سری لنکن ٹیم پر حملہ سانحہ کے ملزم رہا کیس کا فیصلہ ہوسکا نہ عالمی کرکٹ بحال ہوئی
نامزد ملزم ناکافی شہادتوں پر رہا ہوتے رہے،فوٹیج میں نظر آنیوالے حملہ آور زبیر کو بھی ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔
کیا کسی کو یاد ہے کہ3 مارچ 2009 ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی تباہی کا دن تھا؟
آج سے ساڑھے 4 سال قبل اسی روز سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے 7 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد کو شہید جبکہ لنکن ٹیم کے کوچ اور 5کھلاڑیوں سمیت متعدد افرادکو زخمی کردیا تھا جس کے بعد ملک سے جیسے انٹرنیشنل کرکٹ کاخاتمہ ہی ہوگیا۔ اس حملہ سے پاکستان کی ساکھ کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی تباہ ہوئی اور بھاری مالی نقصان بھی ہوا جو اب تک جاری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزمان کے حوالے سے بلنگ و بانگ دعوے کئے مگر تاحال کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ کے اندراج کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کالعدم جماعت کے رہنما ملک اسحاق، زبیرعرف نیک محمد، عقیل عرف ڈاکٹرعثمان سمیت 9 ملزمان کو مقدمہ میں نامزدکرتے ہوئے گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور ان ملزمان کوعدالتوں میں پیش کیے گئے چالانوں میں گنہگارقراردیاگیا لیکن کمزور اور ناکافی شہادتوں کے باعث ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوتے رہے۔
وکلا کیس کی تاخیرکی وجہ قانونی پیچیدگیاں بتاتے ہیں جبکہ تفتیشی ٹیموں کوملزمان کی ہونے والی ضمانتوں پر تحفظات ہیں اور ان کی ضمانتوں کے اخراج کیلیے درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں، قانونی پیچیدگی کوئی بھی ہو لیکن گزشتہ ساڑھے 4سال سے پاکستان کی ساکھ اورکرکٹ دونوں متاثرہیں جس کو بحال کرنے میں معلوم نہیں مزیدکتنا عرصہ درکارہے۔ کرکٹ کی ملک میں بحالی کیلیے اب تک کی گئی تمام ترکوششیں سودمند ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔ ہم پیچھے ساڑھے4سال قبل چلتے ہیں پاکستان کے دورے پرآئی ہوئی سری لنکن ٹیم میچ کھیلنے کیلیے 3 مارچ 2009 کی صبح مقامی ہوٹل سے ایلیٹ فورس کی نگرانی میں قذافی اسٹیڈیم جارہی تھی کہ گلبرگ سٹی پلازہ اورگلبرگ پلازہ کے درمیان دہشتگردوں نے چاروں اطراف سے کلاشنکوفوں، ہینڈ گرنیڈ اور راکٹ لانچر سے مذکورہ ٹیم پر حملہ آور ہوگئے۔
مبینہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار فیصل، مدثر اقبال، ظفراقبال، سلطان محمود، ٹیپو فرید، تنویراقبال، ظفرعلی اورایک شہری موقع پر شہید ہوگئے جبکہ سری لنکن ٹیم کے کوچ اور 5کھلاڑیوںسمیت متعدد راہگیر زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے مبینہ دہشت گردوں کے زیر استعمال کار جس میں ٹائم بم جسے بم ڈسپوزل کی مدد سے ناکارہ کیاگیا علاوہ ازیں جائے وقوعہ سے متعدد ہینڈگرینڈ اور بھاری مقدار میں اسلحہ بھی قبضہ میں لیکرنامعلوم دہشت گردوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ دوران تفتیش پولیس نے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے نائب امیر ملک اسحاق، عقیل احمد عرف ڈاکٹرعثمان، سمیع اللہ، عدنان، عبدالوہاب، محمد زبیر عرف نیک محمد، عبید اللہ، عبید الرحمن، ابراہیم جاوید انورکو نامزد کرتے ہوئے الگ الگ چالان عدالت میں پیش کر دیے تھے۔
مگرملزمان ضمانتوں پررہا ہوتے رہے جس پر بعض ملزمان کو نظر بندکر دیا گیا جبکہ ابھی بھی زبیرعرف نیک محمدکی نظربندی اور ضمانت اخراج کی درخواستیں لاہورہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ وکلا کاکہنا ہے کہ ملزم زبیر حملہ کے وقت فوٹیج میں نظر آرہا ہے مگر اس کے باوجود اس کی ضمانت منظورکرلی گئی۔ اس صورتحال کے پیش نظرانسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کردی گئی ہے۔ اب ملزمان کے خلاف ملنے والی فوٹیج بھی بطور شہادت عدالت میں پیش کی جاسکے گی۔ قانون میں ترامیم تو ہوتی رہتی ہیں اصل بات اصل مجرمان کوعدالت کے کٹہروں میں لانا اوران کیخلاف مکمل شہادتیں پیش کرنا، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کاکام ہے عدالتوں نے فیصلے شہادتوں کی بناپرکرنے ہیں۔
