ہیں کواکب یہی

بلدیاتی انتخابات عدالت عظمیٰ کے احکامات کی وجہ سے بادل نخواستہ حکمرانوں کے لیے نہ پائے رفتن نہ جائے۔۔۔


احمد خان October 27, 2013

بلدیاتی انتخابات عدالت عظمیٰ کے احکامات کی وجہ سے بادل نخواستہ حکمرانوں کے لیے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کا درجہ پاتے جارہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور پھر ان کے فنکشنل ہونے سے صوبائی حکومتیں عرصہ دراز سے پہلو تہی کررہی ہیں، لیکن عدالت عظمیٰ کے احکامات کے آگے صوبائی حکومتوں کو آخرکار سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آرہا۔ سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں تیزی سے گھومنے والا سوال یہ ہے کہ کیا حکمران جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں جیت پائیں گی؟ عام حالات اور عوام دوست اقدامات کے ترازو میں بلدیاتی انتخابات کسی بھی حکمران جماعت کے لیے عموماًخالہ جی کا گھر والا معاملہ ثابت ہوتا ہے، سرکاری مشینری کی آشیرباد، حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال اور افسر شاہی کی کمان کو اپنی جیت کے لیے استعمال کرکے بلدیاتی اداروں میں عام طور پر حکمران جماعتیں اپنی مرضی کے ''کھمبے'' پہنچانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ ماضی کے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ تو سیاست اور صحافت کے طالب علموں کو یہی بتارہی ہے لیکن موجودہ حکومتی منظرنامے میں حکمران جماعتوں کے زیر سایہ بلدیاتی نمایندوں کی کامیابی شکوک کے زیر اثر ہے۔

فیصل آباد کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ وہ سیٹ ہاری جو طویل عرصے سے ن لیگ کی ''جاگیر'' چلی آرہی تھی، صوبائی اسمبلی کی یہ وہ سیٹ تھی جو ن لیگ غیر موافق سیاسی فضا میں بھی نکالتی رہی، لیکن بھرپور قسم کے وسائل کی فراوانی اور افسر شاہی کی زبردست دھونس دھانس کے باوجود ن لیگ اپنے اقتداری بہار کے موسم میں اس بار یہ سیٹ ہار گئی۔ ن لیگ کے دوست اپنی اس ہار کو پارٹی کے اندر پائی جانے والی دھڑے بندی کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جناب! پارٹی کی اندرونی دھڑے بندی کے عنصر سے چنداں انکار ممکن نہیں، بلاشبہ جس حلقے میں پارٹی مقامی سطح پر ''خانوں'' میں بٹی ہو اس ناگفتہ حالی میں اس کے امیدوار کے جیتنے کے امکانات صفر نہیں تو کم از کم بہت حد تک معدوم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ دھڑے بندیاں تو عام انتخابات کے وقت بھی تقریباً ہر حلقے میں موجود تھیں، عام انتخابات میں تو ن لیگ کے امیدوار جیت گئے اور کافی اچھی حالت میں جیتے، اب حکومت کی تمام مہربانیوں کے باوجود اگر حکمران جماعت سیٹ ہارتی ہے تو اس کے پیچھے کچھ اور عوامل و کواکب بھی کارفرما ہیں، جن کا سامنا کرنے کے بجائے ن لیگ کے احباب نظریں چرانے کی راہ اپنانے پر گامزن ہیں۔

اصل وقوع جو اس ضمنی الیکشن پر اثر انداز ہوا ہے وہ ن لیگ حکومت کی چند ماہ کی وہ کارکردگی ہے جو اس حکمران جماعت نے دکھائی ہے۔ عوام کے ہر طبقے اور عوام سے تعلق رکھنے والے ہر معاملے میں ن لیگ نے جس طرح سے ایٹم بم ٹائپ اقدامات کیے ہیں عوام ن لیگ کی جانب سے روا رکھی جانے والی ان پالیسیوں سے شدید مایوس نظر آتے ہیں بلکہ کئی طبقات تو باقاعدہ حکومت اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر حکومت سے برسرپیکار ہیں۔ مہنگائی، لگے لگائے روزگار والوں کو بے روزگاری کی کیفیت میں دھکیلنے، بجلی اور گیس و تیل کی قیمتوں میں بے رحمانہ اضافے یہ وہ حکومتی اقدامات ہیں جن کے جواب میں فیصل آباد کی صوبائی نشست پر عوام نے اپنا فیصلہ ن لیگ کے خلاف صادر کیا ہے۔

بلدیاتی انتخابات جو اس سے قبل کسی بھی حکمران جماعت کی حد تک محض ایک رسمی کارروائی ہوا کرتی تھی اب کی بار حکمران جماعتیں شاید بلدیاتی انتخابات میں اتنی آسانی سے اپنے نمایندوں کو کامیاب کروانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ دراصل عوام کو ن لیگ سے ریلیف کے ریلے کی جتنی قوی امید تھی ن لیگ حکومت نے عوام کو اتنا ہی مایوس کیا ہے۔ شاید حکومت کی ٹاپ لیڈرشپ کو احساس نہیں لیکن ن لیگ کے بعض ایم این اے، اے ایم پی ایز نجی محفلوں اور اپنے دوست یاروں سے ملاقاتوں میں اپنی حکومت کی پالیسیوں پر کسی قدر تشویش کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ پتلی حالت ن لیگ کے ان بلدیاتی امیدواروں کی ہے جو بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کے جھنڈے تلے عوام کے ووٹوں کو اپنی سیاسی ٹوکری میں ڈالنے کے خواہش مند ہیں۔

درون خانہ ن لیگ کی سیکنڈ لیڈرشپ اس درد سر میں مبتلا ہے کہ حکومت کی ہر طبقہ فکر سے چھیڑ خانی کے بعد وہ ماتھوں پر کون سا حکومتی ''سہرا'' سجا کر عوام کے مختلف طبقات سے ووٹ مانگنے جائیں گے؟ کیا سرکاری ملازمین، کیا مزدور، کیا چھوٹے تاجر، کیا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد۔ ن لیگ حکومت نے نہ صرف ان چھوٹے عوامی طبقات کو مایوس کیا ہے بلکہ ان کے مسائل میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اگر بلدیاتی اداروں میں حکمران جماعت کی مخالف سیاسی جماعتوں نے کامیابی حاصل کی اس کے بعد ن لیگ کے ہاتھوں سے عوامی زمام مکمل طور پر نکل جائے گی اور ن لیگ یہ خطرہ کسی صورت مول لینے کے موڈ میں نہیں۔ پھر اگر ن لیگ بلدیاتی انتخابات میں اپنی ''حکومتی مرضی'' قسم کے نتائج چاہتی ہے تو راج دلاری حکومت کو عوام کے مسائل جنگی بنیادوں پر حل کرنے ہوں گے اور عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ ن لیگ نے جو جنگی مہمات شروع کر رکھی ہیں ان کو ترک کرنا ہوگا۔ بہ صورت دیگر نوشتہ دیوار پر جو لکھا ہے اس کا فیصلہ بلدیاتی انتخابات میں ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