تصوف کی کرشماتی دنیا
بے شک تقویٰ اختیار کرنے والوں کو مال وحشمت سے کوئی غرض نہیں بس وہ تو رضائے الٰہی کے لیے زیست بسر کرتے ہیں.
بے شک تقویٰ اختیار کرنے والوں کو مال وحشمت سے کوئی غرض نہیں بس وہ تو رضائے الٰہی کے لیے زیست بسر کرتے ہیں یہ صوفی حضرات صبروشکر کو اپنی عادت و خصوصیت بنالیتے ہیں۔
اس دنیا میں بے شمار ولی اللہ گزرے ہیں جنھوں نے جنگلوں کی خاک چھانی اور عبادت و ریاضت اور تبلیغ دین کے لیے زندگیاں بسر کردیں ان ہی بزرگان دین میں حضرت سچل سرمست، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت لال شہباز قلندر اور حضرت معین الدین چشتی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جن کے کرشمات سے دنیا واقف ہے۔
حضرت معین الدین چشتیؒ سے مغلیہ سلطنت کے چوتھے بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کا گہرا تعلق اور عقیدت رہی ہے اکبر بادشاہ نے دین اسلام میں ملاوٹ کی، اور اپنے ہندو دوستوں کی ایما پر ایک نیا مذہب دین الٰہی کی بنیاد رکھی اور اسے مضبوط بنانے کے لیے ''سجدہ تعظیمی'' بھی ضرور قرار دیا۔ اکبر کے حواریوں نے اس کے دل سے شک و شبہ ختم کرنے کے لیے اس بات کا یقین دلایا کہ سجدہ تعظیمی دراصل خدا کو ہی سجدہ کرنا ہے، بادشاہ اس بات سے مطمئن ہوگیا اس طرح ہر عام و خاص بادشاہ اکبر کے سامنے سجدہ کرتے، اکبر کے اس مذہب پر ہندو دھرم کا زیادہ غلبہ تھا، اس کے سامنے آگ بھی جلائی جاتی اور حمدیہ اشعار ترنم کی شکل میں پڑھے جاتے مزید اس نے ہندوؤں کی خوشی کے لیے گائے کا ذبیحہ ناجائز اور حرام قرار دے دیا۔ دیوان خانے میں کسی کی اتنی مجال نہیں تھی کہ وہ کھلم کھلا ادائیگی نماز کے فرائض انجام دے، اکبر بادشاہ اس قدر گمراہ ہوچکا تھا کہ وہ کھلم کھلا مذہب اسلام کا مذاق اڑانے لگا، ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دور کے ایک مشہور شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے، نعوذ باللہ!
بادشاہ امسال دعویٰ نبوت کردہ است
گر خدا خواہد پس ازسالنے خدا خواہد شت
(بادشاہ نے اس سال نبوت کا دعویٰ کیا ہے اگر خدا نے چاہا تو وہ اگلے سال خدا ہوجائے گا)۔
یہ سب کچھ عیار برہمنوں، ابوالفضل فیضی، شیخ مبارک کی کارستانیوں کے نتیجے میں ہورہا تھا یہ لوگ بادشاہ کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔
اکبر نے ادھر ہی حد نہیں کی بلکہ مشہور راجپوت سردار راجہ مان سنگھ کی بہن رانی جودھا بھائی سے شادی کی اور پوجا پاٹ کے لیے محل میں خاص اہتمام مندر کی صورت میں کیا گیا۔
اکبر بادشاہ کی زندگی اس وقت ایک نئے موڑ پر قدم رکھتی ہے جب اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس کے گھر کئی بیٹے پیدا ہوئے لیکن سب مر گئے اور وہ اپنے آپ کو مشکل کشا (نعوذباللہ) کہتا ہے تو وہ اپنی مشکل کیوں نہیں حل کرسکتا ہے؟ اپنے معاملے میں تو وہ بے حد بے بس ثابت ہورہا ہے۔ اس کی اس پریشانی نے اس کے چاہنے والوں کو دکھوں میں مبتلا کردیا تھا آخر ایک دن کسی درباری نے اپنے آپ میں ہمت پیدا کی اور دل کی بات کہہ دی۔
کون ہے وہ؟ حضرت سلیم الدین چشتیؒ، درباری نے جواب دیا اور کہا کہ وہ ہی آپ کا مسئلہ اللہ کے حکم سے حل کرسکیں گے، اور آپ کو ہندوستان کا وارث ضرور مل جائے گا۔ مجھے پورا اعتقاد ہے۔
مغل شہنشاہ کئی دن تک سوچ و استغراق کی کیفیت میں غرق رہا اور ایک دن وہ خاک نشیں درویش کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اور اپنا مدعا بیان کیا۔ اللہ بہتر وارث دینے والا ہے، مگر تو نے تو اپنے رب، اپنے پالن ہار کو فراموش کردیا ہے۔ حضرت شیخ سلیم الدین نے جواب دیا۔
