کرکٹ کے بگڑے شہزادے

مصباح خود میچ بناتے ہیں اور جب حریف پریشر میں آجائے تو وکٹ گنوا کر ٹیم کو دوبارہ دباؤ میں لے آتے ہیں، سلیم ملک


سلیم ملک October 27, 2013
بال ٹیمپرنگ آج سے نہیں بلکہ 1970ء کی دہائی سے ہو رہی ہے، سلیم ملک

جنوری 1984ء میں قومی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر تھی، سڈنی ٹیسٹ میں کپتان عمران خان سمیت محسن خان، قاسم عمر اورجاوید میانداد جیسے منجھے ہوئے بیٹسمین معمولی اسکور بنا کر پویلین کی راہ دیکھ چکے، ٹیم کا جونیئر کھلاڑی ہونے کے باوجود میں نے کینگروز کی سرزمین پر آسٹریلوی بولرزکا خوب مقابلہ کیا اورگرائونڈ کے چاروں اطراف شاندار شاٹس کھیلتے ہوئے نہ صرف ٹیم کے ٹوٹل میں خاطر خواہ اضافہ کیا بلکہ نصف سنچری بھی بنانے میں کامیاب رہا، 54کے انفرادی اسکور پر دوسرے بیٹسمینوں کی طرح میں بھی پل شاٹ کھیلتے ہوئے اپنی وکٹ گنوا بیٹھا، دل ہی دل میں خوش تھا کہ بڑے ناموں کے ناکام ہونے کے باوجود کینگروز کے خلاف اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہا لیکن میرے خواب اس وقت کرچی کرچی ہوگئے جب ڈریسنگ روم میں قدم رکھتے ہی عمران خان مجھ پر برس پڑے،کپتان کا موقف تھا کہ جب تم وکٹ پر سیٹ ہو گئے تو پل شاٹ کی کیا ضرورت تھی۔

اس میچ میں قومی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کا نزلہ مجھ پر گراتے ہوئے ٹیم میٹنگ میں آئندہ7 میچز سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا، اس صورتحال سے میں خاصا مایوس ہوا لیکن آنے والے وقت میں یہ سزا میرے لیے سبق بن گئی، انٹرنیشنل مقابلوں کے دوران کوئی بھی غلط شاٹ کھیلنے سے پہلے کئی بار ماضی کی سزا کے بارے میں ضرور سوچتا، مجھے خوشی ہے کہ میرے چاہنے والے قارئین کالمز پر اچھا فیڈ بیک دے رہے ہیں، میں انہی سے یہ پوچھتا ہوں کہ دبئی ٹیسٹ میں کتنے بیٹسمین ایسے ہیں جنھوں نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کی،اگر انصاف کے ترازو میں تولا جائے تو چند ایک کے سوا متعدد بیٹسمین اپنے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے اور پہلی کی طرح دوسری اننگز میں بھی وہی غلطی دہرائی۔ مصباح الحق کو ہی لے لیں، بلاشبہ انھوں نے مشکل حالات میں88 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی لیکن جس انداز میں وہ غلط اسٹروک کھیل کر آئوٹ ہوئے ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں یہ بہت بڑا جرم ہے، ایسا شاٹ تو صرف ٹوئنٹی20 یا ایک روزہ میچز کے آخری اوورز میںکھیلا جاتا ہے۔

ویسے مصباح کی بھی عجیب نفسیات ہے، پہلے خود میچ بناتے اور جب حریف ٹیم پریشر میں آنے لگے تو وکٹ گنوا کر اپنی ہی ٹیم کو دوبارہ دبائو میں لے آتے ہیں، سچ ہر کسی کو کڑوا لگتا ہے، 128 ایک روزہ میچز کھیل کر بھی وہ ابھی تک سنچری کیوں نہیں بنا سکے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی سوچ ہی بس یہی ہے کہ اپنے لیے کھیلو، ٹیم کا چاہے جو بھی ہو۔ سینئر ہونے کے ناطے میری مصباح کو نصیحت ہے کہ خود بھی کھیلو اور دوسروں کو بھی کھلائو۔ سچ کہوں تو کمزور ٹیم مینجمنٹ کے ناتواں فیصلوں کی وجہ سے کھلاڑیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ بُرا کھیل کر بھی ملکی ٹیم کی نمائندگی ہم کو ہی کرنی ہے تو اچھا کھیلنے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹیم میں ایسے پلیئرز کی کمی نہیں جو 1،2 میچز میں اچھا پرفارم کر کے مستقبل کے 10، 12 میچز میں جگہ پکی کر لیتے ہیں۔ میرا سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کو مشورہ ہے کہ عمران خان کی پالیسی پر عمل کریں اور بار بار غلطی دہرانے والے کھلاڑیوںکو سزا کے طور پر چند میچز کیلیے ڈراپ کر دیں پھر دیکھیں کہ دوسرے بیٹسمین بھی غلط شاٹس کھیلنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

دبئی ٹیسٹ کئی یادیں چھوڑ کر ختم ہو گیا، ڈوپلیسس اور فلینڈر کے بعد مورکل بھی بال ٹیمپرنگ کرتے ہوئے پکڑے گئے، ایک ہی ٹیسٹ میں گیند سے چھیڑ چھاڑکی ہیٹ ٹرک مکمل ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ کپتان گریم اسمتھ کی ٹیم پر گرفت مضبوط نہیں یا وہ دانستہ طور پر ایسا کر رہے ہیں، ڈوپلیسس کو بہت کم سزا سنائی گئی، اس جرم میں شریک تمام کھلاڑیوں کے ساتھ گریم اسمتھ پر بھی کم از کم 4 سے5میچزکی پابندی ضرور عائد کرنی چاہیے تھی، ویسے آپس کی بات ہے کہ جنوبی افریقی بولرز نے کون سا انوکھا کام کیاکہ ہر طرف شور مچا ہوا ہے، بال ٹیمپرنگ آج سے نہیں بلکہ 1970ء کی دہائی سے ہو رہی ہے، یہ فن پاکستان سے دیگر ٹیموں میں کیسے منتقل ہوا،کون کون سے پاکستانی بولرز ریورس سوئنگ کے نام پر بال ٹیمپرنگ کرتے رہے،کون کون بوتل کے ڈھکن سے گیند خراب کرتا رہا، یہ تمام انکشاف اپنے اگلے کالم میں کروں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں