جدہ مکہ اور مدینہ کا روحانی سفر پہلا حصہ

تاریخ دانوں کے مطابق جدہ ایک قدیم ماہی گیر بستی تھی جس کی بنیاد مچھیروں نے 522 قبل مسیح میں رکھی۔

بحیرہ احمر پر واقع مشہور سعودی بندرگاہ دنیا کے بہترین تجارتی راستوں اور مرکزی راستوں میں سے ایک ہے عربی زبان میں جدہ کے معنی ہیں ''دادی'' بہت سے مسلمان اس عقیدے کے حامل ہیں کہ بنی نوع انسان کی ماں اماں حوا کا مدفن یہی مقام ہے۔ جدہ ہوائی اڈہ پر اترنے کے بعد عمرہ کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوتے ہیں۔

یہاں سے مکہ بہ ذریعہ کار جاتے ہوئے راستے میں زیارات کا موقع ملتا ہے جس سے میں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ پرائیویٹ ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا وہ سعودی عرب میں عرصہ 22 سال سے ہے 18 سال کی عمر میں یہاں آیا۔ سعودی عرب کے ہر علاقے چھوٹے بڑے شہروں، گاؤں دیہاتوں سارے چپے چپے سے واقف ہے۔ یہ میرے لیے فائدہ مند تھا کیونکہ وہ دوران مسافت سب کچھ دکھاتا جائے گا۔

مجھے بتایا کہ اماں حوا یہاں ایک قدیم قبرستان میں مدفون ہیں۔ اس قبرستان کا دروازہ بند چوکیدار متعین ہے، لوح مزار سے محروم ان قبروں میں اماں حوا کی قبر کی شناخت کسی طرح ممکن نہ تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ 1928ء تک قبر کا نشان موجود تھا جسے حجاز کے اس وقت کے گورنر شہزادہ فیصل کے حکم سے مٹا کر زمین کے ساتھ ہموار کر دیا گیا۔ رہے سہے آثار مٹانے کے لیے 1975ء میں قبرستان کے اس حصے کو پختہ کردیا گیا۔

جہاں روایتی کہانیوں کے مطابق اماں حوا آسودہ خاک ہیں۔ بے نشان قبروں کی اس قطار میں اماں حوا کی قبر کی شناخت کے لیے حوالہ ممکن نہیں۔ قدیم تاریخ دانوں مہم جو سیاحوں کے بیان کردہ روایات جن کا ماخذ یقینی طور پر بتائی گئی، مقامی لوگوں کی سینہ بہ سینہ چلتی کہانیاں ہونگی اس روایات کو تقویت دیتی ہیں کہ اماں حوا کی آخری آرام گاہ اس جگہ واقع ہے ۔ ان روایات کی تصدیق مورخ ابن بطوطہ نے کی ہے اور آخری نبی حضرت محمدؐ کے بعض صحابہ کی بیان کردہ کچھ روایات سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسی مقام پر اماں حوا مدفن ہیں۔

بحیرہ احمر پہ واقع قدیم بندرگاہ جدہ آج سعودی عرب کے مغربی ساحل پر ایک بھرا ہوا خوشحال جدید شہر ہے۔ دنیا کے قدیم راستے پر واقع یہ قدیم شہر میں جدید سہولتوں سے آراستہ و مزین بندرگاہ اور ہوائی اڈہ جو دنیا بھر سے آنے والے روزمرہ مسافروں کو علاوہ حج کے زمانے میں لاکھوں عازمین حج کو سفر کے دوران آرام و سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس شہر میں جہاں بھی جائیں بلند و بالا شاندار عمارتیں دیکھ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق جدہ ایک قدیم ماہی گیر بستی تھی جس کی بنیاد مچھیروں نے 522 قبل مسیح میں رکھی۔ اس شہر کی حقیقی ترقی کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں ہوا جب بحیرہ ہند کے تجارتی راستوں پر ایک مقام مرکزی حیثیت سے نمودار ہوکر مستحکم ہوا۔ ہر قسم کا تجارتی سامان اسی راستے سے مکہ مکرمہ پہنچتا تھا۔

اس کے علاوہ بحری راستے سے آنے والے عازمین حج اسی بندرگاہ پر اترتے تھے پاکستان سے بھی بحری جہاز حاجیوں کو لے جایا کرتے تھے ان میں 3 بحری جہازوں کے نام مشہور ہیں سفینہ حجاج، سفینہ الشمس، سفینہ البدر جوکہ اب موجود نہیں ہیں چونکہ اب تمام لوگ بذریعہ ہوائی جہاز جاتے ہیں۔

اس دہری حیثیت نے جدہ کو ایک کثیرالتہذیبی شناخت کا مرکز بنا دیا لیکن سب سے نمایاں خصوصیت ایک منفرد روایتی طرز تعمیر ہے۔ تاریخی اہمیت کا حامل جدہ شہر بحیرہ ہند کی تجارتی گزرگاہوں کے راستے پر ہونے والی تجارتی ترقی کا آئینہ دار ہے جو 1969ء میں نہرسوئز کے افتتاح کے بعد ہوئی۔ مقامی ترقی کی زبردست لہر نے پورے شہر کو ٹھوس معاشی استحکام بخشا۔ 1970ء کے آخر تک جدہ کی آمدنی کا تخمینہ دس لاکھ تھا۔

1993ء میں دگنی ہوچکی تھی موجودہ دور میں پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ تقریباً 36 لاکھ آبادی کے ساتھ سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ معاشی میدان میں جدہ کی توجہ زبردست سائنس اور انجینئرنگ کے میدان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہے تاکہ ان میدانوں میں سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کو قیادت فراہم کی جاسکے۔ انفرادی طور پر اب افریقہ میں جدہ کی چوتھی حیثیت ہے۔ اس شہر نے بہت کم وقت میں غیر معمولی ترقی کی جو مملکت کے ترقیاتی منصوبے کا تقاضا تھی۔


لیکن ساتھ ساتھ عوامی ترقی کے جذبے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جو ترقیاتی منصوبوں کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرتا ہے۔ اس وقت جدہ جدید فن تعمیر کے خوبصورت نمونے کا حامل ہے۔ سڑکوں کے کنارے درختوں کی قطاریں اور شہر میں جا بجا کانسی کے خوبصورت نمونوں سے شہر کو دلفریب بنانے میں سرکاری منصوبوں کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہیں۔

غدیر خم (Ghadeer Khum) جدہ سے جلد مکہ روانہ ہونے کی زائرین کی وجہ خاص ہوتی ہے کیونکہ عمرہ کی ادائیگی جلد حاصل کی جاسکے۔ میقات پہنچ کر احرام باندھنا ہوتا ہے اس کے علاوہ اور بھی مقامات ہیں جہاں عمرہ یا حج کی نیت کرکے احرام پہنا جاتا ہے۔ چھ مقامات کو میقات کا درجہ حاصل ہے۔

ہائی وے پر257 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ربیغ جانے والے راستے کو ڈرائیور نے کار موڑ لی۔ ربیغ بحیرہ احمر کے کنارے واقع میقات ہے جسکے گرد و نواح میں ایک تاریخی اہم مقام طوریر واقع ہے۔ ربیغ جانیوالی شاہراہ پر ربیغ جانے کے لیے بائیں ہاتھ مڑنے کے بجائے دائیں ہاتھ کے راستے پر ہوجائیں چند گز آگے بائیں جانب مڑ جائیں۔ خم غدیر کو رہنمائی کرنیوالے سارے نشانات آتشزدگی پر مٹ چکے ہیں۔

کھجور کے درخت آگ کی نظر ہو چکے کسی زمانے میں یہاں ایک چھوٹی سی عمارت بھی ہوتی تھی جو تباہ کردی گئی یہاں تک کہ کنواں بھی ختم کردیا گیا۔ غدیرکے مقام کی تاریخی اہمیت اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ سے پہلے اور آخری حج کے حوالے سے ہے جو آپ حضرت محمدؐ نے 10 ہجری میں ادا کیا اس تاریخی حج کے بعد آپؐ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے۔ بروز اتوار 18 ذی الحجہ کو آپؐ اس مقام پر پہنچے ۔ غدیر سے ربیغ کے لیے روانہ ہوئے ربیغ کی مسجد میقات الجمفہ یہاں غسل کرکے عمرہ کی ادائیگی کی نیت کی اور احرام باندھ لیا۔ یہاں سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

راستے پر رواں دواں تھے لبوں پہ لبیک اللہ ہما لبیک کی صدائیں تھیں۔ سارے راستے یہ دعا دہراتے رہے، عربی زبان میں عمرہ کے معنی دورہ کرنے کے ہیں۔ حاضری دینے، خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور صفا و مروہ پر دوڑ کر سات چکر لگانے کا نام سعی ہے اسلامی اصطلاح میں سعی کہا جاتا ہے۔

مردوں کے لیے احرام جوکہ سوتی بغیر سلائی کا کپڑا ہوتا ہے غریب ہو یا امیر ایک ہی جیسا احرام ہوتا ہے، اس میں کسی غریب امیر کی کوئی تمیز نہیں۔ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ حج یا عمرہ کے لیے جب احرام باندھ لیا جاتا ہے تو جو بہت سی اشیا عام زندگی میں حلال ہیں وہ حرام قرار پائی جاتی ہیں۔ ان میں خوشبو لگانا، مردوں کا سر ڈھانپنا، سلا ہوا لباس پہننا، عورتوں کا چہرہ چھپانا، شیشہ دیکھنا، بند جوتے پہننا۔ موزے پہننا، شکارکرنا، کیڑے مکوڑوں کو مارنا، ازدواجی تعلق، بننا سنورنا، ناخن تراشنا، ہتھیار رکھنا، مردوں کے لیے سایہ دار جگہ تلاش کرنا شامل ہیں۔

خواتین صرف پاکیزگی کے ایام میں ہی عمرہ ادا کرسکتی ہیں۔ مکہ پہنچتے ہی سامان ہوٹل میں چھوڑا، مسجد الحرام خانہ کعبہ کا رخ کیا تاکہ خانہ کعبہ کا طواف کیا جاسکے جو عمرہ کا دوسرا اہم رکن ہے۔ طواف کرنے کے لیے حرم کے گرد سات چکر لگائے طواف کا آغاز مسجد الحرام میں نصب سیاہ پتھر سے ہوتا ہے جو حجرہ اسود کہلاتا ہے۔ طواف گھڑی کے الٹے رخ پر کیا جاتا ہے۔ اس حرکت کو گھڑی کی مخالف سمت میں چکر لگانے کو کہتے ہیں۔ طواف کے دوران کعبہ بائیں جانب تھا ہر بار حجر اسود کے سامنے گزرتے ہوئے اس کی جانب ہاتھ سے اشارہ کر دیتے اور زبان سے بسم اللہ اور اللہ اکبر کے الفاظ ادا کرتے۔

کعبہ زمین پر بنایا جانے والا پہلا گھر ہے جو اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا اس کی تعمیر سیدنا حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر کی۔ خانہ کعبہ پر کئی بار حضرت اسماعیلؑ نے غلاف چڑھایا۔ عمارت کی دیوار نیچی تھی اس پر چھت نہ ڈالی گئی تھی، جنھوں نے اس کی تعمیر کے صدیوں بعد اس کی دیواریں بلند کیں اس پر چھت ڈالی۔ کعبہ مستطیل دیواروں کی حامل عمارت ہے جو گرے نائیٹ نامی پتھر کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔

اس کی لمبائی 42 فٹ اور چوڑائی 36 فٹ ہے۔ اندرونی حصے کا فرش زمین سے سات فٹ بلند ہے، کعبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ تمام مسلمان قبلہ رخ نماز پڑھتے ہیں مسلمان اس سے ایک علامتی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story