2004تا2008ڈرون حملوں کیلیے پاکستانی قیادت نے منظوری دی اقوام متحدہ
حملوں میں عام شہری نشانہ بنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی،خصوصی رپورٹ
اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جون 2004 سے جون2008 کے درمیان ہونے والے ڈرون حملوں کے لیے پاکستان کی عسکری اور خفیہ ادارے کی ا علیٰ قیادت نے سی آئی اے کو منظوری دی تھی۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بل امرسن نیجمعے کوجنرل اسمبلی میں پیش ہونے والی رپورٹ میں پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے مارچ میں جاری کیے گئے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 2004 سے اب تک فاٹا میں 330ڈرون حملوں میں2200افراد جاں بحق اور600 زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں400عام شہری بھی جاں بحق ہوچکے ہیں اور مزید 200 افراد ایسے ہیں جو یقینی طور پر جنگجو نہیں تھے۔ یہ حملے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہیں۔
اس رپورٹ میں 33ڈرون حملوں کو نمونے کے طور پر لیا گیا ہے جو عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کا باعث بنے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات ضروری نہیں کہ ان حملوں میں عام شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد جاری کی گئی ہے۔
جس میں نواز شریف نے امریکی صدر سے پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملے بند کرنے پر زور دیا تھا۔ 24 صفحات پر مبنی رپورٹ میں امرسن نے کہا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ 2004 سے 2008 کے درمیان قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں پاکستانی فوجی حکومت اور خفیہ اداروں کی رضا مندی شامل تھی ۔
دریں اثنا جنرل اسمبلی کی سوشل ہیومینٹیرین اینڈ کلچرل کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر امریکی ڈرون حملے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ان حملوں کے نتیجے میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع بالخصوص بچوں کی اموات کا نوٹس لیں۔ انھوں نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں حقیقی اعداد وشمار سامنے لائے جائیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بل امرسن نیجمعے کوجنرل اسمبلی میں پیش ہونے والی رپورٹ میں پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے مارچ میں جاری کیے گئے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 2004 سے اب تک فاٹا میں 330ڈرون حملوں میں2200افراد جاں بحق اور600 زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں400عام شہری بھی جاں بحق ہوچکے ہیں اور مزید 200 افراد ایسے ہیں جو یقینی طور پر جنگجو نہیں تھے۔ یہ حملے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہیں۔
اس رپورٹ میں 33ڈرون حملوں کو نمونے کے طور پر لیا گیا ہے جو عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کا باعث بنے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات ضروری نہیں کہ ان حملوں میں عام شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد جاری کی گئی ہے۔
جس میں نواز شریف نے امریکی صدر سے پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملے بند کرنے پر زور دیا تھا۔ 24 صفحات پر مبنی رپورٹ میں امرسن نے کہا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ 2004 سے 2008 کے درمیان قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں پاکستانی فوجی حکومت اور خفیہ اداروں کی رضا مندی شامل تھی ۔
دریں اثنا جنرل اسمبلی کی سوشل ہیومینٹیرین اینڈ کلچرل کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر امریکی ڈرون حملے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ان حملوں کے نتیجے میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع بالخصوص بچوں کی اموات کا نوٹس لیں۔ انھوں نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں حقیقی اعداد وشمار سامنے لائے جائیں۔