مغرب خود شدت پسندی کو ہوا دیتا ہے
کیا دیگر مسلمان بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اسلام کو زبردستی نہیں پھیلایا جا سکتا؟۔
دنیا کے تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات ایک سی ہیں کہ جھوٹ، فریب، چغل خوری، نا انصافی، قتل و غارت اور دیگر برائیوں سے بچو!حتیٰ کے بے دین لوگوں کا بھی پہلا اصول یہی ہوتاہے کہ اچھے کام کیے جائیں، یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ لہٰذاتہذیب یافتہ قومیں اور خاص طور پر مغربی اقوام انسانی حقوق کی علمبردار نظر آتی ہیں ، لیکن یہاں اُن کا دہرا پن نمایاں نظر آتا ہے، وہاں اگر کوئی مسلمان کوئی غلط کام یا بات کر دے تو وہاں کا میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے ، لیکن اسلام مخالف اقدام کو ''آزادی اظہار رائے'' سے تشبیہ دے کر جان چھڑا لیتا ہے۔ تبھی تو ہر گزرتے روز اسلام پر ''وار'' کیے جا رہے ہیں۔
کبھی یہ وار متنازعہ خاکوں کی شکل میں ہوتے ہیں، کبھی مساجد میں موجود لوگوں کو گولیاں مار کر شہید کرنے اورکبھی اسلام دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرکے، اب تو بات انتہا کو پہنچ گئی کہ ہماری مقدس کتاب قرآن پاک کو ہی نذر آتش(نعوذباللہ) کیا جانے لگا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی اقوام ہیں جنھیں ہم اپنے نصاب میں پڑھا کر بچوں کی تربیت کر رہے ہیں ۔ یہ واقعہ بلکہ سانحہ گزشتہ ہفتہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے جنوب کی طرف تقریبا 322 کلومیٹر پر واقع شہر کرستیان ساند میں پیش آیا، جب ایک اسلام مخالف تنظیم نے اپنے مظاہرے میں قرآن پاک کو آگ لگا کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کردیے۔ درحقیقت اس تنظیم نے گزشتہ ہفتے اسلام مخالف مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔
اسی اثنا میں تنظیم کے ایک اور رہنما لارش تھورشِن نے جس کا تعلق اس شہر سے نہیں بلکہ اوسلو سے ہے، نے شرانگیزی کی۔ جسے عمر دھابہ نامی مسلمان شامی باشندے نے اپنے تئیں مزاحمت کرکے روکا اور وہ مسلمانوں کا ہیرو بن گیااور سوشل میڈیائی دنیا میں ایک لمحے کے لیے چھا گیا۔ اب بتائیں کیا اس طرح کے واقعات سے اسلام دشمنی کھل کر سامنے نہیں آتی؟ چلیں مان لیا کہ یہ کسی تنظیم کا انفرادی واقعہ ہے۔ لیکن کیا اس کے جواب میں کسی مغربی قائد نے مذمت کی؟
کیا کسی صدر، وزیراعظم یا کسی وزیر مشیر نے اس اقدام کے خلاف آواز اُٹھائی، بالکل نہیں! حالانکہ مغربی اقوام جانتے ہیں کہ ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے اندر خاموش انقلاب جنم لیتا ہے جو کسی مناسب وقت پر بدلا لیے بغیر نہیں رہتا! چلیں اسے بھی چھوڑیں میری اپنی مثال لے لیں۔ میں کوئی ''بنیادپرست مسلمان'' نہیں ہوں، لیکن اس واقعہ کے بعد دل بجھ گیا، کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا، جیتے جی مار دینے والے واقعے نے سارا دن عجیب کیفیت میں مبتلا کردیا۔ کہ کس طرح ہم ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کیے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ بقول شاعر
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
اسی واقعہ کے جواب میں مجھے ایک تاریخی ملاقات یاد آگئی جو معروف ہندوستانی اسکالر مولانا عبدالعلیم صدیقی اور جارج برنارڈ شا کے درمیان ہوئی۔ یہ اپریل 1935ء کی بات ہے،مشہور آئرش اسکالراور ادیب، جارج برنارڈ شانے جنوبی افریقہ جاتے ہوئے ممباسا (کینیا)میں قیام کیا۔ وہ بذریعہ بحری جہاز سیر و تفریح کرنے جنوبی افریقہ جا رہے تھے۔ممباسا کا مجسٹریٹ شا کا رشتے دار تھا،سو وہ تین دن اسی کے ہاں ٹھہرے۔
مجسٹریٹ کی زبانی انھیں معلوم ہوا کہ آج کل شہر میں ہندوستان سے ایک نامور مسلمان عالم دین آئے ہوئے ہیں۔ برنارڈ شا عالمی مذاہب کے مطالعے سے دلچسپی رکھتے تھے،سو انھوں نے ہندوستانی عالم سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔مجسٹریٹ نے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔ 17اپریل کی صبح مولانا عبدالعلیم صدیقی شا سے ملنے چلے آئے۔ برنارڈشا واحد ادیب ہیں جنھوں نے ادب کانوبیل انعام اور آسکر ایوارڈ،دونوں حاصل کیے۔
ادھرکم عمری کے باوجود مولانا عبدالعلیم صدیقی کی شہرت بہ حیثیت مبلغِ اسلام پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔وہ وسیع المطالعہ شخصیت، درس نظامی کے سند یافتہ اور ایل ایل بی تھے۔ غیرمعمولی دماغ رکھنے والی دونوں ہستیوں میں جو پُرمغز گفتگو ہوئی،اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
برنارڈ شا:مجھے افسوس ہے کہ پچھلی رات آپ کا لیکچر نہیں سن سکا۔تاہم یہ ضرور جانتا ہوں کہ آپ نے فلسفہِ امن پر اظہار خیال کیا۔مگر کیاا ٓپ کو فلسفہ ِجنگ پہ لیکچر نہیں دینا چاہیے تھا؟آخر اسلام تلوار کے زور پر ہی پھیلا ہے۔ مولانا طنز کو سمجھ گئے مگر بڑے حوصلے کے ساتھ مدلل جواب دے کر برنارڈ شا کو لاجواب کردیا۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی نے کہا کہ یہ مغرب میں پھیلا بہت بڑا مغالطہ ہے۔لیکن مجھے حیرت ہے،آپ جیسا دانا و بینا دانشور بھی ان دیومالائی کہانیوں پہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا۔جس مذہب کے نام کے لغوی معنی ہی ''امن'' ہوں،وہ جنگوں کا حامی کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن پاک اور ہمارے رسولؐ کی احادیث میں واضح طور پہ آیا ہے کہ مسلمان صرف دفاعی جنگ لڑ سکتا ہے۔جب اس پہ ظلم کیا جائے، تب وہ اپنے دفاع کی خاطرتلوار اٹھا سکتا ہے۔مزید برآں قرآن مجید میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں (البقرہ۔256)۔چنانچہ کسی غیر مسلم کو ڈرادھمکا کر مسلمان کرنا گناہ اور حرام ہے۔
برنارڈ شا اس پر مخاطب ہوئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا دیگر مسلمان بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اسلام کو زبردستی نہیں پھیلایا جا سکتا؟۔
یہ ہے اسلام کا حسین اورسلامتی والا چہرہ جسے ایک سازش کے تحت مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہمیں دنیا کے سامنے اسلام کا یہی چہرہ رکھنا ہے۔مغرب خود سوچے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اُسے کیا کرنا ہے ؟ ورنہ نیوٹن کے قانون کے مطابق ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے... اور یہ ردعمل مغربی طاقتوں کو خود علم نہیں کیسا ہوسکتا ہے۔ پھر اس ردعمل کو مسلم شدت پسندی کا نام دے کر ان کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر دیا جائے گا، بلکہ زمین تنگ کر دی جائے گی۔ لہٰذا OICاور اقوام متحدہ کو اس حوالے سے ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ 40اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کو اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
بہرکیف مغرب نے اپنے لیے تو اصول سیٹ کر لیے ہیں کہ ہولوکاسٹ پر آزادی اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے کہ اس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے، یا ویٹی کن سٹی کے عہدیداروں کی بغیر اجازت نشر و اشاعت پر مکمل پابندی عاید ہے کہ اس سے اُن کے مذہبی دل آزاری ہوتی ہے ، لیکن حیرت ہے کہ انھیں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا خیال کیوں نہیں آتا ، حالانکہ مغربی اقوام اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ امن پسند اقوام سمجھتی ہیں، تبھی تو جانوروں کے لیے اُن کی شائستگی، کتوں بلیوں اور پرندوں کے لیے اُن کا پیار عروج پر دکھایا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کو ایک درندہ دکھایا جاتا ہے ، یہ تفریق یقینا کسی دن بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
لہٰذااس پر اقوام متحدہ کی طرز کا ایک ادارہ بننا چاہیے جو تمام مذاہب کا احترام کرائے اور اس کے لیے اصول و ضوابط طے کرے ! اور رہی بات ناروے جیسے پر امن ملک کی تو ناروے میں سزائے موت نہیں ہے اور دیگر جرائم کی سزائیں بھی کم سے کم تر ہیں، اس کا اندازہ جولائی 2011 میں اوسلو میں دہشت گردانہ واقعہ میں 77 افراد کو قتل کرنے والا بریویک کی سزا سے لگائیں جو اس وقت اپنی سزاعمر قید ایک جیل میں کاٹ رہا ہے۔ کم سے کم سزاؤں کے باوجود شرح جرائم نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا ناروے اپنے ملک کو پرامن رکھنے کے لیے مزید اقدامات اُٹھائے ۔