فروغ نسیم لائسنس بحالی کے بعد پاکستان بار کونسل کی رکنیت سے مستعفی
فروغ نسیم سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کی حیثیت سے پیش
پاکستان بار کونسل نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا لائسنس بحال کردیا تاہم کچھ ہی دیر بعد انہوں نے پاکستان بار کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فروغ نسیم نے پاکستان بار کونسل کو وکالت کا لائسنس بحال کرنے کی درخواست کی تھی جس پر ان کا لائسنس بحال کردیا گیا ہے۔
وکالت کا لائسنس بحال ہونے کے بعد فروغ نسیم سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے۔
لائسنس کی بحالی کے کچھ ہی دیر بعد فروغ نسیم نے پاکستان بار کونسل کی رکنیت سے استعفی دے دیا،فروغ نسیم کے استعفے کے باعث پاکستان بارکونسل کی سندھ کی نشست خالی ہوگئی۔ نشست خالی ہونے کے باعث ایڈوکیٹ یاسین آزاد کواس نشست پررکن مقررکردیا گیا، اٹارنی جنرل آفس نے فروغ نسیم کے استعفے اور یاسین آزاد کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آرمی چیف کی طرف سے سابق وزیر قانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم پاکستان بار کونسل کے اعتراض پر آرمی چیف کے حق میں زیادہ تر دلائل اور کیس کی تقریباً پیروی اٹارنی جنرل نے ہی کی تھی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فروغ نسیم نے پاکستان بار کونسل کو وکالت کا لائسنس بحال کرنے کی درخواست کی تھی جس پر ان کا لائسنس بحال کردیا گیا ہے۔
وکالت کا لائسنس بحال ہونے کے بعد فروغ نسیم سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے۔
لائسنس کی بحالی کے کچھ ہی دیر بعد فروغ نسیم نے پاکستان بار کونسل کی رکنیت سے استعفی دے دیا،فروغ نسیم کے استعفے کے باعث پاکستان بارکونسل کی سندھ کی نشست خالی ہوگئی۔ نشست خالی ہونے کے باعث ایڈوکیٹ یاسین آزاد کواس نشست پررکن مقررکردیا گیا، اٹارنی جنرل آفس نے فروغ نسیم کے استعفے اور یاسین آزاد کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آرمی چیف کی طرف سے سابق وزیر قانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم پاکستان بار کونسل کے اعتراض پر آرمی چیف کے حق میں زیادہ تر دلائل اور کیس کی تقریباً پیروی اٹارنی جنرل نے ہی کی تھی۔