سیاسی و اجتماعی تدبر بحران کا حل

ملکی سیاست نے بڑی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔


Editorial November 30, 2019
ملکی سیاست نے بڑی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بطور آرمی چیف6 ماہ تک فرائض سرانجام دینے کی مشروط اجازت دیدی، عدالت نے قرار دیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوبارہ تقرری، تعیناتی قانون سازی سے مشروط ہو گی اور قانون سازی آرمی چیف کے عہدے کی میعاد اور دوبارہ تقرری کے سوالات بھی طے کرے گی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

ملکی سیاست نے بڑی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا،ایک بار پھر جمہوری نظام نے میچیورٹی دکھائی، پارلیمنٹ کی بالادستی کو شفاف عدالتی پروسیس میں بنیادی اہمیت ملی اور جمہوریت کی استقامت پر اہل سیاست نے تدبر کا مظاہرہ کیا، اعصاب شکن صورتحال کا جو بھی حل نکالا گیا وہ ملک وقوم کے مفاد میں ہے، بظاہر بحران حل ہوگیا،تاہم سیاسی صورتحال کے آیندہ جمہوری تسلسل کا سوال بنیادی اہمیت کا حامل رہے گا، اور آیندہ سیاسی وجمہوری رویے ، حکومت واپوزیشن کی اجتماعی سیاسی دور اندیشی اور رواداری، خیر سگالی اور پارلیمنٹ ملکی سیاست میں ٹھہراؤ، وقار اور اعتدال و تناؤ سے آزاد جمہوری عمل میں اپنا مثبت و صائب کردار کا تعین کریں گے۔

سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت قانون سازی اور اپوزیشن سے رابطوں کے فیصلے کا عندیہ دیاگیا، عدالتی مختصر فیصلہ میں کہا گیا کہ حکومت بار بارموقف بدلتی رہی ، تحمل دکھاتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ پرچھوڑدیا گیا، ایکٹ آف پارلیمنٹ سے قوانین کی وضاحت کی جائے ، فل بینچ نے قراردیا کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی، عدالتی مداخلت سے مسئلے حل ہوجائیں گے،دروازے کھلے ہیں، کوئی آئے تو سہی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوئی ہے، عدلیہ سمیت تمام اداروں میںمثالی ہم آہنگی نظر آئی، ملک مشکل وقت سے نکل کر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، ملک میں عدم استحکام کی خواہش رکھنے والوں کو مایوسی ہوئی، انھوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ عظیم جج ہیں۔

حکومتی قانونی ٹیم نے موقف اختیار کیا کہ قانون سازی میں اپوزیشن نے ساتھ نہ دیا تو توہین عدالت ہوگی، سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق فوج کی کمانڈ اور کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہوگا اور اسی آرٹیکل کے تحت صدر وزیراعظم کی سفارش پر چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کر سکتے ہیں، چیف آف آرمی اسٹاف کیونکہ فوج کی کمانڈ، ڈسپلن ، ٹریننگ ، جنگ کی تیاری، انتظامی امور اور جنرل ہیڈ کوارٹر کے سربراہ ہوتے ہیں اس لیے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرمی چیف کی تقرری، توسیع اور دوبارہ تعیناتی کے قوانین کوپارلیمنٹ پر چھوڑ رہے ہیں، حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قوانین کی وضاحت کرے۔ موجودہ آرمی چیف کے عہدے کی میعاد اور شرائط کا انحصار بھی آیندہ ہونے والی قانون سازی پر ہو گا۔

خصوصی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پورے سیاسی ، عدالتی اورقانونی عمل میں ملک میں جمہوری تسلسل برقرار رہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ جمہوریت کو پنپنے کے مواقعے ملے ہیں، پارلیمانی نظام ''ٹرائل اور ایرر'' کے مرحلہ سے بھی گزرا، عدلیہ نے آئین و قانون میں رہتے ہوئے تدبر و حکمت کے طے شدہ پیمانے کے مطابق قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو تفویض کیا جو ملکی سیاست وجمہوریت کی بڑی جیت ہے۔ اس پورے عمل کو بادی النظر میں کسی کی جیت یا ہار نہیںسمجھنا چاہیے، اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ تین ماہ میں قانون بنالیں گے، عدالتی بینچ نے ریمارکس دیے کہ 72سال میں نہیں بنا تو اتنی جلدی کیسے بنائیں گے۔

تاہم حکومتی ذرایع اور سیاسی مبصرین نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ سیاست دان اجتماعی بصیرت سے مزید کام لیتے ہوئے ایک ماہ یا دو تین ماہ میں یا ٹاسک مکمل کرسکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس تاریخی موقعے پر ایک ''پیج'' پر رہیں،اور پارلیمانی اسپرٹ کا مظاہر ہو۔ آئینی ماہر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے آئینی ترامیم کرانا نا ممکن ہوگا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے پر آئینی ذمے داری پوری کر یگی۔

عدالتی فیصلہ کے حوالہ سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آئے ، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے روشن مستقبل کی جانب فقط ایک ہی راستہ جاتا ہے جس کا نام ہے آئین و قانون پرمکمل عملدرآمد۔

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ عدالت کا تفصیلی فیصلہ پڑھ کر رد عمل دیں گے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ توسیع پرآئین بہت واضح جب کہ تبدیلی کی ضرورت نہیں، ان کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ بروقت ہے،ملک کو بے یقینی کی صورت میں رکھنا مفاد میں نہیں تھا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مجھے جو یقین دہانیاں کرائی گئیں وہ پوری ہوتی نظر آرہی ہیں، انھوں نے موجودہ صورتحال کے وسیع تر تناظر میں کہا کہ تمام مسائل کا حل فوری طور پر صاف اور شفاف انتخابات ہیں۔

امید کی جانی چاہیے کہ آیندہ صورتحال کو درست سمت دینے اور جمہوری بریک تھرو کے لیے اسی دوراندیشی اور تدبر و تحمل کا مظاہر کیا جائے گا تاکہ جمہوریت ٹریک پر رہے جب کہ آزاد عدلیہ کے وقار اور تمام اسٹیک ہولڈرز میں ہم آہنگی کا خواب بھی ہمیشہ کے لیے شرمندہ تعبیر ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں