ہے کوئی کراچی جیسا تخلیقی شہر

ہم کراچی والے ویسے ہی لاہور کی کچھ خصوصیات کے باعث اس سے جلے بُھنے رہتے ہیں۔

ہم کراچی والے ویسے ہی لاہور کی کچھ خصوصیات کے باعث اس سے جلے بُھنے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ارے بھئی یونیسکو! یہ کیا بات ہوئی، لاہور کو تخلیقی شہر قرار دے کر اسے تخلیق کار شہروں کی فہرست میں شامل کرلیا۔

ہمارے کراچی پر کیوں نظرکرم نہ کی؟ کیا ہم سمجھیں کہ ۔۔۔یہ جو لاہور سے محبت ہے۔۔۔یہ کسی اور سے محبت ہے؟ ہم کراچی سے ہونے والے اس امتیازی سلوک پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔ ہم کراچی والے ویسے ہی لاہور کی کچھ خصوصیات کے باعث اس سے جلے بُھنے رہتے ہیں۔

جیسے لاہوری بڑے فخر سے کہتے ہیں،''جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا۔'' کراچی والے سوچتے ہی رہ گئے کہ اس کے مقابلے میں اپنے شہر کے لیے کوئی کہاوت ایجاد کریں، مگر اب تو شہرقائد کا یہ حال ہے کہ بس یہ کہا جاسکتا ہے''جس نے کراچی دیکھ لیا اس نے یہاں پیدا ہونے سے انکار کردیا۔'' اور یہ مغلوں کی حرکت دیکھیے، لاہور میں دھڑادھڑ عمارتیں بنا دیں۔

کراچی میں کوئی کچراکُنڈی ہی بنا جاتے، اپنے کسی بادشاہ کو کراچی میں دفن ہی کردیتے، کم ازکم مغلیہ سلطنت کے آخر والے بادشاہوں کی تدفین تو کراچی میں ہوسکتی تھی، جن کے پاس میئرکراچی سے بھی کم اختیارات تھے۔ ہماری قسمت میں شاہ لکھے بھی تھے تو سائیں قائم علی شاہ جیسے۔ اور تو اور ہم اہل کراچی دریا سے بھی محروم ہیں، اسی لیے یہاں خون کی ندیاں بہاکر دریا کا متبادل دینے کی کوششیں بڑے خلوص سے کی جاتی رہی ہیں۔ اتنی محرومیاں کیا کم تھیں کہ یونیسکو نے ان میں مزید اضافہ کردیا۔

اگر لاہور کو ادب کے زمرے میں یہ اعزاز دیا گیا ہے تو ہمارا شہر تو ادب سمیت کتنے ہی شعبوں میں تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ فن تعمیر ہی کو لیں۔ چائنا کٹنگ جیسی تخلیق بیجنگ اور شنگھائی والے بھی نہ کرسکے جو ہم کراچی والوں نے کر ڈالی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے ذریعے ٹریفک کی تیزرفتاری پر قابو پانے کا خیال دنیا کے کسی اور شہر کے باسیوں کو آیا؟ سڑکوں پر گڑھے کرکے پانی جمع کرنے کا اچھوتا آئیڈیا قلت آب کے اس دور میں کراچی کے سوا دنیا کا کوئی شہر پیش کرسکا؟

اب بات ہوجائے مصوری کی۔ یہ جو اسٹریٹ آرٹ کے چرچے ہیں یہ دنیا نے ہم سے ہی سیکھا ہے۔ پان اور گُٹکے کی پچکاریوں سے شہر کی دیواروں پر جو شاہ کار تخلیق کیے گئے ہیں انھوں نے پورے کراچی کو ایک گیلری میں تبدیل کردیا ہے۔ اتنے لال تو ماسکو اور بیجنگ جیسے کمیونسٹ شہر نہیں ہوسکے۔




جتنا ہم نے سرمایہ داری کے پاکستانی مرکز کو کرڈالا۔ دیواروں پر نقش دل اور تیر کی وہ تصاویر اس کے علاوہ ہیں جو بتاتی ہیں کہ ان دنوں ''ایس'' یعنی شبو اور ''بی'' مطلب بَنے کے درمیان زوردار عشق ''چل ریا ہے۔'' کچھ عرصے پہلے تک تو ہمارے شہر میں گلی گلی اور چوراہوں پر ''ایک صاحب'' کی قدآدم تصاویر لگی تھیں، دراصل بات یہ ہے کہ پورے شہر میں ایک ہی تصویر کی نمائش لگی تھی، پھر یہ ایگزیبیشن آپریشن کی نذر ہوگئی۔ یہ ایک ہی ''ماڈل'' کی تصویر کو کئی طرح سے پیش کرنے کا مقابلہ تھا، گویا ''اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔'' ایسی تخلیقی اُپچ کسی اور شہر میں ملے گی؟

گلوکاری کے شعبے میں تو ہمارا کراچی بے مثال ہے۔ یہاں خالصتاً سیاسی تقریریں بھی گانوں میں ڈھلتی رہی ہیں، یہاں تک کہ ۔۔۔گاتے گاتے بیٹھ گئی آواز ہمارے ''بھائی'' کی۔ تان سین کے بارے میں مشہور ہے کہ جب دیپک راگ الاپتے تو دیے خودبہ خود جلنا شروع ہوجاتے تھے۔ کراچی میں تو ایسے ایسے ماہر فن پیدا ہوئے کہ دیپک راگ الاپ کر پورے شہر میں آگ لگادی۔ پرویزمشرف کے دور حکومت میں کراچی کی قیادت ''راگ درباری'' اونچے سُروں میں الاپتی رہی اور حکم راں کے سُر سے سُر ملاتی رہی۔ کاش اتنے سُریلے لوگوں کے شہر کو موسیقی کے صیغے ہی میں تخلیقی قرار دے دیا جاتا۔

اداکاری میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کیا یونیسکو والوں نے ان معروف سیاست داں کی وڈیو نہیں دیکھی جو کیمروں کا سامنا کرتے ہوئے کیمرامینوں کے عقب میں دور تک پھیلی خالی جگہ دیکھ کر یوں ہاتھ ہلا رہے تھے جیسے سامنے موجود لاکھوں کے مجمع کی پذیرائی کا جواب دے رہے ہوں۔ یہ وہی سیاست داں ہیں جنھوں نے مشہور زمانہ ''میرے پاس ماں ہے'' کے مکالمے پر پوری فلم بنا ڈالی۔ اداکار محمد علی مکالموں کی جذباتی طرزادائیگی خاص طور پر رونے کی اداکاری کے سبب ''شہنشاہِ جذبات'' کہے جاتے تھے، کراچی کی سیاست میں ایسے شاہانِ جذبات کی کمی نہیں جنھیں رونے پر ملکہ حاصل ہے۔

جلسہ ہو، ٹاک شو یا پریس کانفرنس جب یہ ''ٹُک'' روتے ہیں تو سمجھو میرتقی میر کی ساری شاعری، ہیرو سے بچھڑ کر روتی ہیروئنوں کے بین اور پاکستانی ڈراموں میں اور انھیں دیکھ کر بہانے جانے والے سارے ٹسوے ایک طرف اور ان سیاست دانوں کی اشک بہانے کی قابل رشک مشق دوسری طرف۔ حیرت ہے یونیسکو کو یہ فن کاری کیوں نظر نہ آئی۔

اور یونیسکو والو! کراچی جیسے باادب شہر کے مقابلے میں لاہور کو ترجیح کس بنا پر دے دی؟ ادب کے جو نظارے کراچی نے دکھائے کوئی دوسرا شہر کیا دکھا پائے گا۔ یہاں ایک زمانے میں ایسے اجتماعات ہوتے تھے جن کے شرکاء سرجھکائے باادب بیٹھے ٹیلی فون سے نشر ہونے والی تقاریر اور ''لیکچر'' سُنا کرتے تھے۔ یہ ادب برائے ادب نہیں ''ادب برائے زندگی'' تھا، جسے بعض لوگ ''ادب بچائے زندگی'' کہتے تھے! یہ ادبی وشعری ذوق ہی تو ہے کہ ہمارے شہر میں غیرشاعر بھی تخلص رکھنے لگے، جیسے ''کانا''،''کن کٹا''، ''ٹُنٹا''،''موٹا'' وغیرہ، یہ تخلص شعری ذوق وشوق ہی نہیں اصحاب تخلص کی انکساری کا بھی پتا دیتے ہیں۔ یہ حضرات شعر نہیں کہتے تھے خود ''شیر'' ہوتے تھے۔

اب بتاؤ یونیسکو! اتنی تخلیقیت دنیا کے کسی اور شہر میں ملے گی؟ تو پھر کہو تخلیقی شہر ہونے کے اعزاز کا حق دار لاہور تھا یا کراچی؟
Load Next Story