ای او بی آئی اسکینڈل وجاہت حسین پر بھی مال کمانے کا الزام
پلازے کی فروخت کیلیے فرنٹ مین کے ذریعے وجاہت کو150 ملین دیے،عبدالقیوم کا دعویٰ
QUETTA:
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر چوہدری وجاہت حسین بھی ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) میں 44ارب روپے کے اسکینڈل سے فائدہ اٹھانے والے بڑے ناموں میں شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چوہدری وجاہت حسین کا نام اس وقت سامنے آیا جب اسکینڈل کے ایک اہم کردار اور ای او بی آئی کے نام پر فرضی پراپرٹی ڈیل کرنے والے اور کرائون پلازہ کے فروخت کنندہ عبدالقیوم نے کیس کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کو بتایا کہ اس نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اپنی پراپرٹی انتہائی مہنگے داموں فروخت کرنے کیلیے 2012 میں متعدد بروکروز کو 330ملین روپے کی ادائیگی کی تھی اور اس رقم کا بڑا حصہ 150ملین روپے اس کے فرنٹ مین چوہدری مسعود وڑائچ کے ذریعے چوہدری وجاہت حسین کو ادا کیا گیا۔ ظفر گوندل کی سربراہی کے دور میں ای او بی آئی میں ہونے والی زمینوں کی غیرشفاف ڈیل سے قومی خزانے کو 44ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ اسلام آباد کے ایف 7سیکٹر میں کرائون پلازہ کی خریداری سمیت ای او بی آئی میں درجن بھر فراڈ لین دین کے بعد یہ معاملہ انکوائری کیلیے 2012 میں ایف آئی اے کو بھیجا گیا۔ چونکہ اس بڑے اسکینڈل میں اہم سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں، اس لیے ایف آئی اے کو ظفر گوندل سمیت کیس میں ملوث بڑے کرداروں کے خلاف نمایاں پیشرفت میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
پیپلزپارٹی کے اہم رہنما اور منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر کے چھوٹے بھائی ظفر گوندل گرفتاری سے بچنے کیلیے لمبے عرصے سے روپوش ہیں اور ایف آئی اے ابھی تک انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ایف آئی اے کو وڈیو بیان میں عبدالقیوم نے دعویٰ کیا کہ جس وقت وجاہت حسین وفاقی وزیر ترقی انسانی وسائل تھے تو انھوں نے کرائون پلازہ کی وزارت کو فروخت کیلیے فرنٹ مین مسعود وڑائچ کے توسط سے چوہدری وجاہت کو 150ملین بطور کک بیک دیے تھے۔ یہ پلازہ تھرڈ پارٹی کے تخمینے کے بغیر1.02بلین روپے میں خرید لیا گیا جبکہ مارکیٹ کے غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق اس پراپرٹی کی قیمت 2012میں 600ملین روپے سے زائد نہیں ہے۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے بات چیت کرتے ہوئے عبدالقیوم نے چوہدری وجاہت کو فرنٹ مین کے ذریعے 150ملین روپے دینے کا الزام دہرایا اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ پلازے کی ڈیل میں ہر کسی نے مال بنایا لیکن کک بیک لینے والے انتہائی بااثر ہیں، اس لیے ایف آئی اے سمیت کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔
میں نے چوہدری وجاہت سمیت کئی افراد کو کک بیک کی رقم دی لیکن (ق)لیگ کے رہنما سے پوچھ گچھ کرنے کی بجائے ایف آئی اے صرف مجھے تنگ کررہی ہے۔ عبدالقیوم کے دعوے کو اس بنک کی فوٹیج سے بھی تقویت ملتی ہے جہاں سے مسعود وڑائچ نے چوہدری وجاہت کی طرف سے کک بیک کی رقم وصول کی تھی۔ یہ فوٹیج اب ایف آئی اے کے قبضے میں ہے اور اس میں دکھایا گیا ہے کہ مسعود وڑائچ اور اس کا ایک ساتھی بنک میں عبدالقیوم کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور رقم وصول کرتے ہیں۔ فوٹیج میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وڑائچ کے بعض دیگر ساتھی بینک سے باہر 2ویگو گاڑیوں میں بیٹھے ہیں۔ عبدالقیوم نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ مسعود وڑائچ کک بیک کی رقم وصول کرنے کیلیے اسے گن پوائنٹ پر بنک لے کے آیا۔ عبدالقیوم ایک عجیب کردار ہے وہ ایک طرف ای او بی آئی اسکینڈل میں چوہدری وجاہت حسین اور دیگر بااثر شخصیات کو بھاری کک بیک دینے کا اعتراف کرتا ہے تو دوسری طرف وہ کسی بھی قیمت پر تحقیقات سے بچنا چاہتا ہے۔ اس کی دولت کمانے کی حرص نے قومی خزانے کو 600 ملین روپے کا نقصان پہنچایا۔
