ان عورتوں میں بہت دم ہے
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کا سب سے دلیر مرد تھیں۔
فیض احمد فیض کی یاد میں میلہ ہر برس ہی لاہور میں ہوتا ہے۔اور اس میلے میں سب سے زیادہ اقبال بانو کی گائی وہ نظمِ ہی سنائی پڑتی ہے '' لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے''۔پر اس بار فیض میلے میں جس نظم کو سب سے زیادہ ریٹنگ ملی، وہ رام پرساد بسمل عظیم آبادی کی اٹھانوے برس پرانی نظم '' سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوِ قاتل میں ہے''۔
سب جانتے ہیں کہ سرکردہ شہیدِ آزادی بھگت سنگھ پر جو بھی فلم یا ڈرامہ بنتا ہے اس میں یہ نظم ضرور ڈالی جاتی ہے۔مگر اس برس پاکستانی نوجوانوں کی نئی پیڑھی نے نسل در نسل پڑھی جانے والی اس نظم کو ایک نئی زندگی دے دی۔کچھ سرپھرے نوجوانوں نے فیض میلے میں اس نظم کو نعرے کی طرح اپنا کے گایا۔
اس بھیڑ میں سب سے جوشیلی اور بلند آواز عروج اورنگ زیب کی تھی۔تب سے عروج کم ازکم سوشل میڈیا کی حد تک نئی پیڑھی کے لیے جوش کا استعارہ بن گئی ہے۔
کوئی بھی ملک جو بہت دیر سے کسی سچی تبدیلی کے لیے جوج رہا ہو وہاں اگر کوئی عورت یا لڑکی مردانہ تسلط کے سماج میں اسٹار بن کے ابھرے تو اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی کی پیاس کتنی گہری ہے۔اور اب ایسی مثالوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جیسے سعودی عرب میں خواتین کی بغیر سرپرست ڈرائیونگ پر پابندی کو سب سے پہلے ستمبر دو ہزار گیارہ میں شامہ جتینا نے چیلنج کیا اور ریاض میں تنِ تنہا گاڑی چلائی۔اس پر '' غیر قانونی ڈرائیونگ ''کے جرم میں مقدمہ چلااور دس کوڑوں کی سزا ملی جو بعد میں معاف کر دی گئی۔ مگر جدید سعودی عرب میں کسی عورت کو کوڑوں کی سزا سنائے جانے کی یہ پہلی مثال تھی اور وہ بھی تنہا ڈرائیونگ کے جرم میں۔مگر عورتیں ڈری نہیں۔
دو ہزار چودہ میں سعودی خاتون لجنان الحسلول کو متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب میں تنہا گاڑی چلاتے ہوئے داخل ہونے پر گرفتار کر لیا گیا۔انھیں تہتر دن کی جیل بھگتنا پڑی۔اسی دوران الخبرمیں منال الشریف کو اس جرم میں بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ حوالات کی ہوا کھانا پڑی۔ایسی خواتین کی تعداد بیسیوں ہے جنھوں نے سعودی شہروں میں اس قانون کو توڑا۔
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ، ہاں بخدا نہیں کیا (جون ایلیا)
ان عورتوں کی جدوجہد رائیگاں نہیں گئی اور آج سعودی عرب میں کوئی بھی خاتون ایسے گاڑی چلاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
یمن میں دو ہزار گیارہ میں جب عرب اسپرنگ کی لہر آئی تو علی عبداللہ صالح کی تانا شاہی کو چیلنج کرنے والوں میں توکل کرمان آگے آگے تھی۔توکل کی اس جدوجہد کے اعتراف میں انھیں دو دیگر خواتین کے ہمراہ امن کا نوبیل انعام بھی ملا۔
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سرکاری مداخلت اور فیسوں میں کئی گنا اضافے سمیت متعدد مسائل پر ان دنوں پھر بے چینی کی لپیٹ میں ہے۔مگر اس بے چینی کی داغ بیل دو ہزار سولہ میں پڑی تھی جب مودی حکومت نے غداری اور ملک دشمنی کے الزامات کی آڑ میں جے این یو میں بائیں بازو کی طلبا قوت کے خلاف کریک ڈاؤن اور بی جے پی کی بغل بچہ طلبا تنظیم (اکھل بھارتیہ ودیا پریشد ) کو کیمپس میں پاؤں جمانے کے لیے ریاستی قوت کی پشت پناہی کے ساتھ پورا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی۔اس زمانے میں یونین سازی کو ترسے پاکستانی طلبا و طالبات کو سوشل میڈیا کے طفیل جے این یو کی طلبا یونین کے صدر کنہیا کمار اور نائب صدر شہلا رشید کی تقاریر سننے کا موقع ملا۔
شہلا رشید آج بھی کشمیر کو آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کے بعد ہڑپ کرنے کی مودی سرکار کی کوشش کی مزاحمت کرنے والوں میں آگے آگے ہیں اور پکی پکی غدار کے تمغے سے سرفراز ہیں۔ خود کشمیر میں پچھلے چند برس میں خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں ہم لے کے رہیں گے آزادی کے نعرے کے ہراول دستے کے طور پر جو کلیدی کردار اپنایا ہے، وہ کشمیر کی قربانیوں کی کتاب میں ایک دمکتا ہوا باب ہے۔
ایران میں انیس سو اناسی کے انقلاب میں خواتین نے ہراول دستے کا کردار نبھایا اور آج انھی خواتین کی دوسری اور تیسری نسل ایک اور طرح کی فسطائیت کے خلاف نبرد آزما ہے۔دو ہزار نو کے مظاہرے ہوں یا دو ہزار چودہ کی بے چینی ہو ، سڑک پر عورتیں بھی اتنی ہی تھیں جتنے مرد۔ دسمبر دو ہزار سترہ میں ایران میں حجاب کی سرکاری زبردستی کے خلاف کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے ۔ تہران میں ہونے والے مظاہرے کی ایک تصویر سب سے زیادہ وائرل ہوئی۔ ایک خاتون نے ایک اونچے ڈبے پر چڑھ کے اپنے سفید حجابی اسکارف کو جھنڈے کی طرح لہرایا۔اس خاتون کا نام تھا ودا مواحد۔ وہ گرفتار بھی ہوئی مگر اس تصویر نے یادگار درجہ پا لیا۔ان دنوں پھر ایران پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے عوامی ردِعمل کی زد میں ہے۔
گزرے اپریل میں سوڈان کی راجدھانی خرطوم میں جس نوجوان جتھے نے فوجی ہیڈکوارٹر کے سامنے کئی دن دھرنا دیا اور اس دھرنے کے نتیجے میں شراکتِ اقتدار میں کامیابی حاصل کی۔اس دھرنے کو بائیس برس کی سفید لباس والی ایک لڑکی اعلا صلاح لیڈ کر رہی تھی۔اعلا کو اس کی جرات مندی پر عوام کی جانب سے کنداکا ( نوبیا کی بہادر ملکہ ) کا خطاب ملا۔
لبنان میں کرپٹ خاندانی سیاست اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو سہارا دینے والے نظام کے خلاف سب شیعہ ، سنی اور مسیحی شہری پچھلے دو مہینے سے جو مشترکہ تحریک چلا رہے ہیں اس میں عورتیں آگے آگے ہیں۔اس تحریک کی یادگار وائرل تصویر وہ ہے جس میں ایک لڑکی ایک وزیر کے باڈی گارڈ کو فلائنگ کک مار رہی ہے۔ دراصل یہ نظام کو لگنے والی کک ہے۔
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کا سب سے دلیر مرد تھیں۔ ان کی کمی محسوس تو بہت ہوتی ہے۔مگر آج کے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جو تبدیلی ہماری نسل نہ لا سکی شائد اکیسویں صدی کی یہ ڈیجیٹل نسل لے آئے۔اور ہم انھیں کامیاب دیکھ کر ہی تھوڑا سا خوش ہو لیں اور اپنی ناکامیاں بھول سکیں۔کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)