پنجاب میں گڈ گورننس کا ایشو
آج بیورو کریسی تاریخ کے تلخ ترین تجربات سے گزر رہی ہے۔
لکھنا تو ''بڑوں '' کی آپسی قانونی لڑائی پر تھا مگر اس بے ہنگم سیاسی دنیا میں ایک اچھی خبر بھی آن ٹپکی ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی کا جمود توڑنے کے لیے اعلیٰ اور ایماندار کیریئر رکھنے والے افسروںکی خدمات لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں سیکریٹری داخلہ میجر (ر)اعظم سلیمان خان کو نیا چیف سیکریٹری پنجاب تعینات کردیاہے۔
چلیں! دیر آئید درست آئید کے مصداق بیوروکریسی کو ٹھیک کرنے کا خیال حکومت کے قائم ہونے کے سوا سال بعد آیا تو صحیح! ورنہ تو جب سے حکومت قائم ہوئی تھی ڈھنگ کا کوئی ایک کام بھی نہیں کیا جاسکا تھا۔ اُوپر سے بیوروکریسی کے عدم تعاون نے ان کے لیے جو مسائل کھڑے کیے ہیں۔
اُس کا ادراک ہی ابھی تک انھیں نہیں ہورہا، انتظامی سطح پرپیدا ہونے والے مسائل سے نمٹناموجودہ حکمرانوں کے بس میں نہیں، جس قسم کی بدحواسیوں اور بدانتظامیوں کے روز مظاہرے ہورہے تھے پونے چار برس تو دورکی بات ہے آج اگر اپوزیشن کے مطالبے پر یا مطالبے کے بغیر ہی الیکشن اناؤنس ہو جائیں میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں پی ٹی آئی آٹے میں نمک کے برابر سیٹیں بھی نہیں جیت سکے گی، جب کہ ہمارے خان صاحب کے اردگرد جو لوگ ہیں وہ مسلسل انھیں یہ یقین دلارہے ہیں کہ جو زبردست کارنامے وہ کررہے ہیں اُن کے بل بوتے پر آیندہ الیکشن دو تہائی اکثریت سے خود ہی جیت لیں گے!
خیر بات ہورہی تھی میجر (ر) اعظم سلیمان خان کی۔ یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اوروزیر اعظم عمران خان کی حالیہ تین ملاقاتوں کے بعد کیا گیا ہے، جس کے بعد مزید تبدیلیاں بھی متوقع ہیں، میجر (ر) اعظم سلیمان خان قبل ازیں چیف سیکریٹری سندھ اور سیکریٹری داخلہ پنجاب سمیت دیگر اہم عہدوں پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔
انھوں نے پاک فوج اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر دہشتگردی کی روک تھام کے لیے مثالی اور دلیرانہ اقدامات اٹھائے تھے۔ میجر (ر) اعظم سلیمان سخت گیر افسر ہیں، جنھیں پنجاب کے حوالے سے کام کرنے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے اور ان کے سامنے پنجاب کے انتظامی اور امن و امان کے حوالے سے شائد ہی کوئی مسئلہ چھپا ہوگا۔
وزیراعظم نے انھیں ٹاسک دیا ہے کہ وہ محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور مہنگائی پر قابو کرنے کے لیے اقدامات کریں۔اس کے ساتھ اعظم سلیمان کو ان کی پسند اور مرضی سے ایک اچھا پولیس افسر، انسپکٹر جنرل پولیس کے طور پر دیا گیا ہے۔ نئے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر، سیکریٹری داخلہ کے طور پر میجر اعظم سلیمان کے ماتحت ہی ایک ادارے نیشنل پولیس فاونڈیشن کے ایم ڈی تھے۔
آج بیورو کریسی تاریخ کے تلخ ترین تجربات سے گزر رہی ہے۔ خوف کی تلوار اور دیگر معاملات نے اس وقت بیورو کریسی کو عملاً مفلوج کر رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے اہم وفاقی محکموں میں فائلوں کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔جہاں ایک طرف احتساب کے نام پر نیب کی جانب سے خوف زدہ متعدد سینئر بیورو کریٹس اہم عہدے لینے سے گریزاں ہیں تو وہیں جن سینئر بیورو کریٹس نے بحالت مجبوری اہم پوسٹیں لے لی ہیں، وہ بالخصوص مالی معاملات اور بڑے پروجیکٹس سے متعلق فائلوں پر دستخط کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فائلیں آگے جانے سے رکی ہوئی ہیں۔ اور میری ناقص اطلاعات کے مطابق یہ فائلیں دیوار کے ساتھ تین قطار میں چھ فٹ بلند ہو چکی ہیں۔ اور منظوری کے لیے دستخط کی محتاج ہیں۔
بدقسمتی سے سیاسی حکمرانوں نے سول سرونٹس کو ذاتی ترجیحات کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اس ''کک باکسنگ کلچر'' نے پروان چڑھ کر پاکستان کی چولیں ہلا دیں۔نوبت یہاں تک آپہنچی کہ بیوروکریسی بھی ٹریڈ یونین ازم کے رنگ میں رنگی گئی جس کا ایک مظاہرہ پنجاب میں دیکھنے کو ملا ۔ پاکستانی سول سرونٹ کے لیے گریڈ بائیس ایک اعلیٰ ترین درجہ ہے، جنھیںبائی پاس کرکے بہت سے سفارشیوں کو اوپر لایا گیا۔
بائیس گریڈ کے افسر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے پانچ ہزار سے زائد سول سرونٹس اور بیورو کریٹس میں سے صرف 50 کے قریب افسر گریڈ بائیس کا رینک رکھتے ہیں۔ اس تعداد میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے۔
بہرکیف اس وقت پنجاب میں گورننس کا برا حال تھا،حکومت کی جانب سے ایک عرصے بعد اچھا فیصلہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ابھی تبدیلی میں دم خم باقی ہے۔ کیوں کہ میرے خیال میں پنجاب کے عوامی مسائل کے حوالے سے میجر اعظم سلیمان آخری اُمید ہیں۔یقینا وہ نیب کے غیر ضروری دباؤ سے بھی چھٹکارا دلوائیں گے اور بیوروکریسی سے سیاست کو بھی ختم کریں گے۔ بیوروکریسی کو چاہیے کہ وہ اپنی اہلیت کو ثابت کرے، ایسا نہ ہوا تو سول سروس مزید رسوا ہوجائے گی جو کسی کے لیے بھی نیک شگون نہیں۔اور پھر عوام کی آخری اُمید بھی دم توڑ جائے گی!
وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرایع نے بتایا کہ جس طرح آئے روز پے در پے تبادلے کیے جا رہے ہیں اور بعض جگہوں پر ایک اہم شخصیت کی ایما پر پوسٹنیگز کی جا رہی ہیں، اس پر بھی بیورو کریسی میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے سینئر بیورو کریٹس کے ساتھ ہونے والے سلوک نے بھی بیورو کریٹس کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔
تیس برس سول سروسز میں گزارنے والے ایک سابق اعلیٰ افسر کے بقول بیورو کریسی کو کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے کہ حکومت کی مشینری چلانے میں سول سروسز کے افسران کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لہٰذا بیورو کریسی کے مفلوج ہونے کا سیدھا مطلب حکومتی مشینری کا جام ہونا ہے۔ اس وقت کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ اور اس سلسلے کاآغاز پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہی ہو گیا تھا۔ محض الزامات پر بعض اعلیٰ سرکاری افسروں کو انکوائری کے نام پر تذلیل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کے سبب سینئر اور جونیئر بیورو کریٹس میں حد درجہ خوف پایا جاتا ہے۔
متعدد سینئر بیورو کریٹس نے اس بنیاد پر اہم عہدے حاصل کرنے سے گریز کیا اور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی تذلیل نہیںچاہتے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے، جب سینئر بیورو کریٹس بالخصوص مالی معاملات اور بڑے پروجیکٹس سے متعلق پوسٹیں لینے سے کترا رہے ہیں۔ حالانکہ ہر دور میں ایسی اہم پوسٹوں کے لیے سفارشیں کرائی جاتی تھیں۔
ذرایع نے بتایا کہ موجودہ صورت حال میں اب تک بائیس اور بیس گریڈ کے کم از کم چار اعلیٰ بیورو کریٹس نے دل برداشتہ ہو کر اپنے استعفے پیش کر دیے تھے۔ تاہم بعد میں انھیں منا لیا گیا۔ بیورو کریسی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس بارے میں ایک موقر انگریزی اخبار نے بھی کچھ عرصہ پہلے چشم کشا رپورٹ شایع کی تھی۔
اخبار نے لکھا کہ نون لیگ کی سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے متعدد بیورو کریٹس کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ یا وہ خود ہی اہم فیصلہ ساز عہدوں پر کام کرنے سے گریزاں ہیں کہ مبادہ بعد میں انھیں عدالتوں میں بے عزتی یا نیب انکوائریوں کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی حکومت میں زیادتی کا نشانہ بننے یا نظرانداز کیے جانے والے بیورو کریٹس نئی حکومت آنے پر اعلیٰ پوسٹیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایسے بیورو کریٹس بھی نئے سیٹ اپ میں اہم پوسٹیں لینے سے کترا رہے ہیں، جنھیں نون لیگ کی سابق حکومت میں سائیڈ کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ ان بیورو کریٹس کو اپنی تذلیل کا خوف ہے۔ اﷲ کرے حکومت کو عقل آجائے اور وہ بیوروکریسی کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوجائے۔