آج سے ساڑھے 4 سال قبل اسی روز سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے 7 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد کو شہید جبکہ لنکن ٹیم کے کوچ اور 5کھلاڑیوں سمیت متعدد افرادکو زخمی کردیا تھا جس کے بعد ملک سے جیسے انٹرنیشنل کرکٹ کاخاتمہ ہی ہوگیا۔ اس حملہ سے پاکستان کی ساکھ کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی تباہ ہوئی اور بھاری مالی نقصان بھی ہوا جو اب تک جاری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزمان کے حوالے سے بلنگ و بانگ دعوے کئے مگر تاحال کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ کے اندراج کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کالعدم جماعت کے رہنما ملک اسحاق، زبیرعرف نیک محمد، عقیل عرف ڈاکٹرعثمان سمیت 9 ملزمان کو مقدمہ میں نامزدکرتے ہوئے گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور ان ملزمان کوعدالتوں میں پیش کیے گئے چالانوں میں گنہگارقراردیاگیا لیکن کمزور اور ناکافی شہادتوں کے باعث ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوتے رہے۔
وکلا کیس کی تاخیرکی وجہ قانونی پیچیدگیاں بتاتے ہیں جبکہ تفتیشی ٹیموں کوملزمان کی ہونے والی ضمانتوں پر تحفظات ہیں اور ان کی ضمانتوں کے اخراج کیلیے درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں، قانونی پیچیدگی کوئی بھی ہو لیکن گزشتہ ساڑھے 4سال سے پاکستان کی ساکھ اورکرکٹ دونوں متاثرہیں جس کو بحال کرنے میں معلوم نہیں مزیدکتنا عرصہ درکارہے۔ کرکٹ کی ملک میں بحالی کیلیے اب تک کی گئی تمام ترکوششیں سودمند ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔ ہم پیچھے ساڑھے4سال قبل چلتے ہیں پاکستان کے دورے پرآئی ہوئی سری لنکن ٹیم میچ کھیلنے کیلیے 3 مارچ 2009 کی صبح مقامی ہوٹل سے ایلیٹ فورس کی نگرانی میں قذافی اسٹیڈیم جارہی تھی کہ گلبرگ سٹی پلازہ اورگلبرگ پلازہ کے درمیان دہشتگردوں نے چاروں اطراف سے کلاشنکوفوں، ہینڈ گرنیڈ اور راکٹ لانچر سے مذکورہ ٹیم پر حملہ آور ہوگئے۔
مبینہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار فیصل، مدثر اقبال، ظفراقبال، سلطان محمود، ٹیپو فرید، تنویراقبال، ظفرعلی اورایک شہری موقع پر شہید ہوگئے جبکہ سری لنکن ٹیم کے کوچ اور 5کھلاڑیوںسمیت متعدد راہگیر زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے مبینہ دہشت گردوں کے زیر استعمال کار جس میں ٹائم بم جسے بم ڈسپوزل کی مدد سے ناکارہ کیاگیا علاوہ ازیں جائے وقوعہ سے متعدد ہینڈگرینڈ اور بھاری مقدار میں اسلحہ بھی قبضہ میں لیکرنامعلوم دہشت گردوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ دوران تفتیش پولیس نے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے نائب امیر ملک اسحاق، عقیل احمد عرف ڈاکٹرعثمان، سمیع اللہ، عدنان، عبدالوہاب، محمد زبیر عرف نیک محمد، عبید اللہ، عبید الرحمن، ابراہیم جاوید انورکو نامزد کرتے ہوئے الگ الگ چالان عدالت میں پیش کر دیے تھے۔
مگرملزمان ضمانتوں پررہا ہوتے رہے جس پر بعض ملزمان کو نظر بندکر دیا گیا جبکہ ابھی بھی زبیرعرف نیک محمدکی نظربندی اور ضمانت اخراج کی درخواستیں لاہورہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ وکلا کاکہنا ہے کہ ملزم زبیر حملہ کے وقت فوٹیج میں نظر آرہا ہے مگر اس کے باوجود اس کی ضمانت منظورکرلی گئی۔ اس صورتحال کے پیش نظرانسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کردی گئی ہے۔ اب ملزمان کے خلاف ملنے والی فوٹیج بھی بطور شہادت عدالت میں پیش کی جاسکے گی۔ قانون میں ترامیم تو ہوتی رہتی ہیں اصل بات اصل مجرمان کوعدالت کے کٹہروں میں لانا اوران کیخلاف مکمل شہادتیں پیش کرنا، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کاکام ہے عدالتوں نے فیصلے شہادتوں کی بناپرکرنے ہیں۔