حضرتؒ بہت دیر تک استغراق کے عالم میں رہے، پھر آنکھیں کھول کر فرمایا تو ہندوستان کا حکمراں نہیں، اصل حکمران حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں۔ تو وہاں جا، اللہ اسی در سے تیری مراد پوری کرے گا۔ راہ راست پر آنے والے بادشاہ کو محل کے فتنہ پروروں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی اور اسے کفر کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے اپنی اپنی منطق پیش کرنے لگے لیکن اکبر کا دل جوش ایمانی سے لبریز ہوگیا تھا۔ وہ پیادہ پا فتح پور سیکری سے اجمیر شریف تک جاپہنچا، پیدل چلنے کی وجہ سے شہنشاہ ہند کے پیروں میں چھالے پڑگئے۔ وہاں جاکر بادشاہ نے گریہ و زاری کی اور مزار مبارک کی چادر اپنے سر پر ڈال لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اس کا اضطراب تھم گیا پھر بے قرار دل کو سکون آگیا۔
آخر ایک وہ دن آگیا جب اللہ رب العزت نے اس کی دعا قبول کرلی اور قصر شاہی میں خوشیوں کے نغمے گونجنے لگے دارالحکومت آگرہ روشنیوں سے جگمگانے لگا۔
اکبر اپنے نومولود فرزند کو حضرت سلیم چشتیؒ کی خدمت میں لے گیا، بزرگؒ محترم نے دعا فرمائی جلال الدین اکبر نے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ سے اظہار عقیدت و محبت کے طور پر اپنے بیٹے کا نام بھی سلیم رکھ دیا اور سلیم نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت بادشاہت پر جلوہ گر ہوا جہانگیر اپنی پوری زندگی میں ہندو دھرم کی طرف کبھی راغب نہ ہوا اور یہ اللہ کی مہربانی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت سلیم چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی کا فیضان نظر تھا کہ عیش و طرب میں زندگی گزارتے ہوئے اس نے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نسلی اعتبار سے صحیح النسب سید تھے حضرتؒ 14 رجب 536 ھ کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد خواجہ غیاث الدین، صاحب ثروت تھے۔ وہ جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ بڑا پرآشوب دور تھا ملت اسلامیہ میں موجودہ زمانے کی طرح کئی فرقے پیدا ہوگئے تھے جو بڑی بے دردی کے ساتھ آپس میں ہی جنگ و جدل میں مبتلا تھے۔ حضرت معین الدین چشتیؒ نے قتل و غارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ ان کے بچپن کا زمانہ تھا۔ والد کی وفات کے بعد انھوں نے تمام ذمے داریاں اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھالیں ان کی ماں حضرت بی بی نور نے انھیں اپنی نصیحت آمیز باتوں سے حوصلہ بخشا۔
ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ اتفاق سے ایک مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ خواجہ معین الدینؒ نے بزرگ کو دیکھا تو عقیدت سے ان کا دامن پکڑ لیا، انھوں نے دعائیں دینے کے بعد پوچھا کیا چاہتا ہے؟ حضرتؒ نے ان سے کچھ دیر باغ میں ٹھہرنے کی التجا کی اور اپنے باغ کے انگور تواضح کے لیے پیش کیے۔ حضرت ابراہیمؒ نے انگور کے چند دانے منہ میں ڈال لیے اور فرمایا کہ یہ تروتازہ باغ، پھل، زمین جائیداد سب برباد ہوجائے گا یہی نظام قدرت ہے لیکن اللہ تجھے ایک باغ اور عطا کرے گا جسے باد سموم کبھی نہ جھلسا سکے گی، چنانچہ ان بزرگ نے اپنی جیب سے روٹی کا سوکھا ٹکڑا نکال کر حضرت معین الدینؒ کے منہ میں ڈال دیا اور کہا کہ وہ تیری مہمانی تھی اور یہ میری، یہ کہہ کر وہ رخصت ہوگئے، حضرت نے وہ روٹی کیا کھائی ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ انھوں نے اپنی جائیداد و زمین فروخت کی اور کھڑے کھڑے محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کردی اور خود تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ مشرق کا سفر کیا پھر سمرقند اور بخارا جاکر قرآن پاک حفظ کیا، تفسیر، فقہہ، حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے بے شمار کرامات منسوب ہیں، ہندوستان کے بادشاہ وزراء رعایا، ہندو، مسلمان آپؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور دلی عقیدت رکھتے ہیں پاکستان سے بھی سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو کئی سال قبل آپؒ کے مزار پر جاکر حاضری دے چکے ہیں۔ محض محبت، عقیدت اور امید کے نتیجے میں کہ ان کی دعائیں قبول ہوں گی، بے شک دعائیں قبول ہوتی ہیں، لیکن انسان کی دعائیں اللہ ہی اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ گریہ و زاری کرکے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں مانگتا ہے تو اللہ محروم و مجبور اور پریشان لوگوں کی دعاؤں کو مقبولیت کی سند عطا فرماتا ہے۔
اس دنیا میں بے شمار ولی اللہ گزرے ہیں جنھوں نے جنگلوں کی خاک چھانی اور عبادت و ریاضت اور تبلیغ دین کے لیے زندگیاں بسر کردیں ان ہی بزرگان دین میں حضرت سچل سرمست، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت لال شہباز قلندر اور حضرت معین الدین چشتی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جن کے کرشمات سے دنیا واقف ہے۔
حضرت معین الدین چشتیؒ سے مغلیہ سلطنت کے چوتھے بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کا گہرا تعلق اور عقیدت رہی ہے اکبر بادشاہ نے دین اسلام میں ملاوٹ کی، اور اپنے ہندو دوستوں کی ایما پر ایک نیا مذہب دین الٰہی کی بنیاد رکھی اور اسے مضبوط بنانے کے لیے ''سجدہ تعظیمی'' بھی ضرور قرار دیا۔ اکبر کے حواریوں نے اس کے دل سے شک و شبہ ختم کرنے کے لیے اس بات کا یقین دلایا کہ سجدہ تعظیمی دراصل خدا کو ہی سجدہ کرنا ہے، بادشاہ اس بات سے مطمئن ہوگیا اس طرح ہر عام و خاص بادشاہ اکبر کے سامنے سجدہ کرتے، اکبر کے اس مذہب پر ہندو دھرم کا زیادہ غلبہ تھا، اس کے سامنے آگ بھی جلائی جاتی اور حمدیہ اشعار ترنم کی شکل میں پڑھے جاتے مزید اس نے ہندوؤں کی خوشی کے لیے گائے کا ذبیحہ ناجائز اور حرام قرار دے دیا۔ دیوان خانے میں کسی کی اتنی مجال نہیں تھی کہ وہ کھلم کھلا ادائیگی نماز کے فرائض انجام دے، اکبر بادشاہ اس قدر گمراہ ہوچکا تھا کہ وہ کھلم کھلا مذہب اسلام کا مذاق اڑانے لگا، ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دور کے ایک مشہور شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے، نعوذ باللہ!
بادشاہ امسال دعویٰ نبوت کردہ است
گر خدا خواہد پس ازسالنے خدا خواہد شت
(بادشاہ نے اس سال نبوت کا دعویٰ کیا ہے اگر خدا نے چاہا تو وہ اگلے سال خدا ہوجائے گا)۔
یہ سب کچھ عیار برہمنوں، ابوالفضل فیضی، شیخ مبارک کی کارستانیوں کے نتیجے میں ہورہا تھا یہ لوگ بادشاہ کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔
اکبر نے ادھر ہی حد نہیں کی بلکہ مشہور راجپوت سردار راجہ مان سنگھ کی بہن رانی جودھا بھائی سے شادی کی اور پوجا پاٹ کے لیے محل میں خاص اہتمام مندر کی صورت میں کیا گیا۔
اکبر بادشاہ کی زندگی اس وقت ایک نئے موڑ پر قدم رکھتی ہے جب اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس کے گھر کئی بیٹے پیدا ہوئے لیکن سب مر گئے اور وہ اپنے آپ کو مشکل کشا (نعوذباللہ) کہتا ہے تو وہ اپنی مشکل کیوں نہیں حل کرسکتا ہے؟ اپنے معاملے میں تو وہ بے حد بے بس ثابت ہورہا ہے۔ اس کی اس پریشانی نے اس کے چاہنے والوں کو دکھوں میں مبتلا کردیا تھا آخر ایک دن کسی درباری نے اپنے آپ میں ہمت پیدا کی اور دل کی بات کہہ دی۔
کون ہے وہ؟ حضرت سلیم الدین چشتیؒ، درباری نے جواب دیا اور کہا کہ وہ ہی آپ کا مسئلہ اللہ کے حکم سے حل کرسکیں گے، اور آپ کو ہندوستان کا وارث ضرور مل جائے گا۔ مجھے پورا اعتقاد ہے۔
مغل شہنشاہ کئی دن تک سوچ و استغراق کی کیفیت میں غرق رہا اور ایک دن وہ خاک نشیں درویش کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اور اپنا مدعا بیان کیا۔ اللہ بہتر وارث دینے والا ہے، مگر تو نے تو اپنے رب، اپنے پالن ہار کو فراموش کردیا ہے۔ حضرت شیخ سلیم الدین نے جواب دیا۔
حضرتؒ بہت دیر تک استغراق کے عالم میں رہے، پھر آنکھیں کھول کر فرمایا تو ہندوستان کا حکمراں نہیں، اصل حکمران حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں۔ تو وہاں جا، اللہ اسی در سے تیری مراد پوری کرے گا۔ راہ راست پر آنے والے بادشاہ کو محل کے فتنہ پروروں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی اور اسے کفر کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے اپنی اپنی منطق پیش کرنے لگے لیکن اکبر کا دل جوش ایمانی سے لبریز ہوگیا تھا۔ وہ پیادہ پا فتح پور سیکری سے اجمیر شریف تک جاپہنچا، پیدل چلنے کی وجہ سے شہنشاہ ہند کے پیروں میں چھالے پڑگئے۔ وہاں جاکر بادشاہ نے گریہ و زاری کی اور مزار مبارک کی چادر اپنے سر پر ڈال لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اس کا اضطراب تھم گیا پھر بے قرار دل کو سکون آگیا۔
آخر ایک وہ دن آگیا جب اللہ رب العزت نے اس کی دعا قبول کرلی اور قصر شاہی میں خوشیوں کے نغمے گونجنے لگے دارالحکومت آگرہ روشنیوں سے جگمگانے لگا۔
اکبر اپنے نومولود فرزند کو حضرت سلیم چشتیؒ کی خدمت میں لے گیا، بزرگؒ محترم نے دعا فرمائی جلال الدین اکبر نے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ سے اظہار عقیدت و محبت کے طور پر اپنے بیٹے کا نام بھی سلیم رکھ دیا اور سلیم نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت بادشاہت پر جلوہ گر ہوا جہانگیر اپنی پوری زندگی میں ہندو دھرم کی طرف کبھی راغب نہ ہوا اور یہ اللہ کی مہربانی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت سلیم چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی کا فیضان نظر تھا کہ عیش و طرب میں زندگی گزارتے ہوئے اس نے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نسلی اعتبار سے صحیح النسب سید تھے حضرتؒ 14 رجب 536 ھ کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد خواجہ غیاث الدین، صاحب ثروت تھے۔ وہ جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ بڑا پرآشوب دور تھا ملت اسلامیہ میں موجودہ زمانے کی طرح کئی فرقے پیدا ہوگئے تھے جو بڑی بے دردی کے ساتھ آپس میں ہی جنگ و جدل میں مبتلا تھے۔ حضرت معین الدین چشتیؒ نے قتل و غارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ ان کے بچپن کا زمانہ تھا۔ والد کی وفات کے بعد انھوں نے تمام ذمے داریاں اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھالیں ان کی ماں حضرت بی بی نور نے انھیں اپنی نصیحت آمیز باتوں سے حوصلہ بخشا۔
ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ اتفاق سے ایک مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ خواجہ معین الدینؒ نے بزرگ کو دیکھا تو عقیدت سے ان کا دامن پکڑ لیا، انھوں نے دعائیں دینے کے بعد پوچھا کیا چاہتا ہے؟ حضرتؒ نے ان سے کچھ دیر باغ میں ٹھہرنے کی التجا کی اور اپنے باغ کے انگور تواضح کے لیے پیش کیے۔ حضرت ابراہیمؒ نے انگور کے چند دانے منہ میں ڈال لیے اور فرمایا کہ یہ تروتازہ باغ، پھل، زمین جائیداد سب برباد ہوجائے گا یہی نظام قدرت ہے لیکن اللہ تجھے ایک باغ اور عطا کرے گا جسے باد سموم کبھی نہ جھلسا سکے گی، چنانچہ ان بزرگ نے اپنی جیب سے روٹی کا سوکھا ٹکڑا نکال کر حضرت معین الدینؒ کے منہ میں ڈال دیا اور کہا کہ وہ تیری مہمانی تھی اور یہ میری، یہ کہہ کر وہ رخصت ہوگئے، حضرت نے وہ روٹی کیا کھائی ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ انھوں نے اپنی جائیداد و زمین فروخت کی اور کھڑے کھڑے محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کردی اور خود تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ مشرق کا سفر کیا پھر سمرقند اور بخارا جاکر قرآن پاک حفظ کیا، تفسیر، فقہہ، حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے بے شمار کرامات منسوب ہیں، ہندوستان کے بادشاہ وزراء رعایا، ہندو، مسلمان آپؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور دلی عقیدت رکھتے ہیں پاکستان سے بھی سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو کئی سال قبل آپؒ کے مزار پر جاکر حاضری دے چکے ہیں۔ محض محبت، عقیدت اور امید کے نتیجے میں کہ ان کی دعائیں قبول ہوں گی، بے شک دعائیں قبول ہوتی ہیں، لیکن انسان کی دعائیں اللہ ہی اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ گریہ و زاری کرکے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں مانگتا ہے تو اللہ محروم و مجبور اور پریشان لوگوں کی دعاؤں کو مقبولیت کی سند عطا فرماتا ہے۔