سیاسی منظر اورعوام
ماضی کے بیانات کو سیاست دان اپنے حوالے سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کالم کا آغازکن الفاظ سے کیا جائے، قول وفعل کے تضاد میں قوم الجھ کر رہ گئی ہے۔ اہل سیاست ایسے ایسے بیانات دیتے ہیں کہ عوام کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوکر رہ جاتی ہیں، عملی وفکری حلقے حیران وپریشان ہیں کہ اس ملک میں آخر ہوکیا رہا ہے؟ جو غیر تعلیم یافتہ عوام ہیں وہ سیاستدانوں کے ساتھ ڈفلی بجا رہے ہیں اورجو باشعور ہیں وہ سوچ سوچ کرہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔
جب صورتحال تصادم کی طرف بڑھتی ہے تو اورکوئی طاقت فائدہ اٹھا لیتی ہے۔ پورے ملک کا نظام درہم برہم ہے۔ جے یوآئی(ف) کے آزادی مارچ اور دھرنوں کے نتیجے میں جو مطالبہ سامنا آیا ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں۔ یہ کونسی روایت ہے؟ ایسا ہی چلنا ہے اورکرنا ہے تو پھر ملک میں جنرل الیکشن کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یوں تو ہر آنے والا شخص استعفیٰ مانگے گا یہ انتہائی غیر جمہوری سوچ ہے اور اس استعفیٰ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ماضی کے بیانات کو سیاست دان اپنے حوالے سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو جناب والا علم اور دلائل تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے اراکین اس دھاندلی زدہ اسمبلیوں سے استعفے دے دیں چونکہ دھاندلی زدہ اسمبلیوں سے مراعات لینا بھی ''خصوصی مراعات'' کے زمرے میں ہے کیونکہ آپ کے اور حکومت کے اختلافات کی وجہ سے درس و تدریس، اسپتالوں کا نظام، کاروباری حلقہ، ملازمت پیشہ افراد، ٹرانسپورٹ، ریلوے، پولیس، غرض ہر جگہ کام رکا ہوا ہے۔
اپوزیشن اور حکومت کے افراد کے بے سروپا بیانات کی وجہ سے پراسرار خاموشی نے چادر اوڑھ لی ہے، اس ساری پریشان کن صورتحال میں جب تمام سرکاری ادارے اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں صرف دو ادارے عدلیہ اور فوج ہیں جو اپنا کام خوش اسلوبی سے کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ خدارا سیاسی معاملات اور بیانات کی حدت کو کم کیجیے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی باتوں پر رائی کا پہاڑ نہ بنائیں۔ قوم کے مضبوط اعصاب اب جواب دینے والے ہیں۔ کب تک یہ دیومالائی کہانیاں سنا کر آپ ان کا دل لبھانے کی ناکام کوشش کرتے رہیں گے۔
میں نے اپنے پچھلے دوکالموں میں وزیر اعظم عمران خان سے گزارش کی تھی کہ آپ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے پر اپنی توجہ مرکوز کردیں۔ یہ تین ماہ قبل کی بات ہے اور یہ بھی لکھا تھا کہ نومبر اور دسمبر 2019ء آپ کے لیے مشکلات کے مہینے ہوں گے مگر افسوس کہ حکومتی وزرا اور مشیر حضرات ، اخبارات کے کالمز کو جو مثبت اور مفید تجاویز پر مشتمل ہوتے ہیں پر توجہ نہیں دیتے۔ خاص طور پر ہم جیسے قلمکاروں کی تحریر کو بغور پڑھنے کے بجائے اسے مفروضوں کی دنیا سمجھتے ہیں۔
ایران اور انڈونیشیا سے پیاز نہیں آرہی تھی مگر آنے لگی تو اخبارات کے مطابق پیاز ایکسپورٹ کی جا رہی ہے۔ ٹماٹر کہیں بھی 17 روپے میں فروخت نہیں ہورہا، خدارا ، اس ایکسپورٹ کو بند کیجیے کہ پیاز 100 روپے کلو فروخت ہورہا ہے ۔اور ٹماٹر 200روپے فی کلو، عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ پیاز کے بغیر سالن نہیں بن سکتا۔ اپوزیشن نے مہنگائی کے حوالے سے غریبوں کی ترجمانی کی ہے، اس وقت بغیر سائلنسرکے سیاست عروج پر ہے اور شیخ رشید ہرجگہ کہتے ہیں کہ میں پہلے سے کہہ رہا ہوں کہ نواز شریف چلے جائیں گے۔ آپ کوکہنے کی ضرورت نہیں تعلیم یافتہ طبقہ جو ہمیشہ خاموش رہتا ہے اسے بہت پہلے سے معلوم ہے کہ نواز شریف علاج کے حوالے سے چلے جائیں گے۔
بیٹے رب کی دین اور بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں میاں نواز شریف کی بیماری کو مریم نواز بہت سنجیدگی سے لے رہی ہیں اور لینا بھی چاہیے کہ وہ ان کے والد ہیں مگر ان کے دو صاحبزادے جو پاکستانی شہریت نہیں رکھتے انھیں بھی تو مریم نواز کی طرح سوچنا چاہیے مگر والد کے حوالے سے ان کا کوئی بیان نہیں آتا جب کہ مریم تو خود مشکلات کا شکار ہیں۔ نواز شریف اگر لندن علاج کی غرض سے چلے جاتے ہیں تو انھیں کس بات کی فکر ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے دو صاحبزادے ہیں اور انھیں کیا چاہیے؟
یہ بات ہم نہیں کہہ رہے تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید خان بھی یہی کہہ رہے ہیں یہ سیاست دان نہ جانے کیسے کیسے بیانات دیتے ہیں جو عوامی امنگوں کے بالکل برخلاف ہوتے ہیں، خوف کی سولی نے ہمارے کچھ سیاستدانوں کو مخلصانہ حکمت عملی سے کوسوں دور کر دیا ہے بس دست وگریباں کا سلسلہ جاری ہے ۔ بغیر سوچے سمجھے الزامات کے تیر ایک دوسرے پر برسائے جا رہے ہیں۔ عقل نے ان کی کام کرنا چھوڑ دیا ہے صرف زبانی حکمت عملی سے سیاست کی جا رہی ہے۔ ان کے کچھ بیانات تو ایسے ہوتے ہیں جن پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان سیاستدانوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو ذہن سے کھرچ کر نکال دیا ہے اب ان کی سیاست صرف اور صرف معصوم اور غیر تعلیم یافتہ طبقے کے لیے رہ گئی ہے۔
گزشتہ دنوں (ن) لیگ کی معروف خاتون لیڈر فرما رہی تھیں کہ عمران خان اپنے بیٹوں کو پاکستان لائیں، اگر وہ پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ ایک سیدھا سادھا انسان اس بیان کو سننے کے بعد یقینا ان محترمہ کو دلی طور پر خراج تحسین ضرور پیش کرے گا، مگر جو تعلیم یافتہ ہے بے شک اس کا تعلق غریب و متوسط طبقے سے کیوں نہ ہو وہ تو ذمے دار منصب پر فائز اس سیاستدان کے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا اس کا جواب تو تعلیم یافتہ شخص ہی دے سکتا ہے۔
انھیں وزیر اعظم کے صاحبزادوں کی فکر ہے کہ وہ پاکستان کیوں نہیں آتے اور آپ کے لیڈر کے بھی دو صاحبزادے باہر ہیں اور مزے کی بات دیکھیں کہ وہ پاکستان بھی نہیں آنا چاہتے جب کہ ان کے والد علیل ہیں۔ان سیاستدانوں کو پتہ نہیں کہ قوم اب ٹی وی اسکرین کی تگ و دو سے بہت دور نکل گئی ہے ادھر کرائم ہوتا ہے اور پانچ منٹ کے بعد واٹس ایپ پر ویڈیو کی صورت میں خبر منظر عام پر ہوتی ہے۔
بات پھر وہی آجاتی ہے کہ اب سیاست صرف معصوم اور غیر تعلیم یافتہ عوام تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور یہ سیاسی لوگ ایک لطیف احساس کے ساتھ سیاست کے ناہموار میدان میں رواں دواں ہیں انھیں اپنی ذہنیت کو کشادہ کرنا ہوگا تاکہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی ان کا احترام کرتا نظر آئے مگر یہ لاتعداد غلطیاں کرنے کے باوجود صفحہ قرطاس پر اپنے آپ کو نمایاں رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
یہی تعلیم یافتہ طبقہ تھا جس نے تبدیلی کے لیے انتظامی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا جس کی زندہ مثال لاہور، ملتان اورکراچی قابل ذکر ہیں۔ میں پھر وزیر اعظم عمران خان سے واضح طور پرکہہ رہا ہوں کہ وہ خدارا مہنگائی جو خود ساختہ ہے۔ اس پر عملی طور پرکام کریں۔
پچھلے دنوں ایک ویڈیو منظر عام پر سبزی منڈی کراچی اور لاہور کے حوالے سے تھی اسے دیکھنے کے بعد ریاست ایک مذاق لگی۔ میں پھرکہتا ہوں کہ خان صاحب دن رات ایک کر دیں غریب مہنگائی کی وجہ سے آپ سے دور ہو رہا ہے اس کی چیخیں نکل گئی ہیں ،صوبے کا وزیر اعلیٰ کون ہے آپ اس کو چھوڑ دیں۔ سبزی منڈیوں میں آڑہتی بیٹھے ہیں جنھوں نے آپ کو ناکام کرنے کی پوری کوششیں کی ہیں۔ خدارا ، اس پر توجہ دیں باقی قوم آپ کے ساتھ ہے آج اپوزیشن اس پرکھل کرکھیل رہی ہے۔