ہم بھی گئے تھے جی بہلانے

سات اکتوبر 2013 کو میں کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا۔ جاتے ہوئے اپنے شہر کراچی سے ایک ہفتے کی۔۔۔

سات اکتوبر 2013 کو میں کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا۔ جاتے ہوئے اپنے شہر کراچی سے ایک ہفتے کی رخصت مانگی تھی اور آٹھویں روز واپسی کا پکا وعدہ کیا تھا۔ دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ پرچیاں، دن دہاڑے ڈکیتیاں۔۔۔۔۔سات دن کے لیے ان سب کو چھوڑ کر میں کراچی کینٹ سے سہ پہر ساڑھے تین بجے روانہ ہوا۔ بزنس ٹرین میں یہ میرا پہلا سفر تھا جو نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔ اگلے دن 8 اکتوبر کو ہماری ٹرین مقررہ وقت سے بہت پہلے سوا آٹھ بجے لاہور پہنچ گئی۔ جالب بھائی کا پوتا مخدوم جالب مجھے لینے آیا ہوا تھا۔ اب ہم لاہور کے مرغزاروں سے گزرتے ہوئے گھر کی طرف رواں دواں تھے۔گھر پہنچ کر سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ناشتے کے بعد مرقد جالب پر حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔

جالب صاحب کا بڑا بیٹا ناصر جالب میرے ساتھ تھا۔ شاہ فرید قبرستان سبزہ زار ملتان روڈ پہنچے۔ شاعر عوام کو سلام عقیدت پیش کیا۔ عظیم باپ کے قدموں میں ان کی چہیتی بیٹی جمیلہ نور افشاں کی قبر ہے۔ اپنی بھتیجی کو بھی پیار کے نذرانے پیش کیے۔ فاتحہ پڑھی اور دوبارہ حاضری کا کہہ کر روانہ ہوا۔ ناصر اپنے بینک چلا گیا اور میں پاک ٹی ہاؤس۔ نئے آغاز کے ساتھ میں پہلی بار تاریخی پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہورہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی میری دائیں جانب دیوار پر احمد ندیم قاسمی صاحب کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ دوسری تصویر حبیب جالب صاحب کی تھی۔ دونوں تصویروں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ 1957 میں حبیب جالب کا پہلا مجموعہ کلام ''برگ آوارہ'' شایع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا سرورق حنیف رامے نے بنایا تھا اور کتاب کے ناشر تھے معروف اشاعتی ادارے مکتبہ کارواں کے چوہدری عبدالحمید۔ جالب صاحب کے پہلے مجموعے کا فلیپ احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا۔

خیر یہ بات تو یوں ہی یاد آگئی۔ پاک ٹی ہاؤس کی دیواروں پر لاہور کے ادباء، شعراء کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ جو خوب بہار دے رہی تھیں۔ جالب کے بعد منٹو، میراجی، احمد راہی، منیر نیازی، فیض احمد فیض اور یہ تصویری سلسلہ گراؤنڈ فلور کے بعد پہلی منزل تک چلا گیا ہے۔ اپنے پیاروں کی تصاویر دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ دل تو میرا تب بھی باغ باغ ہوا تھا۔ جب میں نے کھنڈر نما ملتان روڈ کی جگہ ایک مضبوط کشادہ اور ہموار ملتان روڈ کو دیکھا۔ دل بہت خوش ہوا اور شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب کے لیے دعائیں بھی لبوں پر آگئیں۔ یہ وہ ملتان روڈ تھا جس پر جگہ جگہ گڑھے تھے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار شہر کی یہ اہم شاہراہ ہر دم ٹریفک جام کا شکار رہتی تھی۔ ویگنیں، ٹرک، بسیں، ریڑھے، بیل گاڑیاں، رکشے، کاریں، موٹر سائیکلیں، بے ہنگم اور کئی کئی گھنٹوں تک بلاک ٹریفک اور اب ملتان روڈ بہت خوبصورت اور آرام دہ گزر گاہ بن گئی ہے۔

لاہور میں پہلا دن بہت اچھا گزرا۔ لو حضرت ساقی امروہوی پھر یاد آگئے، ان کا شعر لکھے بغیر میں آگے نہیں بڑھ سکتا، اچھا شعر بار بار دہرانا چاہیے۔

میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا

مگر اب شام ہوتی جارہی ہے

دن کے ہنگاموں میں عطاء الحق قاسمی صاحب سے ملنے الحمراء گئے۔ جمہوری پبلی کیشنز کے فرخ سہیل گوئندی اور ان کی لبنانی شریک حیات سے بھی ملاقات ہوئی۔ اور اب شام ہوتی جارہی تھی۔ لاہور میں اکتوبر کی شامیں بھی بڑی شدت کے ساتھ اپنا احساس دلاتی ہیں، شدید گرمیوں، حبس کے بعد اکتوبر کی ہلکی ہلکی خنکی لیے شامیں اور ہم ایسی ہی خوبصورت شام میں گھر لوٹ رہے تھے۔ رات بہت اچھی گزری، لاہور میں پہلی رات۔ خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی تھی، بس یوں ہی سوتے جاگتے رات کٹ ہی گئی۔

اگلی صبح پھر اپنے بھتیجے ناصر جالب کی موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہوئے ۔ ملتان چونگی سے چوبرجی تک۔ ملتان روڈ کی ہمواری کے پھر مزے لیے اور سوا گیارہ بجے ہم چچا بھتیجا پرانی انارکلی کا موڑ مڑے، سامنے ہی ناصر کا بینک تھا۔ میں نے ناصر سے کہا ''تم بینک جاؤ، میں ذرا شیو بنوالوں'' یہ کہہ کر میں واپس پرانی انارکلی کے مین بازار کی طرف چل دیا۔ ایک لمبی سی گلی مین بازار کی طرف نکل رہی تھی میں نے اسی گلی سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔ گلی کے آغاز پر برف کی سل پر جاپانی پھل لگائے ایک ریڑھی والا کھڑا تھا۔ میں وہیں رک گیا۔ میں نے دیکھا برف کی سل پر پپیتا کاٹ کر بھی رکھا ہوا تھا۔ ''یہ پپیتے کی پلیٹ کتنے کی ہے؟'' ریڑھی والے نے کہا ''پپیتا سو روپے پاؤ ہے'' پپیتے کا یہ بھاؤ سن کر میں نے اس سے کہا ''پپیتے کو چھوڑو، یہ میں اپنے شہر جاکر کھالوں گا اور تم ''ہم لوگ'' (جاپانی پھل کا ہمارے ہاں رائج نام) کی پلیٹ بناؤ۔ پھل والے کے پاس پانچ منٹ لگ گئے۔ اور پھر میں گلی میں گھس گیا۔

بٹوارے سے پہلے کے سرخ اینٹوں والے مکانات میرے دونوں جانب تھے۔ گلی با رونق تھی، لوگ آ جا رہے تھے اور میں بھی لاہور میں موجودگی کے سحر میں چلا جارہا تھا۔ گلی میں ہی چلتے چلتے ایک بزرگ کا مزار آگیا۔ میں نے اللہ کے نیک بندے کو سلام کیا میرے دل میں خیال آرہا تھا کہ ان بزرگ کو اس گلی کے چھوٹے سے چورستے میں دفنادیا گیا۔ میں اسی تانے بانے میں مزار سے آگے بڑھ گیا۔ اب پرانی انارکلی کے مین بازار (جسے فوڈ اسٹریٹ بھی کہا جاتا ہے) سے میں صرف بیس فٹ کے فاصلے پر تھا۔ 9 اکتوبر 2013 بروز بدھ صبح ساڑھے گیارہ بجے ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور سارا ماحول یکسر بدل گیا۔ لوگ پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ میں بھی ایک مکان کے مضبوط دروازے کی طرف لپکا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ میں دھماکوں کے شہر سے کچھ دن گزارنے آیا تھا اور خاطر غزنوی کے شعر کی تصویر بنا کھڑا تھا:

وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہوگئیں


ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے

میں دھماکے کی جگہ سے محض بیس فٹ کے فاصلے پر گلی میں موجود تھا جو لوگ بازار سے آرہے تھے وہ کہہ رہے تھے ''دھماکہ عین اسی جگہ ہوا ہے جہاں چند ماہ پہلے ہوا تھا، رحمت دودھ والے کی دکان اور سندھی بریانی والے ہوٹل پر دھماکہ ہوا ہے، پھر وہی منظر چیختی چنگھاڑتی ایمبولینسیں، سائرن بجاتی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں'' بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ ایک شخص ہلاک اور 20 زخمی۔

لاہور میں 12 اور 13 اکتوبر کو روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام عالمی اردو کانفرنس تھی۔ بڑے چاؤ کے ساتھ لاہور گئے تھے اور :

ہم نے سنا تھا، صحن چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

ہم بھی گئے تھے جی بہلانے اشک بہا کر آئے ہیں

پھول کھلے تو دل مرجھائے' شمع جلے تو جان جلے

ایک تمہارا غم اپنا کر کتنے غم اپنائے ہیں

ایک سلگتی یاد چمکتا درد فروزاں تنہائی

پوچھ نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں

پیار کی بولی بول نہ جالب اس بستی کے لوگوں سے

ہم نے سکھ کی کلیاں کھو کر دکھ کے کانٹے پائے ہیں
Load Next Story