تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز

مسلم دنیا کے قدرتی وسائل کی سستے داموں لوٹ مار۔ سامراج کو خوف پیدا ہوا کہ اگر یہ سوچ عرب عوام میں پھیل گئی تو۔۔۔

مسلم دنیا کے قدرتی وسائل کی سستے داموں لوٹ مار۔ سامراج کو خوف پیدا ہوا کہ اگر یہ سوچ عرب عوام میں پھیل گئی تو وہ اپنی بادشاہتوں پر دبائو ڈالیں گے کہ اپنے تیل کے کنوئوں کو سامراجی قبضے سے آزاد کرایا جائے۔ اس طرح سے مشرق وسطی سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سامراجی مفادات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ امریکا کو ہمارے نماز روزوں اور عبادات سے کوئی خطرہ نہیں۔ مذہبی آزادیوں کا تو وہ خود بہت بڑا چمپئن ہے ۔اسے تو صرف ان نظریات سے خطرہ محسوس ہوتا ہے جس سے اس کے سامراجی مفادات کو خطرہ لاحق ہو۔ مذہبی لوگوں کو تو وہ ہمیشہ سے استعمال کرتا آیا ہے۔ ماضی قریب کی مثال افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد ہے۔ اگر ایران میں بھی تیل کے کنوئوں کو قومی ملکیت میں نہ لیا جاتا تو ایران بھی امریکا کی آنکھ کا تارہ ہوتا لیکن ایران نے مسلم دنیا کے مفادات کے ساتھ غداری نہیں کی۔

بہر حال جب تک ہم ان باتوں کو جان نہیں جاتے ایران امریکا مصالحت کو سمجھ نہیں سکیں گے۔ اس حوالے سے امریکی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ امریکا مشرق وسطیٰ سے اپنی فوج نکال لے گا اور ساری توجہ روس پر مرکوز کر دے گا جو بڑی تیزی سے ماضی کی طرح سپر پاور بننے جا رہا ہے۔یہ سوال بھی ہے کہ کیا یہ اتحاد امریکا اور چین کی طرح ہو گا جوسوویت یونین کے خلاف تھا جب امریکا نے چین کو کمیونسٹ بلاک سے توڑ کر اپنے دشمن سوویت یونین کو شہ مات دی تھی۔ ایران کے ساتھ صلح کے نتیجے میں امریکا اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو تعین کرے گا لیکن یہ اسرائیل اور سعودی عرب کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہو گا۔ اس وقت امریکا سعودی عرب کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ امریکا ایران مصالحت کا فوری اثر یہ ہو گا کہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں مذہب کے نام پر قتل و غارت اور فرقہ واریت میں کمی آئے گی لیکن امریکا کو پریشانی یہ بھی ہے کہ ایران کو خطے کے حوالے سے رعایتیں دینے کے نتیجے میں جس کے عوض امریکا کو بھی ناقابل یقین فائدہ ہو گا کہیں ایران ماضی کی طرح شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی مانند علاقہ کا تھانیدار نہ بن جائے اور اس کا اثر و رسوخ قدیم ایرانی سلطنت کی طرح بحیرہ روم سے سینٹرل ایشیا تک نہ پھیل جائے۔

اس میں افغانستان اور موجودہ پاکستان بھی آتے ہیں۔ اس وقت دنیا کو جس مذہبی شدت پسندی کا سامنا ہے اس کا توڑ بھی امریکا ایران مصالحت میں ہے۔ یہ ایران میں پیدا ہونے والی امریکا مخالف مذہبی تبدیلی ہی تھی جس کے توڑ کے لیے امریکا کو القاعدہ طالبان اور ان جیسی دیگر تنظیموں کو برداشت کرنا پڑا کیونکہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ مذہب کا توڑ مذہب ہی ہے۔ مذہبی شدت پسندی پر مذہبی شدت پسندی کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امریکا نے اسی مذہبی ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے یعنی نہ ایران میں امریکا دوست شہنشاہت کا خاتمہ ہوتا نہ خطے کو اس بے پناہ تباہی و بربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس میں کئی ملین مسلمان کام آئے ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور کئی نسلیں تباہ ہو گئیں۔ حالیہ شامی بحران کے نتیجے میں یہ بحران کئی گنا ملٹی پلائی ہو کر مسلمانوں کو تباہ کر دیتا کیونکہ یہ جنگ ہمارے خطے میں لڑی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سامراج شکست سے بچنے کے لیے ہمارے خطے کو ایٹمی جنگ میں بھی جھونک سکتا ہے اور یہ اس کی تاریخ ہے۔امریکا ایران مصالحت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر بھی اثر انداز ہو گی۔ اس حوالے سے ایران سب سے اہم ملک کے طور پر سامنے آئے گا۔جب اگلے سال افغانستان سے انخلا شروع ہونے والا ہے۔


امریکیوں کے سامنے اب ٹریلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ متوقع ایران امریکا مصالحت کے نتیجے میں طاقتور ہونے والے ایران کی طاقت کو محدود کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے جو ملک ان کے سامنے آتا ہے وہ ترکی ہے جو خطے میں طاقت کا توازن پیدا کر سکتا ہے تو دوسری طرف ترکی و ایران مل کر مشرق وسطیٰ میں ایسا ماحول قائم کر سکتے ہیں جو القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں طالبان وغیرہ کا اثر توڑ سکتا ہے پھر مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی ضرورت نہیں رہے گی۔ طالبان سے مجوزہ مذاکرات کا مستقبل کیا ہے۔ اس کا اندازہ متوقع امریکا ایران مصالحت کے پس منظر میں باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ میں پچھلے کئی سال سے لکھ رہا ہوں کہ پاکستان میں ترکی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکا نے ترکی کے کردار کو مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک توسیع دے دی ہے حفظ ماتقدم کے طور پر۔ ایران کو محدود کرتے ہوئے۔ خطے میں توازن پیدا کرنے کے لیے۔

عموماً جب انقلاب آتا ہے تو اس کی باگ ڈور شدت پسندوں کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔ جب کہ اعتدال پسند پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک خاص حالات میں ان کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا نے لگتا ہے کہ کہیں یہ رد انقلاب یعنی دشمن کے ایجنٹ تو نہیں۔ یہی ایران میں بھی ہوا۔ اس طرح سے انقلاب کی باگ ڈور شدت پسندوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ رد انقلاب کی نعرے کی آڑ میں عوام جائز آزادیوں سے بھی محروم کر دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ انتخابات میں اعتدال پسندوں کی جیت ہوئی کیوں کہ شدت پسندوں کو ایرانی عوام نے ہر طرح سے آزما لیا ہے۔ یہ مصالحت ایرانی عوام کو غیر ضروری پابندیوں سے نجات دلائے گی اور ایک وقت معیّن کے بعد امریکا ایران میں چین اور روس کی طرح اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہبی طبقے کا عمل دخل کم ہو جائے گا امریکا ایران صلح سے خطے کا ''نیا جنم'' ہو گا جس سے تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

شامی بحران کے حل کا آغاز اس سال نومبر دسمبر سے مارچ2014ء کے درمیان کے عرصے میں سامنے آ سکتا ہے۔

سیل فون:0346-4527997۔
Load Next Story