کھوٹا سسٹم

خالی پیٹ شریف اور پیٹ بھر کمینہ آدمی یکساں خطرناک ہوتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس وقت کیا کر گزریں.

خالی پیٹ شریف اور پیٹ بھر کمینہ آدمی یکساں خطرناک ہوتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس وقت کیا کر گزریں۔ اگر خالی پیٹ شریف آدمی پڑھا لکھا بھی ہے تو اس کو ''اخلاقیات عالیہ'' کا سبق پڑھانے سے بہتر تو یہی ہے کہ ایک نوک دار صحت مند پتھر اپنے متھے پر دے ماریں۔ ذرا تصورکیجیے کہ اگر کسی ملک کے سارے کمینے پیٹ بھرے ہوں اور سارے شریف بھوکے تو اس ملک کی کیا درگت بنے گی۔ یہ جاننے کے لیے ادھر ادھر تاکنے، جھانکنے، تاڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اپنا ملک پاکستان ہے نا ! یہ نوبت اس وقت آتی ہے جب ملک سے میرٹ کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دھوم سے نکلا یا بوری میں بند۔

پچھلی صدی کی ستر کی دہائی میں صوبہ سندھ میں دیہی شہری کی بنیاد پر (بخدا لسانی بنیاد پر ہرگز نہیں) کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ دیہی طلبا کو چونکہ وہ تعلیمی سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو شہری طلبا کو حاصل ہیں اس لیے دس سال تک دیہی طلبا کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت رعایت حاصل ہوگی۔ اگر اس پر خلوص نیت کے ساتھ عمل کیا جاتا (اسکول میں لیبارٹری اور لائبریری کی سہولت مہیا کرکے اور باہر طلبا کی آمدورفت کے لیے سڑکوں کا جال بچھا کے) تو 10 سال میں نہیں تو 20 سال میں یہ مقصد حاصل ہوجاتا۔ جب کہ 40 سال بعد بھی دیہی طلبا کا معیار شہری طلبا کے برابر نہیں ہوا۔ ان حالات میں آئندہ سو سال بعد بھی دیہی شہری طلبا کا معیار تعلیم برابر ہونے کی گارنٹی کون دے گا؟ کیونکہ 40 سال پہلے بھی اسکولوں میں بھینسیں باندھی جاتی تھیں آج بھی باندھی جارہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ''کھوٹا سسٹم'' کا راج ہوتے ہوئے کوٹہ سسٹم نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتا۔ اب رہا بھینسوں کا معاملہ تو بھینسیں چاہے اسکول میں باندھی جائیں یا یونیورسٹی میں، بھینسیں بھینسیں ہی رہتی ہیں۔

خر عیسیٰ اگر تا مکہ رود

چوں بیاید ہنوز خر باشد


یہی وجہ ہے 40 سال بعد بھی قسم کھانے کے لیے ہی سہی ایک بھی کمی بی کام، ہاری ایڈووکیٹ یا کمین MBBS نظر نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ دیہی طلبا کا معیار تعلیم بلند کرنے کے لیے جو فنڈز دیے گئے وہ کہاں گئے؟ اگر نہیں دیے گئے تو کیا دیہی شہری فرق اور کوٹہ سسٹم ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے؟ دیہی سندھ میں Status Quo کا راج کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ البتہ شہری سندھ خاص کر کراچی میں نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے جیسے شہری طلبا کا حق مار کر دیہی طلبا کو نوازا گیا ہے۔ لیکن معاملہ کچھ اور ہے۔ دیہی سندھ کی حالت جہاں تھی جیسی تھی آج بھی ویسی ہی ہے۔ البتہ شہری طلبا کو تعلیمی اداروں سے دھکیل کر سڑکوں پر لایا گیا ہے۔ اب کل کے میرٹ بردار آج کے ٹی ٹی بردار، زندگی بھر آگے آگے اور پولیس ان کے پیچھے بھاگتی رہے گی۔ اس طرح جاگیرداروں کو تعلیم کی شرانگیزی سے دیہات کے ساتھ ساتھ شہروں سے بھی نجات مل گئی۔ آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ جوں ہی چوراہے پر ریڈ سگنل کی وجہ سے یا ٹریفک جام کے سبب ٹرانسپورٹ رک جاتی ہے ٹی ٹی بردار سڑکوں پر پھیل جاتے ہیں۔ جوں ہی ٹی ٹی سے کار کا شیشہ بجایا فوراً شیشہ نیچے آیا، ایک ہاتھ باہر نکلا جس کی ہتھیلی پر ایک پرس اور موبائل رکھا ہے۔

ٹی ٹی بردار پرس اور موبائل لے کر خالی ہاتھ واپس کردیتا ہے۔ پھر احتیاطاً جھانک کر دیکھ لیتا ہے کہ کار میں جتنی سواریاں ہیں اتنے پرس اور موبائل ہیں کہ نہیں۔ کہیں شرافت کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ پھر وہ آگے بڑھ جاتا ہے کیونکہ اس کا ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے یعنی چار پرس اور چار موبائل کے برابر۔ اب معمول یہ ہے کہ جب یہ روزمرہ کا معمول ہے تو ہماری پولیس کیا کر رہی ہے؟ اس کا گول مول جواب یہ ہے کہ ان کا وقت بھی قیمتی ہوتا ہے۔تعلیم کے تعلق سے پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے حکمران علم دوست نہیں نہ یہاں کا معاشرہ۔ پھر ماحول علم دوست کیسے ہوسکتا ہے؟ میرا تعلق برصغیر کی امیر ترین ریاست، نوابوں، جاگیرداروں کی سرزمین حیدر آباد دکن سے ہے۔ جہاں کے حکمراں نظام سابع کی علم دوستی کا ادنی ثبوت یہ ہے کہ آج سے تقریباً 70 سال پہلے جب میں نے مدرسہ تحتانیہ اسکول کی اول جماعت میں داخلہ لیا تھا اس وقت ریاست کا ذریعہ تعلیم ایک (اردو) تھا، درسی نصاب ایک تھا، اسکول سب کے سب سرکاری تھے، سارے سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اردو رائج تھی۔

اسکولوں میں جاگیردار کا بیٹا ہو یا دکاندار کا یکساں سلوک کیا جاتا تھا۔ عثمانیہ اردو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز، انجینئرز کی بیرون ملک ساکھ بھی تھی اور دھاک بھی۔آج بھی میں مدرسہ تحتانیہ کا زمانہ یاد کرتا ہوںتو ذہن میں خوبصورت یادوں، حسیں ماحول کی کہکشاں جگمگانے لگتی ہے۔ گھنے دیو قامت درختوں سے گھری عمارت، رنگ برنگے پھول، چہچہاتے پرندے، فضا میں تھرکتی تتلیاں، حوض، رم جھم کرتے فوارے، سطح آب پر لہراتے کنول کے سرخ ، پیلے، سفید پھول، روشن ہوادار جماعتیں (کلاسیں) آرام دہ کرسیاں، دیواروں پر فریموں میں لگی بچوں کی بنائی ہوئی حکیم لقمان کی سبق آموز حکایتوں پر مبنی تصاویر (جو ہر سال بدل جاتی تھیں) قومی لباس شیروانیوں، ڈھیلے پاجاموں میں ملبوس، سر پر پھندنے والی ترکی اوڑھے نرم مزاج، نرم گفتار اساتذہ۔ آج کے ماحول کے تعلق سے حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ تقریباً سارے تحتانوی مدرسہ معہ فرنیچر نوابوں، جاگیرداروںنے تحفتاً دیے ہوئے تھے شاید اس لیے کہ ان کے بچے بھی ان ہی اسکولوں میں پڑھنے کے پابند تھے، دوسرا کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔

صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں تین اقسام کے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔A:وڈیرہ شاہی اسکول سسٹم: ان اسکولوں میں بچہ تو بچہ، بچے کا باپ بھی داخل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان اسکولوں سے بچوں کے ہنسنے بولنے، چیخنے چلانے باآواز بلند آموختہ پڑھنے کی آوازیں نہیں آتیں بلکہ بھینسوں کے ڈکرانے کی، چارہ کاٹنے والی مشین کے چلنے کی، دودھ کے برتنوں کے آپس میں ٹکرانے کی آوازیں آتی ہیں۔ B:گھوسٹ اسکول سسٹم: ان اسکولوں میں انسانوں اور بھوتوں کی مخلوط تعلیم ہوتی ہے۔ ان اسکولوں میں داخلے کے لیے انسانوں میں 25 فیصد بھوتوں کی خصلتیں، اور بھوتوں میں 25 فیصد انسانوں کی خباثتیں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ اسکول زمین پر ہوتے ہیں نہ آسمان پر، اس لیے ان کو سالانہ آڈٹ سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔C: ٹھاٹ باٹ ٹاٹ اسکول: یہی وہ ٹاٹ نشین طلبا ہیں جو کوٹہ سسٹم کے صحیح حقدار ہیں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ دیہی علاقوں کے ''بڑوں کے بچے'' کراچی کے اسکولوں میں پڑھ کر سیکنڈ ڈویژن (45%) پاس ہوتے ہیں اور دیہی ڈومیسائل پر میڈیکل میں داخلہ لیتے ہیں کراچی کے طلبا 270 نمبر لے کر بھی داخلے سے محروم رہتے ہیں اور ٹاٹ نشین طلبا 45% سیکنڈ ڈویژن کے نمبر بھی نہیں لاپتے کیونکہ گاؤں سے طویل فاصلہ پیدل طے کرکے تعلقہ/ضلع اسکول تک پہنچتے پہنچتے آدھے خرچ ہوجاتے ہیں اور بقیہ آدھے واپس گھر آتے آتے۔ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے کو کچھ بچتا ہی نہیں۔

دیہی سندھ میں 7500 گھوسٹ اسکول چل رہے ہیں جو صفحہ قرطاس پر تو ہیں لیکن صفحہ ہستی پر ناپید۔ اس طرح قومی خزانے پر تعلیم کے نام پر اربوں روپے کا ڈاکا ڈالا جارہا ہے اور 37 لاکھ 50 ہزار بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس اسکینڈل میں ہزاروں افراد ملوث ہیں۔ ان سے تعلیمی سہولتوں میں بہتری لانے کی توقع کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے۔ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے علم دوست معاشرے کی ضرورت ہے جو ''کھوٹا'' سسٹم کے ہوتے ہوئے تو ممکن نہیں۔ اس کے لیے پہلے کھوٹے سسٹم کو ختم کرنا پڑے گا اس کے بعد جب علم دوست معاشرہ وجود میں آجائے گا تو کوٹہ سسٹم کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ہر طرف میرٹ کا چلن ہوگا۔ ورنہ طویل عرصے کی حقیقتیں مختصر عرصے کے منصوبوں کو ملیا میٹ کرتی رہیں گی۔
Load Next Story