خواتین کے ’ذہنی عارضوں‘ کو تسلیم کیجیے۔۔۔

نفسیاتی امراض میں مستند معالجوں سے رجوع کرنا چاہیے

نفسیاتی امراض میں مستند معالجوں سے رجوع کرنا چاہیے

ہمارے سماج میں اکثر و بیش تر لڑکیوں اور خواتین کی ذہنی بیماری کو آسیب کا شاخسانہ قرار دے کر پیروں اور فقیروں کے پاس لے جانے کا رواج پایا جاتا ہے، یہ نہیں سوچا جاتا کہ اِسے کوئی ذہنی عارضہ بھی ہوسکتا ہے۔

دراصل ہمارے سماج میں ذہنی بیماریوں کو بیماری ہی تصور نہیں کیا جاتا اور اگر اس میں کوئی مبتلا ہوجائے، تو فوراً عاملوں وغیرہ سے ہی رجوع کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ اگر انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا جائے، تو اسے انتہائی ناگواری سے رد کر دیا جاتا ہے اور اتنی نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ پھر اگلے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ دوبارہ کسی کو اس طرح کا مشورہ دے سکے۔

میں سوچتی ہوں کہ کیا برصغیر کے سماجوں میں کیا اس قدر خوب صورتی پائی جاتی ہے کہ جنوں کو ساری دنیا چھوڑ کر یہیں کی لڑکیوں میں دل چسپی ہوتی ہے؟ یا پھر یہ جن بھوت وغیرہ اتنے 'فارغ' ہیں کہ انہیں بس یہی تنگ کرنے کا ہی کام رہ گیا ہے۔۔۔

ذہنی مسائل کے حوالے سے کسی 'عامل' کے پاس جانے میں بھی اچھا خاصا خرچ آجاتا ہے، یعنی یہ بھی کوئی آسان اور سستا عمل نہیں ہے، اس پر بھی اتنے ہی روپے لگ جاتے ہیں، جتنے کسی مستند 'سائیکائٹرسٹ' کے پاس صرف ہوتے ہیں، لیکن یہ ہماری توہم پرستی ہی ہے، جو ہمیں ڈاکٹر کی نسبت کسی عامل کے پاس لے جاتی ہے۔ یہاں ہمارا وقت، پیسہ، صحت، عزت سب برباد ہو جاتا ہے، مگر مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا، بلکہ یہ مزید خرابی کی طرف ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یہ صرف توہم پرستی نہیں، بلکہ ہماری ذہنی خلفشار، فکری بحران، اور عدم تحفظ کے احساس کا ثبوت بھی ہے اور اس کا شکار سب سے زیادہ ہماری عورت ہے، کیوں کہ کسی پسند کرنے، من چاہی شادی، اپنا ٹوٹنے سے بچانے، بیٹے کی ولادت نہ ہونے سے خاوند کو بے راہ روی سے بچانے جیسے سارے معاملات میں اسی عورت کو ہی سمجھوتا کرنا ہوتا ہے۔ یہ صرف ان پڑھ عورت کا مسئلہ نہیں، بلکہ بہت سی پڑھی لکھی خواتین بھی اس 'مرض' میں مبتلا ہیں اور جہالت کا یہ سفر کسی جگہ رکتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔

بعض ماہرین کے بقول صنف نازک کی اس کیفیت کی ایک وجہ انہیں زندگی میں نظرانداز کیا جانا بھی ہوتا ہے، اسی لیے شاید آپ نے بھی غور کیا ہو کہ جن خاندانوں میں صحت مند سرگرمیاں اور اچھا ماحول موجود ہو، جہاں بات کرنے سے پہلے بات سنی بھی جاتی ہو، سمجھی جاتی ہو، وہاں پر کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی عورت پر آسیب کا سایہ ہو گیا ہو۔


یہ گھٹن زدہ اور جہالت کے سایے میں پروان چڑھتے رویوں کو سہتے سہتے جب ایک خاتون یا لڑکی آنکھیں گھما کر مردانہ آواز میں بولتی ہے تو سامنے والوں کو اپنے ردعمل سے خوف زدہ اور جھکا ہوا پاتی ہے، اس وقت جب اس کے حکم کی بجاآوری کی جاتی ہے، تو اسے لاشعور میں ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی اس شخصیت کو نہ صرف تسلیم کیا جا رہا ہے، بلکہ اس کی آنے والی زندگی کی بقا بھی اسی میں ہے، لیکن کیا اس طرح سے گھر کا سکون دائمی طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے؟

کیا اس طرح سے خاندان کے افراد کے درمیان فاصلے کم کیے جا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں، کیوں کہ نقصان جلد یا بدیر عورت کا ہی ہوتا ہے، کیوں کہ ایسی خواتین کو زیادہ دیر تک برداشت کیا جاتا ہے نہ ان کے ساتھ رہا جاتا ہے۔

دوسری طرف اس کی انتہائی صورت ہوتی ہے، جب وہ کسی ذہنی عارضے کی انتہاپر ہوں، جس میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہچانے جیسے افعال کا ارتکاب تک کرنے لگے، جسے دیکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس پر کوئی جن وغیرہ آ گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ فوراً یہ کیوں تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ لڑکی پر جن یا آسیب کا سایہ ہے؟ کیا اسے ذہنی بیماری نہیں ہو سکتی، جس کے علاج کے لیے سنجیدہ طور پر کوشش نہیں کی جانی چاہیے؟ کیا اسے بند کمرے میں عامل کے حوالے کر دینا درست عمل ہے؟

دیگر ذہنی بیماریوں کی طرح 'شیزوفرینیا' یا 'ہسٹریا' کو بیماری سمجھ کر اس کا بروقت علاج کراونے میں سنجیدہ پیش رفت کیوں نہیں دکھاتے؟

ذہنی بیماروں کے لیے ہم 'لبِ سڑک' کھولے گئے کھوکھوں میں بیٹھے ہوئے ان نام نہاد عاملوں پر ہی کیوں اتنا بھروسا کر جاتے ہیں کہ بے تحاشا پیسے کے ضیاع کے بعد بھی یہ نہیں سمجھتے کہ یہ شعبدے بازی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

عام طور پر لوگ ان کی علامات سے ناتو واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی اسے مانتے ہیں اور بدقسمتی سے اس طریقہ علاج سے مطمئن بھی نہیں ہوتے، کیوں کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے مریض کو جلد صحت یاب ہوتا دیکھنا چاہتا ہے، لیکن بعض پیچیدہ اور پرانے مرض کے علاج میں سالوں بھی لگ سکتے ہیں جس کے لیے مریضہ کے گھر والے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے اور 'شارٹ کٹ' اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں ان کے مریض کے لیے صرف بربادی ہوتی ہے۔

یہ وہ ذہنی بیماریاں ہیں جن کا علاج کسی دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس بروقت لے جانے سے ہی حل ہو سکتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب تک ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
Load Next Story