Rub og Stub ڈنمارک کا منفرد ریستوراں

ریستوران میں کچرے کے ڈبوں سے حاصل کردہ اشیائے خورونوش سے تیار کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔


عبدالریحان October 27, 2013
ریستوراں میں ان چیزوں سے کھانا تیار کیا جاتا ہے جنھیں سپرمارکیٹیں کچرا گردانتے ہوئے پھینک دیتی ہیں۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: ڈنمارک میں ہزاروں کی تعداد میں ریستوراںموجود ہیں جہاں روزانہ لاکھوں شہری شکم پُری کرتے ہیں۔

ان دنوں مقامی ذرائع ابلاغ میں Rub og Stub نامی ریستوراں کا چرچا ہورہا ہے۔ Rub og Stubکی وجۂ شہرت یہ ہے کہ اس ریستوراں میں پیش کیے جانے والے کھانے ان اشیائے خوراک سے بنائے جاتے ہیں جنھیں سپرمارکیٹیں کچرا گردانتے ہوئے پھینک دیتی ہیں۔ سپرمارکیٹیں کچرے میں پھینکنے کے لیے جو اشیاء علیٰحدہ کرتی ہیں ان میں بڑی مقدار میں ہر قسم کی اشیائے خورونوش بھی شامل ہوتی ہیں۔ Rub og Stub کے ملازمین اس کچرے میں سے قابل استعمال اشیائے خورونوش چھانٹ لیتے ہیں جنھیں بعدازاں مختلف ڈشیں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ریستوراں کو کھلے چند ہی روز ہوئے ہیں اور یہاں گاہکوں کو بھیڑ کی بھنی ہوئی رانوں سے لے کر بطخ کے گوشت سے بنی مختلف ڈشیں، پھل اور ڈیری کی مصنوعات تک پیش کی جارہی ہیں۔ اور یہ سب سپرمارکیٹوں میں جمع ہونے والے ' کچرے' کے سبب ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کچرے سے بنی ہوئی ڈشوں میں دل چسپی لے رہی ہے۔



سپرمارکیٹیں، بڑے بڑے اسٹورز اور ریستوراں ایسی اشیائے خوراک کو بھی کچرے کی نذر کردیتے ہیں جو اچھی حالت میں ہوتی ہیں۔ ان اشیاء کی یا تو پیکنگ کسی وجہ سے خراب ہوجاتی ہے یا پھر ان کے استعمال کی آخری تاریخ (expiry date) قریب آجاتی ہے۔ دنیا بھر، بالخصوص مغربی ممالک میں بڑی مقدار میں اشیائے خورونوش ضائع ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2011 ء تک کچرے کی نذرکی جانے والی غذائی اشیاء کی مقدار 1.3 ارب ٹن سالانہ تھی، جو دنیا میں اشیائے خوراک کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی ہے۔ کاروباری جریدے '' بزنس ویک''کے مطابق 2012ء میں امریکیوں نے 180ارب ڈالر مالیت کی اشیائے خورونوش کچرے میں پھینکیں جوکہ 2008ء کے مقابلے میں 8 فی صد زیادہ ہے۔

اشیائے خورونوش کے ضیاع کے خلاف عالمی سطح پر ایک تحریک پائی جاتی ہے جسے Freeganismکہا جاتا ہے۔ دراصل یہ کوئی تحریک نہیں بلکہ اسے کنزیومرازم کا مخالف ایک طریق عمل کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ Freeganismکا مقصد کچرے کی نذر کی جانے والی اشیائے خورونوش میں سے قابل استعمال غذائی اشیاء کو علیٰحدہ کرکے کام میں لانا ہے۔ اس پر عمل پیرا افراد کچرے کے ڈبوں میں سے بہتر حالت والی اشیائے خورونوش ڈھونڈ کر کھاتے پیتے ہیں۔ اس عمل کا ان لوگوں کی مالی حالت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ Freeganism پر عمل کرنے والوں میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔



Rub og Stubکی بنیاد اسی طریق عمل کے پیش نظر ڈالی گئی ہے۔ اس ریستوراں کے قیام سے مالکان کا مقصد اشیائے خورونوش کے ضیاع کی طرف توجہ دلانا ہے جب کہ حاصل ہونے والی آمدنی بھی وہ فلاحی اداروں کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان پر تنقید کی جارہی ہے۔ ناقدین کا موقف ہے کہ وہ کچرے میں سے مفت میں حاصل کی گئی غذائی اشیاء بیچ کر نفع کمارہے ہیں۔ تنقید کے جواب میں ریستوراں کی شریک مالک سوفی سیلز کہتی ہیں کہ ڈنمارک میں بڑی مقدار میں غذائی اشیاء ضائع کی جاتی ہیں، اس ریستوراں کے قیام سے ہمارا مقصد اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ دوسری بات یہ کہ ریستوراں کا پورا عملہ رضاکاروں پر مشتمل ہے جو اپنی خوشی سے بلامعاوضہ یہاں کام کررہے ہیں۔ ریستوراں سے ہونے والی آمدنی ہم سیرالیون کے تین فلاحی اداروں کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تنقید کے علاوہ سوفی سیلز اور ان کے ساتھیوں کو جس دوسری بڑی مشکل کا سامنا ہے وہ کچرا قرار دے کر پھینکی جانے والی غذائی اشیاء کا حصول ہے۔ سوفی کے مطابق وہ اپنے کھانوں میں صرف ان اشیائے خورونوش کا استعمال کرتے ہیں جو کچرے میں پھینک دی گئی ہوں مگر جن کی آخری تاریخ نہ گزری ہو۔ سوفی کا کہنا ہے کہ دکان دار اور سپراسٹورز کے مالکان انھیں یہ اشیاء عطیہ کرنے میں تذبذب سے کام لے رہے ہیں۔ انھوں نے ' خام مال' کی فراہمی کے لیے ابھی تک کسی سپرمارکیٹ یا تقسیم کار سے باقاعدہ معاہدہ نہیں کیا ہے کیوں کہ سوفی کے خیال میں یہ مارکیٹیں اور تقسیم کار اس ریستوراں کے قیام کے مقصد کو نہیں سمجھتے۔ کچھ سپرمارکیٹوں کے نمائندوں نے غذائی اشیاء پر مشتمل کچرے کے لیے ان سے معاوضہ بھی طلب کیا۔ Rub og Stub کے مالکان ان نمائندوں کو راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ انھیں یہ اشیاء عطیہ کریں کیوں کہ ریستوراں کے قیام کا مقصد اپنے لیے نفع کمانا نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں