وادیٔ سون اور کیمپنگ گالا
پنجاب کی ایک خوب صورت وادی کا سفر
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے چند سالوں سے حکومتِ پاکستان نے سیاحت کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں اور آج بھی اس میدان میں بہت محنت کر رہی ہے اور اِس ضمن میں پنجاب حکومت اور اس کے سیاحتی ادارے ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کا کردار بھی نہایت اہم اور قابلِ داد ہے۔
اس سال پنجاب حکومت اور ٹی ڈی سی پی نے پنجاب میں دو سیاحتی مقامات کو ڈیویلپ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جن میں ایک ضلع ڈیرہ غازی خان کا علاقہ کوہِ سلیمان و فورٹ منرو اور دوسرا ضلع خوشاب میں واقع وادیٔ سون سکیسر شامل ہیں۔وادیٔ سون سکیسر ضلع خوشاب کے شمال میں واقع ایک خوب صورت وادی ہے جو لاہور سے صرف چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں منفرد ساخت کے حامل پہاڑوں کے بیچ پنجاب کی چند خوب صورت جھیلیں، چشمے، باغات اور آثارِقدیمہ واقع ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
وادی سون کی مٹی زیادہ تر بُھربُھری ہے اور یہاں کے پہاڑ ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھر پر مشتمل ہیں جب کہ یہاں کی زراعت کا دارومدار برسات پر ہے۔ سون سیسر کی بلندی سطحِ سمندر سے پانچ ہزار دس فٹ بلند ہے۔ اور یہ وادی پچاس کلومیٹر لمبی اور نو کلومیٹر چوڑی ہے جہاں پنجاب اُڑیال اور چنکارہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔اس وادی کی مسحور کن خوب صورتی کو عوام الناس کے سامنے لانے اور ایکو ٹورزم کو پروموٹ کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب کے ادارے ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب نے میڈیا کے نمائندوں، بلاگرز، اینکرز، وی لاگرز، ماہرینِ آثارِقدیمہ اور فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے دو روزہ سون ویلی ٹور اور کیمپنگ گالا کا اہتمام کیا، جس میں کیمپنگ، شامِ موسیقی، ہائیکنگ، بوٹنگ اور سائیکلنگ سمیت وادیٔ سون کا بھرپور ٹور شامل تھا۔
ٹور کے پہلے روز جو جگہ سب سے پہلے دکھائی گئی وہ ''کنہٹی باغ '' تھا جو 1933 میں ضلع شاہپور کے انگریز انجنیئر میجر ویٹ برن نے بنوایا تھا۔ اس کا نام باغ میں موجود ایک دل کش آبشار کے پاس واقع چٹان ''کنہٹ'' سے نکلا ہے۔ باغ میں موجود نباتات میں بادام، خوبانی، انناس اور ویلنشیا کے درختوں سمیت کئی قسم کی جڑی بوٹیاں اور پودے شامل ہیں۔ اس خوب صورت باغ میں سیاحوں کے لیے ایک کیمپنگ سائیٹ بنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔
اس کے بعد ہمیں ''کھبیکی جھیل'' لے جایا گیا جو قدرت کا ایک حسین شاہ کار ہے۔ اس جھیل کا نام قریبی گاؤں کھبیکی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ آج سے تین سال پہلے جب میں یہاں گیا تھا تو یہ پانی کی ایک عام جھیل کے علاوہ کچھ نہ تھی جس کے کناروں پر کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ لیکن پنجاب حکومت کے وادیٔ سون کو ڈویلپ کرنے کے منصوبے کے بعد اس کی حالت ہی بدل گئی ہے۔
یہاں ٹی ڈی سی پی کا ایک خوب صورت ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں کھانے پینے کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سائیکنگ اور بوٹنگ کی سہولیات بھی میسر ہیں۔ نئی بنچوں اور روشنیوں کی قطار نے اس کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اسی جھیل کے کنارے منعقد ہونے والی شامِ موسیقی، کیمپنگ اور آتش بازی نے ٹور کا مزہ دوبالا کردیا جہاں مقامی فن کاروں اور سرگودھا سے آئے نوجوانوں کے میوزیکل بینڈ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ جھیل کے پاس ہی ایک ''برڈ واچ ٹاور'' بنایا گیا ہے تاکہ سیاح اس جگہ سے جھیل پر آنے والے سائیبیریا کے ہجرتی پرندوں کا نظارہ کر سکیں۔
اگلے دن ہمیں ''ڈیپ شریف'' کا تالاب دکھایا گیا۔ مرکزی سڑک سے اندر کی طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک کا پیدل سفر کرنے کے بعد جب آپ سفید پہاڑیوں کے بیچ موجود ایک گہرے سبز پانی کا شفاف تالاب دیکھتے ہیں تو آپ کی تمام تھکن دور ہوجاتی ہے۔ اِسے اوپر سے بہہ کر آنے والی ایک آبشار بھر رہی ہے۔ یہ چشمہ اور تالاب اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہی معلوم ہوتا ہے جو چٹیل پہاڑوں اور ویران راستوں کے بیچ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس کا پانی سبز، شفاف اور میٹھا ہے۔ اس کے قریب ہی حضرت سراج الدین نقشبندی ؒ کی درگاہ واقع ہے جس کی وجہ سے اس جگہ کو ''ڈیپ شریف'' کہا جاتا ہے۔
آخر میں ہمیں وادیٔ سون کے خوب صورت راستوں پر سے سکیسر بیس لے جایا گیا، جہاں بیس کمانڈر کی طرف سے پُرخلوص ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہاں ہمیں سکیسر کا مندر، پرانا زیتون کا درخت، پُرانی غاریں، ایئربیس میوزیم، ہیلی پیڈ اور زیتون کا باغ دکھایا گیا۔ ان سب جگہوں کی تاریخ و اہمیت کے بارے میں خصوصی طور پر بتایا گیا۔ اسی مقام پر ہم نے زِپ لائن اور تیراندازی جیسی بھرپور سرگرمیوں سے لطف اٹھایا جس کے لیے ہم سب نے پاکستان ایئرفورس کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ یوں یہ بھرپور تاریخی و معلوماتی ٹرپ اپنے اختتام کو پہنچا۔ بلاشبہہ یہ ایک منظم اور زبردست ٹرپ تھا جس سے یقیناً ٹورزم کو پھلنے پھولنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