جب جمہوریت آنسو بہائے گی
بلاول بھٹو زرداری پاکستانی سیاست میں باقاعدہ طور پر داخل ہوگئے ہیں۔ پچیسویں سالگرہ منانے پر اب وہ قومی اسمبلی کے ۔۔۔
بلاول بھٹو زرداری پاکستانی سیاست میں باقاعدہ طور پر داخل ہوگئے ہیں۔ پچیسویں سالگرہ منانے پر اب وہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی بن سکتے ہیں۔ عمرکی نقدی بڑھ جانے پر وہ رکاوٹ دور ہوگئی جو نابالغی کے سبب تھی۔ اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین پارٹی کے اجلاسوں کو چیئرکریں گے۔ اب ان کی صدارت میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگز ہوا کریں گی۔ آنے والے وقت میں جب ایسی تصویر اخبار میں شایع ہوگی تو جمہوریت آنسو بہائے گی۔ نوجوانوں کے کس مظاہرے پر عوامی راج روئے گا؟ یہ ہمارا آج کا موضوع ہے۔ مستقبل کے سیاستدان یعنی حمزہ ولد شہباز شریف ہوں یا مونس الٰہی ولد چوہدری پرویز یا سعد محمود ولد مولانا فضل الرحمن اور کریم نوازاورمریم نواز زوجہ کیپٹن صفدر کے بارے میں آگے چل کر کچھ بیان ہوگا۔ سونے سے پہلے ایک نوجوان سیاستدان لیکن اس سے بھی پہلے ہم ان کے نانا اور والدہ کی مختصر تاریخ بیان کریں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذہانت وصلاحیت کے بل بوتے پر اسکندر مرزا اور ایوب خان کے دل میں جگہ بنائی۔ اس میں ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو کا کوئی دخل نہ تھا۔ دس سال تک دو آمروں کی قربت کے باوجود بھٹو عوام کے قریب آئے اور ان کے دکھوں کی بات کی۔ یہی سبب ہے کہ وہ ''قائد عوام'' کہلائے، بھٹو اور عوام کی محبت کے درمیان کوئی پل نہ تھا۔ یہ عشق وجنون براہ راست ایک دل سے نکل کر دوسرے دل تک پہنچا۔ عوام نے ہی بھٹو کو بھٹو بنایا۔ پنجاب اور سندھ کے غریب لوگوں نے تلوار کو جھولیاں بھر کر ووٹ دیے، یوں وہ مغربی پاکستان کے سب سے بڑے رہنماء قرار پائے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ بر سر اقتدار آئے اور ساڑھے پانچ سال تک بھٹو اور عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہے۔ یہاں کوئی زور زبردستی نہ تھی۔ قیادت عوام سے نکلی تھی اور اوپر سے تھونپے جانے کا کوئی تصور نہ تھا۔77 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی جزوی قبولیت کچھ زبردستی تھی، یوں بھٹو پہلے اقتدار اور پھر زندگی سے محروم ہوگئے۔
بے نظیر بھٹو کو عوام نے بھٹو کی بیٹی کے روپ میں قبول کیا۔ بھٹو کی زندگی تک انھیں آگے لانے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا سوائے شملہ میں ساتھ لے جانے کے ضیا مارشل لاء کے موقعے پر وہ پاکستان میں موجود تھیں ۔ والد کی گرفتاری، مقدمات، سزائیں اور آخری ملاقات کے دکھ انھوںنے براہ راست جھیلے۔ ممکن ہے آگے چل کر بھٹو اپنا جانشین مرتضیٰ کو بناتے لیکن حیات بھٹو تک حکومتی سطح پر کوئی کوشش مورخ کو نظر نہیں آئی سوائے دو خاندانی واقعات کے۔ لاڑکانہ کی کوٹھی کو ''المرتضیٰ'' کا نام دینا اور 70کلفٹن اپنے سب سے بڑے بیٹے کو دینے کی وصیت کرنا، بھٹو اور بے نظیر کو آگے لانے کے لیے ان کے کسی بڑے یا بزرگ نے کوشش نہ کی لیکن بلاول کو آگے لانے کے لیے کوشش ہورہی ہے۔
نواز شریف نے بغیر کسی خاندانی بیساکھی کے میدان سیاست اور تاریخ میں اپنا مقام بنایا۔ خاندان میں دور دور تک کوئی سیاست میں نہ تھا۔ گورنر جیلانی اور جنرل ضیا کی سر پرستی کی بات کی جاتی ہے۔ حکمراں تو اپنے جاہ وجلال اور نوازنے کے موڈ میں تو کئی لوگوں کے مربی بن جاتے ہیں۔ گلشن میں بہاریں تو آتی ہیں لیکن ہر پھول تو نہیں کھل جاتا۔ بھٹو کی طرح نواز شریف پر ڈکٹیٹر کی سرپرستی کا الزام ہے لیکن بعد کا مقام انھوںنے اپنی محنت سے بنایا۔ عوام کے دلوں تک رسائی ان کی اپنی ذاتی کوشش تھی۔ وردی کے بغیر ایوب و ضیاء کا اقتدار بے معنی تھا جب فوجی آمروں کو عوامی حمایت حاصل نہ تھی تو وہ یہ دوسروں کو کیسے منتقل کرتے؟ ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کے بعد اپنا مقام بنانا ذاتی کمال تھا، بے نظیر دور میں اپوزیشن کے دکھ اور مشرف دور میں جلا وطنی کے صدمے نے انھیں بڑا لیڈر بنادیا۔ دولت وآمرانہ سرپرستی تو دوسروں کو بھی ملی لیکن کوئی نواز شریف نہ بن سکا۔ اپنے بل بوتے پر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والا سیاسی خاندان اب اپنی دوسری نسل کو سیاسی بیساکھیوں سے آگے لارہاہے۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کو اقتدار ومیڈیا کی غلام گردشوں کے قریب رکھنا اسی کوشش کا حصہ ہے۔
چوہدری ظہور الٰہی نے ایک سیلف میڈ انسان کے طورپر اپنی شناخت کروائی، غریب خاندان میں پیدا ہونے والا انتقال کے وقت ایک بڑا لیڈر اور ایک بڑا صنعتکار تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے صاحبزادے چوہدری شجاعت کو آگے لانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ بھٹو کی مخالفت کے سبب جیلوں میں رہے اور ضیاء الحق کا خیر مقدم کیا۔ مسلم لیگ میں حکومت میں شامل ہوئے تو چوہدری ظہور الٰہی بھی ضیا کابینہ کا حصہ تھے۔ چوہدری شجاعت اپنے والد کے انتقال کے کئی برسوں بعد سیاست میں داخل ہوئے۔ ظہور الٰہی کی محبت میں انھیں ووٹ ملے اور پھر وہ نواز شریف یا مشرف اور زرداری ادوار میں اقتدار میں رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اسی طرح اپنے کزن چوہدری شجاعت کے قریب رہے جس طرح شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے نزدیک رہے تقریباً ہم عمر جنھیں ایک ہی ایج گروپ کا نام دیا جاسکتاہے۔ اب چوہدری خاندان اپنی سیاسی وراثت کو برقرار رکھنے کے لیے مونس الٰہی کو آگے بڑھا رہا ہے۔
مفتی محمود کا نام قومی سیاست میں اس وقت گونجا جب انھوںنے ذوالفقارعلی بھٹو کو ڈیرہ اسماعیل خان میں شکست دی۔ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بنے اور اصولوں پر استعفیٰ دے دیا۔ پھر اپنی ذاتی قابلیت اور صرف والد کے احترام کی بدولت وہ سیاست کے بڑے لیڈر بنے۔ اپنے بھائیوں کو سیاست میں لانے کے بعد ضمنی انتخابات میں مولانا فضل الرحمن نے اپنے بیٹے کو بھی متعارف کروایا۔ اسعد محمود کی شکست نے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پاکستانی عوام کب تک وراثتی سیاست کو پروان چڑھاتے رہیںگے۔ یہ بڑے سیاسی لیڈروں کو پہلا عوامی جھٹکا نہیں بلکہ تین سیاسی واقعات ثابت کرتے ہیں عوام با شعور ہوچکے ہیں کس حد تک؟ اس کا تعین ہم اس کالم میں دو منٹ میں اور عوام اگلے انتخابات میں کردیںگے۔
اصغر خان نے جب پیپلزپارٹی سے اتحاد کیا تو ان کی تحریک استقلال کو دو نشستیں دی گئیں۔ دونوں باپ بیٹے ہار گئے، ریٹائرڈ ایئر مارشل کو یہ سبق عوام نے پچھلی صدی میں دیا تھا۔ شیخ رشید پنڈی کی دو نشستوں سے 2002میں کامیاب ہوئے تھے انھیں دوسری نشست پر انتخابات لڑوانے کے لیے کوئی ملا تو وہ ان کا اپنا بھتیجا تھا شکست نوجوان شیخ رشید کا مقدر ٹھہری۔ جمشید دستی کی دو نشستوں سے کامیابی نے سب کو حیران کردیا۔ انھیں بھی کوئی دوسرا اسمبلی میں بھیجنے کو ملا تو وہ ان کا اپنا سگا بھائی، عوام نے دستی برادران کو شکست دے کر پیغام دیا کہ وہ کوئی کاٹھ کے الو، موم کی ناک، کسی کے ہاتھ کی چھڑی اور کلائی کی گھڑی نہیں ہیں۔ اب تک یہ عوامی جھٹکے ایک دو نشستوں والے لیڈروں کو ملے ہیں۔ ملک اور صوبوں پر حکومت کرنے والے بڑے بڑے لیڈر اب تک اس سے بچے ہوئے ہیں اس لیے وہ اپنی نئی نسل کو بے خوفی سے میدان سیاست میں لارہے ہیں۔
جمہوریت کب روئے گی؟ یہی ہمارا آج کا سوال ہے۔ سوچیے کہ اگر نوجوان اسعد محمود جمعیت علماء اسلام کی فرشی نشست پر صدارت کررہے ہوں اور ان کے سامنے حافظ حسین احمد جیسے دانشور اور عبدالغفور حیدری جیسے پرانے سیاسی کارکن بیٹھے ہوں تو کیا ہوگا؟ سوچیے کہ رائے ونڈ میں مسلم لیگ (ن) کا اجلاس ہورہاہے اور اس کی صدارتی کرسی پر حمزہ شہباز تشریف فرما ہیں۔ سر جھکائے احسن اقبال، مشاہداﷲ، ظفر اقبال جھگڑا، خواجہ آصف، جنرل عبدالقادر بلوچ، اسحاق ڈار، چوہدری نثار جیسے قربانی دینے والے لیڈر اور برے وقتوں کے ساتھی بیٹھے ہیں۔ سوچیے کہ اگر ایسی کوئی تصویر ٹی وی اسکرین پر چل گئی تو جمہوریت پھوٹ پھوٹ کر نہ روئے گی۔ اسی طرح چشم تصور میں لایئے کہ پیپلزپارٹی کا اجلاس بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں ہورہاہو۔ ایک بانکا اور سجیلا نوجوان جو بھٹو کا نواسا اور بے نظیر کا صاحبزادہ ہونے ہی کی بدولت کرسی صدارت پر بیٹھا ہو۔
تصویر اخبار میں شایع ہو جس میں خورشید شاہ، این ڈی خان، لطیف کھوسہ، جہانگیر بدر، قائم علی شاہ، قمر الزماں کائرہ، اعتزازاحسن اور مخدوم امین فہیم سہمے سہمے سے بیٹھے ہوں۔ مورخ ایسی تصاویر، ویڈیو اور اجلاس کی کارروائی دیکھے گا تو کیا سوچے گا؟ اسے یاد آئے گا جب بارہ سالہ ظہیر الدین بابر باپ کے انتقال کے بعد چھوٹی سی ریاست فرغانہ کا حکمران بنا تھا اور جب سترہ سالہ اکبر اپنے والد ہمایوں کی وفات کے بعد ہندوستان کے تخت پر بیٹھا تھا، اگر بلاول، حمزہ، اسعد، مونس اور مریم کو ہی ہمارا حکمران بننا ہے تو کیا فرق رہ جاتاہے بادشاہت میں اور جمہوریت میں؟ نوجوانوں کی وراثت ہی کی بدولت اجلاسوں کی صدارت اور بزرگوں، قابل اور قربانی دینے والے لیڈروں کا سرجھکائے اور سہمے بیٹھنے کو مورخ کیا کہے گا؟ وہ ہی کہے گا کہ یہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا پاکستان ہے۔ اگر قارئین اور کالم نگار کی زندگی میں یہ وقت آگیا تو ہم کہیںگے کہ یہ وہ وقت ہوگا جب جمہوریت آنسو بہائے گی۔