس کے باوجود ٹیم مینجمنٹ نے ان پر اعتماد برقرار رکھتے ہوئے برسبین کی مشکل پچ پر میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔

پہلی اننگز میں پاکستان نے سست روی سے بیٹنگ کرتے ہوئے پہلے سیشن میں 2سے بھی کم اوسط سے رنز بنائے، نئی پچ پر انتہائی محتاط آغاز کے بعد اوپنرز رخصت ہوئے تو حارث سہیل کی ثابت قدمی مہمان ٹیم کو بہتر پوزیشن میں لاسکتی تھی لیکن انہوں نے روایتی کمزوری دکھاتے ہوئے وکٹوں کے پیچھے کیچ دیا، بابر اعظم کے ابتدائی سٹروکس ہی بتا رہے کہ وہ تحمل کے بجائے سٹروکس کھیلنے کا ارادہ کرکے آئیں، نتیجہ یہ ہوا کہ غیرذمہ شارٹ پر وکٹ گنوادی،مصباح الحق کی پوری کوشش رہی ہے کہ افتخار احمد لوئر آرڈر میں بیٹنگ کو استحکام دینے کا ذریعہ بن سکیں اور ان کی صورت میں پاکستان کو پانچواں بولر بھی میسر رہے،ٹور میچ میں ایک اچھی اننگز بھی کھیلے لیکن برسبین ٹیسٹ میں ٹیم پر مشکل وقت آیا تو ان کا حوصلہ بھی جواب دے گیا۔

مڈل آرڈر کے غیر ذمہ دارانہ کھیل کے بعد محمد رضوان اور یاسر شاہ نے غیرمتوقع مزاحمت کرتے ہوئے اسدشفیق کیساتھ قیمتی شراکتیں قائم کیں،اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان ٹیم 150سے بھی کم سکور پر ڈھیر ہوجاتی،بیٹنگ میں توقعات کے مطابق کارکردگی کے بعد نوآموز پیس بیٹری کا امتحان شروع ہوا،ماضی میں پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے والے محمد عباس کی جگہ پلیئنگ الیون میں شامل کئے جانے والے عمران خان سینئر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے،دیگر ناتجربہ کار پیسرز شاہین شاہ آفریدی اور سرپرائز پیکیج نسیم شاہ بھی کوئی تہلکہ خیز کارکردگی نہیں دکھاسکے۔

سیریز سے کئی روز پہلے پہنچ کر نیٹ سیشنز اور ٹور میچز میں موقع ہونے کے باوجود بولنگ کوچ وقار یونس بچوں کو درست لائن اور لینتھ کا سبق نہیں پڑھا سکے، جس پچ پر پاکستان کی پوری ٹیم نے 240رنز بنائے تھے، اس پر میزبان اوپنرز ڈیوڈ وارنر اور جوئے برنز کی جانب سے 222کی شراکت نے ثابت کردیا کہ گرین کیپس کا کند ہتھیاروں کی مدد سے کینگروز کے شکار کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا،مہمان پیسرز نے پہلی اننگز میں مچل سٹارک، جوش ہیزل ووڈ اور پیٹ کمنز کی بولنگ سے بھی کچھ نہیں سیکھا، حیران کن بات یہ ہے کہ نسیم شاہ کی گیندیں نوبال ہونے کے باوجود امپائرز نے کوئی نوٹس نہیں لیا،ان کا پاؤں مسلسل کریز سے باہر جاتا رہا، اس کا نقصان یہ ہوا کہ ڈیوڈ وارنر ففٹی کے بعد ان کی گیند پر کیچ دینے کے باوجود نوبال کی وجہ سے ہی وکٹ بچانے میں کامیاب ہوگئے۔

اگر امپائر نے قبل ازیں کی جانے والی گیندوں کو نظر انداز نہ کیا ہوتا تو نوجوان پیسر اس مسئلہ پر قابو پالیتے، بہرحال ان معاملات پر نظر رکھنا بولنگ کوچ وقار یونس کی بھی ذمہ داری ہے، میچ کے تیسرے روز آسٹریلیا نے ڈیوڈ وارنر کی رخصتی کے بعد درست پلاننگ کرتے ہوئے مارنس لبوشینگے پر زیادہ انحصار کیا،دیگر بیٹسمینوں میں میتھیو ویڈ نے بھی ساتھ دیا،تجربہ کار یاسر شاہ کی 205 رنز کے عوض 4وکٹیں پاکستانی بولرز کی بے بسی کا ثبوت ہیں،عمران خان کو اکلوتی کامیابی اننگز کے آخری لمحات میں حاصل ہوئی۔

آسٹریلیا کی جانب سے کھڑا کیا جانے والا 580رنز کا پہاڑ پاکستانی بیٹنگ لائن کے حوصلے پست کرنے کے لیے کافی ہے،آؤٹ آف فارم سرفراز احمد کو ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس بھیج کر کپتان بنائے جانے والے اظہر علی دوسری اننگز میں ڈبل فیگر تک بھی رسائی نہیں حاصل کرپائے،حارث سہیل نے ایک بار ثابت کیا کہ وہ شاید اپنے کیریئر کا بہترین وقت گزار چکے اور آسٹریلوی پچز کے لیے ان کی تکنیک قطعی طور پر سازگار نہیں،مشکل وقت میں اسد شفیق نے بھی وہی کیا جو مڈل آرڈر میں موجود دیگر بیٹسمین کرررہے تھے۔

اس صورتحال میں بابر اعظم زیادہ پراعتماد نظر نہ آنے کے باوجود اپنی وکٹ بچائے رکھنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن یہ مزاحمت زیادہ دیر تک جاری رہنے کی امید نہیں کی جاسکتی،شان مسعود نے جسم پر گیندیں کھانے کے باوجود قدرے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن اننگز کی شکست سے بچنے کے لیے سفر بہت طویل اور پاکستان کے پاس وسائل کی شدید کمی نظر آرہی ہے، اس جوڑی کے بعد افتخار احمد اور محمد رضوان کچھ رنز جوڑنے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو دو روز تک کینگروز بولرز کو شکار سے روکے رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔

پاکستان کی طرح قومی ٹیم بھی گزشتہ کئی عشروں سے تشکیل نو سے گزر رہی ہے،ہر میگا ایونٹ اور بڑی سیریز کے بعد خامیوں پر قابو پانے اور مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھانے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن معاملات میں کوئی سدھار نہیں آتا، ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی معیار پر آنے کے لیے ڈومیسٹک فرسٹ کلاس مقابلوں پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے لیکن اس کے بھی کوئی ثمرات حاصل ہوتے نظر نہیں آتے،6صوبائی ٹیمیں ایکشن میں ہیں، پرانے چہرے پرفارمنس کے نئے چارٹ میں بھی اپنا نام درج کروارہے ہیں۔

پی سی بی ان کو چلے ہوئے کارتوس سمجھتا ہے،ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دکھانے والوں کی لمبی چوڑی تفصیلات پی سی بی کی پریس ریلیز میں بھی دی جاتی ہیں لیکن مجموعی معیار میں بہتری کے کوئی امکانات اس لئے نظر نہیں آتے کہ پاکستان کو مردہ پچز پر رنز کے انبار لگانے والے بیٹسمینوں اور سپنرز کی نہیں بلکہ ہر طرح کی غیرملکی کنڈیشنز میں تسلسل کیساتھ کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز کی ضرورت ہے، اس کے لیے نہ صرف ڈومیسٹک کرکٹ سے موزوں ٹیلنٹ تلاش کرنے بلکہ اس کو آسٹریلیا، انگلینڈاور جنوبی افریقہ میں کھیلنے کا تجربہ دلانے کی بھی ضرورت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں