انسانی دماغ کی بھول بھلیاں

کچھ عرصے پہلے ایک انڈین فلم بھول بھلیاں دیکھی تھی جس میں مرکزی کردار آونی جو کہ ودیا بالن نبھا رہی تھیں.


Shayan Tamseel October 26, 2013
[email protected]

کچھ عرصے پہلے ایک انڈین فلم بھول بھلیاں دیکھی تھی جس میں مرکزی کردار آونی جو کہ ودیا بالن نبھا رہی تھیں، پرسنالٹی ڈس آرڈر کے مرض میں مبتلا ہوتی ہے۔ کہانی کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ آونی جو لندن میں رہتی ہے اپنے شوہر سدھارتھ کے ہمراہ انڈیا واپس آتی ہے، جہاں اس کے شوہر کی ایک بڑی حویلی ہے۔ اس حویلی سے کئی پراسرار کہانیاں منسلک ہوتی ہیں اور مشہور تھا کہ وہاں بھوت بسیرا کرتے ہیں۔ نئے شادی شدہ جوڑے کو اس حویلی میں آنے کے بعد محیر العقول قسم کے حالات کا سامنا ہوتا ہے، کئی پراسرار واقعات پیش آتے ہیں اور کہانی کا تانا بانا اسی اسرار میں ڈوبا آگے بڑھتا ہے۔ چونکہ ہمارا مطمع نظر قارئین کو فلم کا خلاصہ پیش کرنا نہیں اس لیے فلم کی تفریحاتی جزئیات کو چھوڑتے ہوئے اصل نقطے پر آتے ہیں۔ فلم میں اکشے کمار نے ایک ماہر نفسیات کا کردار ادا کیا ہے لیکن ابتدائی حصے میں وہ ایک لاابالی اور مخبوط الحواس شخص نظر آتے ہیں۔

حقیقی زندگی میں بھی آپ کو کئی ماہر نفسیات ایسے ہی ملیں گے جنھیں دیکھ کر آپ کو شبہ ہوگا کہ وہ خود مریض ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خارق العادات قوتوں کے حامل افراد اپنے آپ کو سات پردوں میں چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس طرح فلم سپرمین میں مرکزی کردار بے پناہ قوتوں کا حامل ہونے کے باوجود ایک اخبار میں معمولی رپورٹر کی جاب کر رہا ہوتا ہے اور اپنے حلیے سے ایک کند ذہن شخص نظر آتا ہے تاکہ عام لوگ اس کی جانب بالکل بھی متوجہ نہ ہوں اور وہ خاموشی سے فلاح انسانی کے کاموں میں مشغول رہ سکے، میں خود اپنی زندگی میں ایسے لوگوں سے مل چکا ہوں جن کی شخصیت بظاہر قابل توجہ نہیں ہوتی لیکن ان میں کیا جواہر چھپے ہوتے ہیں یہ آزمانے کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔

بات ہورہی تھی فلم بھول بھلیاں کی... کہانی میں آگے جاکر علم ہوتا ہے کہ آونی ایک نفسیاتی مریضہ ہے اور پرسنالٹی ڈس آرڈر کے تحت ایک دوسری شخصیت بنگالی حسینہ منجولیکا کو اپنے اوپر طاری کرلیتی ہے، ایسے میں وہ اپنی اصل شخصیت بھلا دیتی ہے اور وہ زبان بولنے لگتی ہے جس سے وہ اصل زندگی میں ناواقف ہوتی ہے۔ کہانی آگے بڑھتی ہے اور ماہر نفسیات اس کے علاج کے لیے ایک انوکھا طریقہ کار اختیار کرتا ہے، بعد ازاں اسے ہپناٹائز کرکے معمول کی زندگی کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ چونکہ یہ ایک فلم ہے اس لیے حقیقت سے ہٹ کر کافی کچھ ڈرامائی تھا اور ہپناٹزم اور نفسیاتی علاج میں بھی فینٹیسی زیادہ دکھائی گئی۔ لیکن موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اس کی جزئیات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اصل زندگی اور فلموں میں زیادہ فرق اس لیے بھی نہیں ہوتا کہ کہانیاں معاشرے سے ہی اخذ کی جاتی ہیں، بس ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے ڈرامائی انداز اختیار کیا جاتا ہے اور حقیقی زندگی کے برعکس موڑ پیش کیے جاتے ہیں۔

معمول سے ہٹ کر آج کالم میں فلم کا تذکرہ محض اس نفسیاتی مرض کی وجہ سے آیا ہے۔ جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہے وہ باآسانی سمجھ گئے ہوں گے، چونکہ کالم کی جگہ مختصر ہوتی ہے اس لیے مکمل خلاصہ پیش کرنا ممکن نہیں۔ پرسنالٹی ڈس آرڈر کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ایک گزشتہ کالم میں ہسٹریا کا تذکرہ کیا تھا۔

مرض کی ایک قسم Hysterical Fugues بھی ہے، اس کیفیت کے زیر اثر مریض اچانک اپنی شخصیت کو بدل لیتا ہے اور پچھلی زندگی فراموش کرکے، دور کہیں جا کر نیا طرز زندگی اختیار کرلیتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ تک کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ ہسٹریا کے زیر اثر پرانی شخصیت کو قطعاً بھول جانے اور نئی شخصیت کے بروئے کار آجانے کو ''ہسٹریکل فیوگ'' کہتے ہیں، اس کی ایک خاص قسم ہے ''خواب خرامی'' (Sobnambulism) یعنی سوتے میں چلنا۔ اس کیفیت کے زیر اثر مریض سوتے میں چلتا، پھرتا، کام کاج کرتا ہے اور پھر آکر بستر پر غافل ہوجاتا ہے، جاگنے پر اسے یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ سوتے میں کیا کیا کارنامے انجام دے چکا ہے۔ اس کی نفسیاتی تشریح یہ ہے کہ لاشعور کا ایک حصہ شعور سے کٹ کر آزادانہ عمل کرنے لگتا ہے اور شعور وقتی طور پر زائل ہوجاتا ہے۔ لاشعور کی دبی ہوئی جذباتی تحریک جس قدر پرزور ہوگی شعور اس کی مقاومت اتنی ہی کم کرے گا اور جب مقاومت کا بالکل ہی امکان نہ رہے گا تو ہتھیار ڈال دے گا۔

شعور کی اس سپر اندازی کے نتیجے میں نئی شخصیت وجود میں آجاتی ہے جس پر لاشعور کی مکمل گرفت ہوتی ہے۔ اس قسم کے اقدامات کی چھوٹی موٹی مثالیں روزانہ کی عملی زندگی میں بھی ملتی ہیں مثلاً ماں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ بچہ جب روئے گا تو وہ جاگ جائے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے، ورنہ لوگ کتنا ہی شور مچاتے جائیں ماں پڑی خراٹے لیتی رہتی ہے، البتہ بچے کے ذرا کلبلانے اور رونے پر جاگ جاتی ہے۔ اکثر لوگ اپنے لاشعور کو تربیت دے کر اس قسم کے کاموں پر قادر ہوسکتے ہیں۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے، جس کا ذکر میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم دماغی الارم کلاک میں کیا تھا کہ اگر میں سو کر اٹھنے کے لیے کوئی وقت مقرر کرلوں تو میرا لاشعور ٹھیک مجھے اس وقت اٹھا دیتا ہے۔

ہسٹریا کی کیفیات اور مظاہر مثلاً دماغی دورے میں بینائی زائل ہوجانا، گونگا ہوجانا، پورے جسم یا کسی حصہ جسم کا شل ہوجانا، اپنی اصلی شخصیت کو فراموش کرکے کسی دوسری شخصیت کا روپ دھار لینا، سوتے میں چلنا، مختلف کام کرنا اور بیداری کے بعد اس سرگزشت کو فراموش کردینا، ہسٹریا کے یہ تمام مظاہر درحقیقت ایک طرح تنویمی مظاہر ہیں، تنویمی کیفیت میں معمول بھی ترغیب پذیری کے سبب ان تمام کیفیتوں کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ وہ ترغیب و تلقین کے سبب اندھا، گونگا اور بہرا ہوجاتا ہے، اس کا تمام جسم اکڑ جاتا ہے، عامل کی ہدایت یا اپنی ترغیب سے نصف حصہ جسم متحرک اور نصف حصہ جسم شل ہوسکتا ہے۔ الغرض تنویمی ترغیبات سے آپ معمول کو اس طرح استعمال کرسکتے ہیں جس طرح شاطر اپنے مہروں اور کمہار اپنے چاک کی مٹی کو استعمال کرتا ہے۔

اکثر لوگ اپنی ای میل میں فرمائش کرتے ہیں اس موضوع پر کچھ کتابوں کا تذکرہ کروں، جن کے مطالعے سے قارئین کی تشنگی بجھ سکے۔ پہلی بات تو یہ کہ نفسیات ومابعد نفسیات کے موضوع پر اردو میں کتابیں بہت ہی کم ہیں، اور جو ہیں وہ بھی چربہ ہیں یا اصل حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، بعض مصنفین نے اصل موضوع کے ساتھ اپنے ذاتی نظریات کو خلط ملط کرکے حقائق کو مسخ کردیا ہے یا تبلیغ کی خاطر (اسے اسلامی تبلیغ نہ سمجھیں) موضوع کا دھارا کسی اور جانب موڑنے کی کوشش کی ہے۔ ذاتی طور پر ہمیں رئیس امروہوی مرحوم کی کتابیں ہی مناسب لگتی ہے، اگر آپ لوگ کوشش کریں تو اردو بازار، کراچی میں رئیس اکیڈمی کی مطبوعات پرانی کتابوں میں تلاش کرسکتے ہیں، ہم بھی اپنے کالموں میں ان کتابوں سے اقتباس پیش کرتے رہیں گے اور جو لوگ انگریزی زبان سمجھنے پر قادر ہیں ان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ آپ صرف سگمنڈ فرائیڈ کو پڑھ لیں کافی اسرار سمجھ آجائیں گے۔

(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

(www.facebook.com/shayan.tamseel

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں