اربوں روپے سے تعمیر سندھ اسمبلی بلڈنگ میں آگ بجھانے والے آلات زائد المیعاد نصب
9 سال قبل نصب آلات انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے، ناکارہ آلات ہنگامی صورتحال میں مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں
سندھ اسمبلی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سامنے آگئی، اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی سندھ اسمبلی بلڈنگ میں آگ بھْجانے والے آلات زائد المعیاد ہوگئے، زائد المعیاد آلات کو تبدیل نہیں کیا جا سکا جب کہ 9 سال قبل نصب کیے گئے آلات انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
آگ بھجانے کے آلات کسی بھی اہم عمارت میں انتہائی ضروری ہوتے ہیں، سندھ اسمبلی کی عمارت جو چند برس قبل اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی، جہاں اجلاسوں کے دوران کابینہ ارکان اور اراکین اسمبلی کے علاوہ بھی سینکڑوں افراد کی آمدورفت ہوتی ہے عمارت میں آگ بھجانے والے آلات کی عدم تنصیب پر اسمبلی انتظامیہ سنگین لاپروائی اور مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔
اسمبلی کے مختلف حصوں میں لگے آلات زائد المعیاد ہوچکے ہیں سروے کے دوران دیکھا گیا کہ آگ بھجانے والا آلات سال دو ہزار دس میں نصب کیے گئے تھے جن کا سالانہ بنیادوں پر اجرا کیا جاتا ہے تاہم سندھ اسمبلی میں یہ آلات تقریباً ایک دہائی پرانے نصب ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی اسمبلی انتظامیہ نے زحمت ہی نہیں کی۔
سندھ اسمبلی کی نئی بلڈنگ میں برقی آلات،وائرنگ،ہیوی جنریٹر روم ،پمپنگ اسٹیشن اور دیگر دفاتر میں کسی لگے برقی آلات کے سبب کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے تاہم آگ بجھانے کے آلات ناکارہ اور کیمیکل زائد المیعاد ہونے کے سبب آگ بجھانے کا انتظام موجود نہیں ہے۔
قواعد کے تحت ہر نجی وسرکاری ادارے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ہنگامی طبی امداد اور آگ پر قابو پانے کی تربیت فراہم کرینگی تاہم قانون بنانے والی سندھ اسمبلی میں ہی قانون پر عمل نہیں ہورہااور سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں ملازمین کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت ہی فراہم نہیں کی گئی جبکہ سندھ اسمبلی جیسے صوبے کے انتہائی اہم ،حساس اور بڑے ادارے میں کوئی فائر فائٹر ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کی نااہلی کی انتہاہے کہ تاریخی سندھ اسمبلی کی عمارت میں لگے فائر ہوز ریل کو نصب کرنے کے بعد سے کئی سال گزرنے کے باوجود استعمال ہی نہیں کیاگیاجبکہ کئی مقامات پر لگے فائر ہوز ریل میں پانی کا کنکشن ہی نہیں ہے بیشتر مقامات پر لگے فائرہوز ریل تاحال پلاسٹک میں لپٹے موجود ہیں۔
صورتحال پر ارکان اسمبلی نے خدشات کا اظہار کیا ہے اور سندھ اسمبلی کی انتظامیہ سے معاملے کا نوٹس لینے اور آگ بھجانے والے تمام آلات تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، موقف جاننے کے لیے سیکریٹری سندھ اسمبلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انکا فون ریسیو نہیں ہوا۔
آگ بھجانے کے آلات کسی بھی اہم عمارت میں انتہائی ضروری ہوتے ہیں، سندھ اسمبلی کی عمارت جو چند برس قبل اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی، جہاں اجلاسوں کے دوران کابینہ ارکان اور اراکین اسمبلی کے علاوہ بھی سینکڑوں افراد کی آمدورفت ہوتی ہے عمارت میں آگ بھجانے والے آلات کی عدم تنصیب پر اسمبلی انتظامیہ سنگین لاپروائی اور مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔
اسمبلی کے مختلف حصوں میں لگے آلات زائد المعیاد ہوچکے ہیں سروے کے دوران دیکھا گیا کہ آگ بھجانے والا آلات سال دو ہزار دس میں نصب کیے گئے تھے جن کا سالانہ بنیادوں پر اجرا کیا جاتا ہے تاہم سندھ اسمبلی میں یہ آلات تقریباً ایک دہائی پرانے نصب ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی اسمبلی انتظامیہ نے زحمت ہی نہیں کی۔
سندھ اسمبلی کی نئی بلڈنگ میں برقی آلات،وائرنگ،ہیوی جنریٹر روم ،پمپنگ اسٹیشن اور دیگر دفاتر میں کسی لگے برقی آلات کے سبب کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے تاہم آگ بجھانے کے آلات ناکارہ اور کیمیکل زائد المیعاد ہونے کے سبب آگ بجھانے کا انتظام موجود نہیں ہے۔
قواعد کے تحت ہر نجی وسرکاری ادارے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ہنگامی طبی امداد اور آگ پر قابو پانے کی تربیت فراہم کرینگی تاہم قانون بنانے والی سندھ اسمبلی میں ہی قانون پر عمل نہیں ہورہااور سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں ملازمین کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت ہی فراہم نہیں کی گئی جبکہ سندھ اسمبلی جیسے صوبے کے انتہائی اہم ،حساس اور بڑے ادارے میں کوئی فائر فائٹر ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کی نااہلی کی انتہاہے کہ تاریخی سندھ اسمبلی کی عمارت میں لگے فائر ہوز ریل کو نصب کرنے کے بعد سے کئی سال گزرنے کے باوجود استعمال ہی نہیں کیاگیاجبکہ کئی مقامات پر لگے فائر ہوز ریل میں پانی کا کنکشن ہی نہیں ہے بیشتر مقامات پر لگے فائرہوز ریل تاحال پلاسٹک میں لپٹے موجود ہیں۔
صورتحال پر ارکان اسمبلی نے خدشات کا اظہار کیا ہے اور سندھ اسمبلی کی انتظامیہ سے معاملے کا نوٹس لینے اور آگ بھجانے والے تمام آلات تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، موقف جاننے کے لیے سیکریٹری سندھ اسمبلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انکا فون ریسیو نہیں ہوا۔