انقلاب
جب طالب علمی کا زمانہ تھا تو چند دوستوں نے مل کر سماجی کام کرنے کی ٹھان لی، سارے طالب علم جمع ہوگئے
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
وفاداری کا دعوی کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا چرچا کیوں کریں ہم
جون ایلیا کے اب شعروں میں ہماری زندگی کے کئی رنگ سمٹ آئے ہیں۔ ہم لاکھ ان گھسے پٹے لفظوں کا چرچا کریں یا نہ کریں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ وفا اخلاص کا جنازہ نکل چکا ، ہم تو اقدار کی اجتماعی تجہیز و تکفین میں دانا و یکتا نکلے۔ اب اس کے بعد جس لفظ کی حرمت مشکوک ہوئی اور اسے ہر جمہوری اور آمرانہ دور میں رسوا کیا گیا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تاہم آج ہم ایک اور مظلوم لفظ کو نوحہ گر کے ساتھ رکھیں گے۔اور یہ لفظ ہے انقلاب یعنی ، تبدیلی۔ انگریزی میں اس کو Revolution کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ جس قدر لفظ انقلاب سیاست میں رسوا ہوا ہے اتنے تو مرزا ہادی بھی ادب میں رسوا نہیں ہوئے تھے۔
جب طالب علمی کا زمانہ تھا تو چند دوستوں نے مل کر سماجی کام کرنے کی ٹھان لی، سارے طالب علم جمع ہوگئے، ملیشیا کا لباس تیار کیا، نام تجویز ہوا، تحریک انقلاب معاشرہ۔ اس کا ایک اجلاس منعقد ہوا ، پہلا سیشن لیاری کے مولوی عثمان پارک میں منعقد ہوا، سائیکلو اسٹائل مشین سے اس کے اغراض ومقاصد نکالے ،ان کی فوٹو سٹیٹ کاپیوں کو محلے میں تقسیم کیا گیا، ان دنوں این جی او کا لفظ مستعمل نہیں ہوا تھا، یہ لفظ ہمارے وہم وگمان سے دور تھا، ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ ایسی کسی بھی سماجی اور اصلاحی کام میں کبھی بھی کسی سے چندہ نہ مانگنا۔لیکن غضب ہوا کہ علاقے کے جس پہلے بزرگ سے ہم ایک گروپ کی شکل میں ملے اورتحریک کا مقصد بیان کیا تو ان کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف گیا اور دس روپے نکال کر انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا لیجیے میری طرف سے یہ چندہ قبول کرلیں۔ بس اسی لمحے ہمارا سارا انقلاب ع
خاک پر ڈھیر تھا اک کشتۂ بے گوروکفن
بہر حال ہمارے ایک رکن سید عارف علی نے ان سے وضاحت کی کہ ہمار مقصد چندہ جمع کرنا نہیں، ہم بس شام کوایک فری ٹیوشن سینٹر اور اسٹریٹ اسکول کا تجربہ کرنے والے ہیں، محلے کے معصوم بچوں اور لڑکیوںکو گلی میں پڑھائیں گے، کسی قسم کی فیس نہیں لیں گے۔ بعد میں اس اسٹریٹ اسکول کو بازگشت اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں سنائی دی، ایک کتابچہ street schools in Lyariشایع ہوا۔ اور نون میم دانش ، ابراہیم رئیس، اسلم بلوچ ، محمد امین بلوچ اور محمود عالم اس بات کی گواہی دیں گے کہ جب تک گلی میںا سٹریٹ اسکول کی کلاسیں لگتی رہیں کسی نے چندے کی ایک رسیدنہیں کاٹی ، اس اسٹریٹ اسکول کے لاگ بک میں پروفیسر کرار حسین کے لائق صداحترام کمنٹس بڑے عرصے تک ریکارڈ میں موجود رہے ۔پھر ہم تحریک انقلاب معاشرہ سے کنارہ کش ہوگئے۔
آپ کے ذہن میں سوال اٹھے گا کہ اس میں معاشرے کا قصور کیا تھا کہ اس کی روح سے انقلاب غائب ہوگیا۔ اس سوال کا میرے پاس کوئی دو ٹوک جواب نہیں، مگر صد ہزار وضاحتیں ہیں، بکھرے ہوئے اقوال ہیں، دانشوروں کے اقتباسات ہیں، ان کے تجربات کی گونج ہے، ان انقلابیوں کی تحریریں،ناولیں اور تقاریر ہیں جن سے نیٹ کی دنیا آباد ہے۔ان کے سنانے کا وقت بھی یہی ہے، ملک میں جمہوریت کا چرچا ہے، بے سرو ساماں سی جمہوریت، بے منزل سے لوگ، ٹھاٹھیں مارتا میڈیا، آزاد عدلیہ، عدل وانصاف کی باتیں، انقلاب کی قوالیاں۔ آئیے۔ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔
یہ انقلاب زمانہ تھا یافریب نظر
گزر گیا ہے مگر انتظار باقی ہے
فرانسیسی مفکر والٹیئر کہتا ہے کہ آزادی بالآخر ناانصافی کا ثمر ہی ہوتی ہے۔ ہر انقلاب کی ابتدا کسی ذہن میں آئے ہوئے ایک خیال سے ہوتی ہے۔ آشفتہ سر رائٹئر تھامس پین کا کہنا ہے کہ ایک محب وطن شخص کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو اس کی حکومت سے بچائے۔ جرمن فلسفی گوئٹے نے کہا عظیم انقلاب عوام کی غلطی نہیں حکومت کی نادانی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انقلاب کی بدترین صورت اس کی بحالی ہے۔ کسی نے کہا کہ جو ہنگامے برپا ہوتے ہیں وہ زبان خلق کا نقارہ ہوتے ہیں کوئی ان کوسنتا نہیں۔ ایک آواز آتی ہے کہ انقلاب کو چلانا حکومت کرنے سے آسان ہے۔ انقلابات ظلم پرستی کا بوجھ ہلکا نہیں کرتے، صرف کاندھا بدلتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو صدا لگاتے ہیں جہاں آمریت ایک حقیقت ہو وہاں انقلاب ایک حق بن جاتا ہے۔
کسی انقلاب دوست ادیب نے اپنے خیالات کی رو میں لکھا کہ لوگ ہمیں سگ ِ آوارہ کہتے ہیں، ہائپرسنسیٹیو بن جاتے ہیں، ڈنرپارٹیوں کو الٹ پلٹ دیتے ہیں، پھر دوسری طرف خواتین ہمیں دیکھ کر بولنا شروع کردیں گی، یہاں تک کہ ہم تبدیل ہونگے، ہماری زندگیاں محفوظ بن جائیں گی، اورد نیا بدل جائے گی، پھر آپ سوال کریں گے،کہ اب ان سے مزید برے حالات اور کیا ہونگے؟ آپ خود کو آگے دھکیلیں گے، اور آگے،ہمت پکڑیں، آپ بولنا شروع کریں تو لوگ فقرے کسیں گے، تم سے ناراض ہونگے، تمہاری طرف غصے سے بڑھیں گے،تمہارا راستہ روکیں گے، نیچے گرادیں گے، کہیں گے تم پرسنل ہوگئے ہو،مگر دنیا یہاں ختم نہیں ہوگی۔
پھر یوں آسان آسان تر ہوتا جائے گا، آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ آپکو اپنے وژن سے اندرہی اندر محبت ہوگئی ہے، جس کا آپ کو اس سے پہلے اندازہ نہیں ہوگا ، لوگ اب آپ کے قریب آئیں گے، ملیں گے،اس دوران کچھ دوستوں سے آپ بچھڑیںگے،چند بر افروختہ ہونگے، یہی وہ مقام ہوگا جہاں ہماری ایما گولڈمان سچ کہیں گی اور آپ مان لیں گے کہ '' جس کے ساتھ میں رقص کناں نہ ہوسکوں وہ میرا انقلاب نہیں ہوگا۔'' لیکن میں ایک آخری بات کرونگا کہ جو ڈراؤنی چیز ہوگی وہ یہ ہوگی کہ کہ آپ بولیں گے نہیں، سچ نہیں بتائیں گے،مگر آپکو سچ کے لیے زبان کھولنا ہوگی۔
ارسطو نے کہاتھا کہ غربت انقلاب اور جرائم کی ماں ہے۔برٹریند رسل نے کہا کہ ہماری عظیم جمہوریتیں اس سوچ میں غلطاں ہیں کہ ایک احمق آدمی بہت زیادہ دیانتدار ہوتا ہے، اس آدمی کے مقابلے میں جوسمجھدار ہے، چالاک و ہوشیار ہے، اور ہمارے سیاستدان اس تعصب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ جان کر اور احمق بنتے ہیں،ڈھونگ رچاتے ہیں جس کے لیے فطرت نے انھیں بنایا ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ سارے انقلاب جب تک کہ رونما نہ ہوں،تاریخی طور پر ناگزیریات میں شامل ہوتے ہیں۔آپ انقلاب خرید نہیں سکتے، کسی انقلاب کو بنا نہیں سکتے، تم صرف انقلاب بن سکتے ہو، یہ تمہاری روح میں ہے۔
اس کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ لینن نے کہا تھا سرمایہ دارانہ سماج میںآزادی ویسی ہوتی ہے جیسی ایتھنز کی جمہوریہ میں ہوتی تھی،غلاموں کے مالکان کے لیے تھی۔ کسی خرد مند نے کہا کہ جیل میں بند رہنے سے بہتر ہے کہ آدمی لڑتا ہوا مارا جائے۔ بحث یہ بھی چلتی رہتی ہے کہ آپ موجودہ سسٹم سے ٹکراتے ہوئے چیزوں کو تبدیل نہیں کرسکتے،تبدیلی کے لیے آپ کو ایک نیا ماڈل تیار کرنا ہوگا، جو پرانے ماڈل کی جگہ لے لے۔ یاد رکھیے، عظیم تر اور طاقتور انقلابات اکثر خاموشی سے شروع ہوتے ہیں، ان پرسایہ رہتا ہے۔ اگرآپکے دل میں انقلاب کی خواہش ہے تو سسٹم کے اندر بغاوت کریں، یہ داخلی طور پر بہت طاقتور ہوتا ہے بہ نسبت سسٹم سے باہر رہتے ہوئے بغاوت یا انقلاب لانے سے، سیاہ فام لیڈر میلکم ایکس کے مطابق ایسا بھی ہوتا ہے کہ انقلابیوں کو سرینڈر کرانے کے لیے ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں۔
ایک امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے کہا تھا کہ ہمیشہ یاد رکھنا ہم میں سے ہر ایک ،یعنی میں اور تم سب تارکین وطن سے ہیں، ہم انقلابیوں کی اولاد ہیں ، انقلاب کی پرستی ہارا شیوہ ہے۔ افتادگان خاک جیسی معرکہ آرا کتاب کے مصنف فرانز فینن کا کہنا تھا کہ بعض اوقات لوگ ایک بنیادی تصور اور عقیدہ پر ثابت قدمی سے قائم رہتے ہیں، یہ استقامت کی نشانی ہے، لیکن جب ان کے سامنے نئے شواہد پیش کیے جاتے ہیں جو ان کے کہنہ عقائد سے میل نہیں کھاتے تو وہ ان نئے ''شہود وشاہد و مشہو'' کو تسلیم نہیں کرتے، جس سے ایسا احساس پیدا ہوتا ہے جو الجھاؤ کی کیفیت لاتا ہے، اسے آپ گیان و معرفت کا عدم اطمینان ''کاگنیٹو ڈیسوننس'' کہہ سکتے ہیں۔
کسی ناراض انقلابی نے کہا کہ مجھے جلد یا بدیر مرنا ہی تو ہے، چاہے میں نے سماج کے بالادستوں کے خلاف لب کشائی کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اتنا جانتاہوں کہ خاموشی نے مجھے تحفظ نہیں دیا، میری نگہبانی نہیں کی، اسی طرف تمہاری خاموشی بھی تمہاری مدد کونہیں آئے گی، سوال یہ ہے کہ تمہارے پاس الفاط کتنے ہیں، کہاں ہیں؟ ہر روز ظلم وجبر کیوں سہتے ہو،چپ کیوں رہتے ہو، اور خود بھی جبر کے کتنے نئے انداز ایجاد کرتے ہو،جو تمہاری ہلاکت کا سامان کرتے ہیں، خاموشی سے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ خوف کی تکریم کرتے ہوئے سوشلائزڈ ہوچکے ہیں حالانکہ ہمیں زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔میں اکثر خود سے پوچھتا ہوں کہ اگر میں سچ بول دیتا ہوں۔
وہ لب کشائی پر ہمیں جیل میں تو نہیں ڈال دیں گے،ہمیں رات کے اندھیرے میں سڑک پر کوئی مار کر بھاگ تو نہیں جائے گا، ہاں ہماری گفتگو بعض لوگوں کو پریشان ضرور کردیگی، جان ایف کینیڈی نے اسی لیے کہا تھا کہ جو پرامن انقلاب کا راستہ روکتے ہیں وہ پر تشدد انقلاب کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ جس معاشرے میں زوال کی حکمرانی ہوگی وہاں کوئی دانا و بینا شخص کارآمد نہیں ہوسکتا۔ آدمی کے پاس اتنی آزادی ہوتی ہے جتنی اس کے اندر ذہانت، جس کی بنیاد پر وہ کچھ کرنے کی ہمت کرتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو صرف محبت اور انقلاب کے لیے پیدا کیا ہے۔
(جاری ہے)
وفاداری کا دعوی کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا چرچا کیوں کریں ہم
جون ایلیا کے اب شعروں میں ہماری زندگی کے کئی رنگ سمٹ آئے ہیں۔ ہم لاکھ ان گھسے پٹے لفظوں کا چرچا کریں یا نہ کریں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ وفا اخلاص کا جنازہ نکل چکا ، ہم تو اقدار کی اجتماعی تجہیز و تکفین میں دانا و یکتا نکلے۔ اب اس کے بعد جس لفظ کی حرمت مشکوک ہوئی اور اسے ہر جمہوری اور آمرانہ دور میں رسوا کیا گیا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تاہم آج ہم ایک اور مظلوم لفظ کو نوحہ گر کے ساتھ رکھیں گے۔اور یہ لفظ ہے انقلاب یعنی ، تبدیلی۔ انگریزی میں اس کو Revolution کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ جس قدر لفظ انقلاب سیاست میں رسوا ہوا ہے اتنے تو مرزا ہادی بھی ادب میں رسوا نہیں ہوئے تھے۔
جب طالب علمی کا زمانہ تھا تو چند دوستوں نے مل کر سماجی کام کرنے کی ٹھان لی، سارے طالب علم جمع ہوگئے، ملیشیا کا لباس تیار کیا، نام تجویز ہوا، تحریک انقلاب معاشرہ۔ اس کا ایک اجلاس منعقد ہوا ، پہلا سیشن لیاری کے مولوی عثمان پارک میں منعقد ہوا، سائیکلو اسٹائل مشین سے اس کے اغراض ومقاصد نکالے ،ان کی فوٹو سٹیٹ کاپیوں کو محلے میں تقسیم کیا گیا، ان دنوں این جی او کا لفظ مستعمل نہیں ہوا تھا، یہ لفظ ہمارے وہم وگمان سے دور تھا، ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ ایسی کسی بھی سماجی اور اصلاحی کام میں کبھی بھی کسی سے چندہ نہ مانگنا۔لیکن غضب ہوا کہ علاقے کے جس پہلے بزرگ سے ہم ایک گروپ کی شکل میں ملے اورتحریک کا مقصد بیان کیا تو ان کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف گیا اور دس روپے نکال کر انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا لیجیے میری طرف سے یہ چندہ قبول کرلیں۔ بس اسی لمحے ہمارا سارا انقلاب ع
خاک پر ڈھیر تھا اک کشتۂ بے گوروکفن
بہر حال ہمارے ایک رکن سید عارف علی نے ان سے وضاحت کی کہ ہمار مقصد چندہ جمع کرنا نہیں، ہم بس شام کوایک فری ٹیوشن سینٹر اور اسٹریٹ اسکول کا تجربہ کرنے والے ہیں، محلے کے معصوم بچوں اور لڑکیوںکو گلی میں پڑھائیں گے، کسی قسم کی فیس نہیں لیں گے۔ بعد میں اس اسٹریٹ اسکول کو بازگشت اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں سنائی دی، ایک کتابچہ street schools in Lyariشایع ہوا۔ اور نون میم دانش ، ابراہیم رئیس، اسلم بلوچ ، محمد امین بلوچ اور محمود عالم اس بات کی گواہی دیں گے کہ جب تک گلی میںا سٹریٹ اسکول کی کلاسیں لگتی رہیں کسی نے چندے کی ایک رسیدنہیں کاٹی ، اس اسٹریٹ اسکول کے لاگ بک میں پروفیسر کرار حسین کے لائق صداحترام کمنٹس بڑے عرصے تک ریکارڈ میں موجود رہے ۔پھر ہم تحریک انقلاب معاشرہ سے کنارہ کش ہوگئے۔
آپ کے ذہن میں سوال اٹھے گا کہ اس میں معاشرے کا قصور کیا تھا کہ اس کی روح سے انقلاب غائب ہوگیا۔ اس سوال کا میرے پاس کوئی دو ٹوک جواب نہیں، مگر صد ہزار وضاحتیں ہیں، بکھرے ہوئے اقوال ہیں، دانشوروں کے اقتباسات ہیں، ان کے تجربات کی گونج ہے، ان انقلابیوں کی تحریریں،ناولیں اور تقاریر ہیں جن سے نیٹ کی دنیا آباد ہے۔ان کے سنانے کا وقت بھی یہی ہے، ملک میں جمہوریت کا چرچا ہے، بے سرو ساماں سی جمہوریت، بے منزل سے لوگ، ٹھاٹھیں مارتا میڈیا، آزاد عدلیہ، عدل وانصاف کی باتیں، انقلاب کی قوالیاں۔ آئیے۔ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔
یہ انقلاب زمانہ تھا یافریب نظر
گزر گیا ہے مگر انتظار باقی ہے
فرانسیسی مفکر والٹیئر کہتا ہے کہ آزادی بالآخر ناانصافی کا ثمر ہی ہوتی ہے۔ ہر انقلاب کی ابتدا کسی ذہن میں آئے ہوئے ایک خیال سے ہوتی ہے۔ آشفتہ سر رائٹئر تھامس پین کا کہنا ہے کہ ایک محب وطن شخص کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو اس کی حکومت سے بچائے۔ جرمن فلسفی گوئٹے نے کہا عظیم انقلاب عوام کی غلطی نہیں حکومت کی نادانی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انقلاب کی بدترین صورت اس کی بحالی ہے۔ کسی نے کہا کہ جو ہنگامے برپا ہوتے ہیں وہ زبان خلق کا نقارہ ہوتے ہیں کوئی ان کوسنتا نہیں۔ ایک آواز آتی ہے کہ انقلاب کو چلانا حکومت کرنے سے آسان ہے۔ انقلابات ظلم پرستی کا بوجھ ہلکا نہیں کرتے، صرف کاندھا بدلتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو صدا لگاتے ہیں جہاں آمریت ایک حقیقت ہو وہاں انقلاب ایک حق بن جاتا ہے۔
کسی انقلاب دوست ادیب نے اپنے خیالات کی رو میں لکھا کہ لوگ ہمیں سگ ِ آوارہ کہتے ہیں، ہائپرسنسیٹیو بن جاتے ہیں، ڈنرپارٹیوں کو الٹ پلٹ دیتے ہیں، پھر دوسری طرف خواتین ہمیں دیکھ کر بولنا شروع کردیں گی، یہاں تک کہ ہم تبدیل ہونگے، ہماری زندگیاں محفوظ بن جائیں گی، اورد نیا بدل جائے گی، پھر آپ سوال کریں گے،کہ اب ان سے مزید برے حالات اور کیا ہونگے؟ آپ خود کو آگے دھکیلیں گے، اور آگے،ہمت پکڑیں، آپ بولنا شروع کریں تو لوگ فقرے کسیں گے، تم سے ناراض ہونگے، تمہاری طرف غصے سے بڑھیں گے،تمہارا راستہ روکیں گے، نیچے گرادیں گے، کہیں گے تم پرسنل ہوگئے ہو،مگر دنیا یہاں ختم نہیں ہوگی۔
پھر یوں آسان آسان تر ہوتا جائے گا، آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ آپکو اپنے وژن سے اندرہی اندر محبت ہوگئی ہے، جس کا آپ کو اس سے پہلے اندازہ نہیں ہوگا ، لوگ اب آپ کے قریب آئیں گے، ملیں گے،اس دوران کچھ دوستوں سے آپ بچھڑیںگے،چند بر افروختہ ہونگے، یہی وہ مقام ہوگا جہاں ہماری ایما گولڈمان سچ کہیں گی اور آپ مان لیں گے کہ '' جس کے ساتھ میں رقص کناں نہ ہوسکوں وہ میرا انقلاب نہیں ہوگا۔'' لیکن میں ایک آخری بات کرونگا کہ جو ڈراؤنی چیز ہوگی وہ یہ ہوگی کہ کہ آپ بولیں گے نہیں، سچ نہیں بتائیں گے،مگر آپکو سچ کے لیے زبان کھولنا ہوگی۔
ارسطو نے کہاتھا کہ غربت انقلاب اور جرائم کی ماں ہے۔برٹریند رسل نے کہا کہ ہماری عظیم جمہوریتیں اس سوچ میں غلطاں ہیں کہ ایک احمق آدمی بہت زیادہ دیانتدار ہوتا ہے، اس آدمی کے مقابلے میں جوسمجھدار ہے، چالاک و ہوشیار ہے، اور ہمارے سیاستدان اس تعصب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ جان کر اور احمق بنتے ہیں،ڈھونگ رچاتے ہیں جس کے لیے فطرت نے انھیں بنایا ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ سارے انقلاب جب تک کہ رونما نہ ہوں،تاریخی طور پر ناگزیریات میں شامل ہوتے ہیں۔آپ انقلاب خرید نہیں سکتے، کسی انقلاب کو بنا نہیں سکتے، تم صرف انقلاب بن سکتے ہو، یہ تمہاری روح میں ہے۔
اس کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ لینن نے کہا تھا سرمایہ دارانہ سماج میںآزادی ویسی ہوتی ہے جیسی ایتھنز کی جمہوریہ میں ہوتی تھی،غلاموں کے مالکان کے لیے تھی۔ کسی خرد مند نے کہا کہ جیل میں بند رہنے سے بہتر ہے کہ آدمی لڑتا ہوا مارا جائے۔ بحث یہ بھی چلتی رہتی ہے کہ آپ موجودہ سسٹم سے ٹکراتے ہوئے چیزوں کو تبدیل نہیں کرسکتے،تبدیلی کے لیے آپ کو ایک نیا ماڈل تیار کرنا ہوگا، جو پرانے ماڈل کی جگہ لے لے۔ یاد رکھیے، عظیم تر اور طاقتور انقلابات اکثر خاموشی سے شروع ہوتے ہیں، ان پرسایہ رہتا ہے۔ اگرآپکے دل میں انقلاب کی خواہش ہے تو سسٹم کے اندر بغاوت کریں، یہ داخلی طور پر بہت طاقتور ہوتا ہے بہ نسبت سسٹم سے باہر رہتے ہوئے بغاوت یا انقلاب لانے سے، سیاہ فام لیڈر میلکم ایکس کے مطابق ایسا بھی ہوتا ہے کہ انقلابیوں کو سرینڈر کرانے کے لیے ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں۔
ایک امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے کہا تھا کہ ہمیشہ یاد رکھنا ہم میں سے ہر ایک ،یعنی میں اور تم سب تارکین وطن سے ہیں، ہم انقلابیوں کی اولاد ہیں ، انقلاب کی پرستی ہارا شیوہ ہے۔ افتادگان خاک جیسی معرکہ آرا کتاب کے مصنف فرانز فینن کا کہنا تھا کہ بعض اوقات لوگ ایک بنیادی تصور اور عقیدہ پر ثابت قدمی سے قائم رہتے ہیں، یہ استقامت کی نشانی ہے، لیکن جب ان کے سامنے نئے شواہد پیش کیے جاتے ہیں جو ان کے کہنہ عقائد سے میل نہیں کھاتے تو وہ ان نئے ''شہود وشاہد و مشہو'' کو تسلیم نہیں کرتے، جس سے ایسا احساس پیدا ہوتا ہے جو الجھاؤ کی کیفیت لاتا ہے، اسے آپ گیان و معرفت کا عدم اطمینان ''کاگنیٹو ڈیسوننس'' کہہ سکتے ہیں۔
کسی ناراض انقلابی نے کہا کہ مجھے جلد یا بدیر مرنا ہی تو ہے، چاہے میں نے سماج کے بالادستوں کے خلاف لب کشائی کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اتنا جانتاہوں کہ خاموشی نے مجھے تحفظ نہیں دیا، میری نگہبانی نہیں کی، اسی طرف تمہاری خاموشی بھی تمہاری مدد کونہیں آئے گی، سوال یہ ہے کہ تمہارے پاس الفاط کتنے ہیں، کہاں ہیں؟ ہر روز ظلم وجبر کیوں سہتے ہو،چپ کیوں رہتے ہو، اور خود بھی جبر کے کتنے نئے انداز ایجاد کرتے ہو،جو تمہاری ہلاکت کا سامان کرتے ہیں، خاموشی سے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ خوف کی تکریم کرتے ہوئے سوشلائزڈ ہوچکے ہیں حالانکہ ہمیں زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔میں اکثر خود سے پوچھتا ہوں کہ اگر میں سچ بول دیتا ہوں۔
وہ لب کشائی پر ہمیں جیل میں تو نہیں ڈال دیں گے،ہمیں رات کے اندھیرے میں سڑک پر کوئی مار کر بھاگ تو نہیں جائے گا، ہاں ہماری گفتگو بعض لوگوں کو پریشان ضرور کردیگی، جان ایف کینیڈی نے اسی لیے کہا تھا کہ جو پرامن انقلاب کا راستہ روکتے ہیں وہ پر تشدد انقلاب کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ جس معاشرے میں زوال کی حکمرانی ہوگی وہاں کوئی دانا و بینا شخص کارآمد نہیں ہوسکتا۔ آدمی کے پاس اتنی آزادی ہوتی ہے جتنی اس کے اندر ذہانت، جس کی بنیاد پر وہ کچھ کرنے کی ہمت کرتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو صرف محبت اور انقلاب کے لیے پیدا کیا ہے۔
(جاری ہے)