اس کے کرائون پلازہ کی فروخت اس کا واضح ثبوت ہے۔ پھر بھی وہ مصر ہے کہ ایف آئی اے اس سے پوچھ گچھ نہ کرے کیونکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری لے کر آیا۔ ایکسپریس کے رابطے پر عبدالقیوم نے کہا کہ خدارا میری جان چھوڑیں اور ظفر وڑائچ سمیت بڑے چوروں پر دھیان دیں کہ ای اوبی آئی نے آخر مجھ سے 1.02ارب میں کرائون پلازہ کیوں خریدا؟َ جبکہ اس کی مارکیٹ ویلیو اس سے کہیں کم تھی۔ دوسری طرف ایف آئی اے عبدالقیوم سمیت دیگر ملزموں سے تحقیقات کررہی ہے۔ اس نے ای او بی آئی کے بعض چھوٹے اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹوں سے تصدیق ہوتی ہے کہ ظفر گوندل اور اس کے ساتھیوں نے ای او بی آئی میں کرپشن کا ایسا کلچر رائج کیا جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے دور میں ای او بی آئی کا دفتر مسعود وڑائچ جیسے دلالوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔
البتہ مسعود وڑائچ دیگر ملزموں سے زیادہ چالاک نکلا اور عبدالقیوم کے بیان کی سن گن ملتے ہی وہ 2ماہ قبل امریکا فرار ہوگیا۔ وجاہت حسین پہلے ہی اپنے علاج کیلیے امریکا میں مقیم ہیں۔ رابطے پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سعود مرزا نے بتایا کہ عبدالقیوم کے وجاہت حسین پر الزام کی تحقیقات کی جائے گی البتہ مسعود وڑائچ کی گرفتاری اور امریکا سے واپسی کیلیے انٹرپول کو کیس بھجوا دیا گیا ہے۔ دریں اثنا بارہا کوششوں کے باوجود چوہدری وجاہت حسین سے بیرون ملک رابطہ نہیں ہوسکا تاہم (ق)لیگ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مصطفیٰ ملک نے بتایا کہ وجاہت حسین اپنے علاج کیلیے امریکا میں مقیم ہونے کے باعث اپنے موقف دینے کیلیے دستیاب نہیں۔ البتہ انھوں نے اس بات کی تردید کی وجاہت حسین کا مبینہ فرنٹ مین مسعود وڑائچ کبھی (ق)لیگ کا عہدیدار رہا ہے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر چوہدری وجاہت حسین بھی ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) میں 44ارب روپے کے اسکینڈل سے فائدہ اٹھانے والے بڑے ناموں میں شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چوہدری وجاہت حسین کا نام اس وقت سامنے آیا جب اسکینڈل کے ایک اہم کردار اور ای او بی آئی کے نام پر فرضی پراپرٹی ڈیل کرنے والے اور کرائون پلازہ کے فروخت کنندہ عبدالقیوم نے کیس کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کو بتایا کہ اس نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اپنی پراپرٹی انتہائی مہنگے داموں فروخت کرنے کیلیے 2012 میں متعدد بروکروز کو 330ملین روپے کی ادائیگی کی تھی اور اس رقم کا بڑا حصہ 150ملین روپے اس کے فرنٹ مین چوہدری مسعود وڑائچ کے ذریعے چوہدری وجاہت حسین کو ادا کیا گیا۔ ظفر گوندل کی سربراہی کے دور میں ای او بی آئی میں ہونے والی زمینوں کی غیرشفاف ڈیل سے قومی خزانے کو 44ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ اسلام آباد کے ایف 7سیکٹر میں کرائون پلازہ کی خریداری سمیت ای او بی آئی میں درجن بھر فراڈ لین دین کے بعد یہ معاملہ انکوائری کیلیے 2012 میں ایف آئی اے کو بھیجا گیا۔ چونکہ اس بڑے اسکینڈل میں اہم سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں، اس لیے ایف آئی اے کو ظفر گوندل سمیت کیس میں ملوث بڑے کرداروں کے خلاف نمایاں پیشرفت میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
پیپلزپارٹی کے اہم رہنما اور منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر کے چھوٹے بھائی ظفر گوندل گرفتاری سے بچنے کیلیے لمبے عرصے سے روپوش ہیں اور ایف آئی اے ابھی تک انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ایف آئی اے کو وڈیو بیان میں عبدالقیوم نے دعویٰ کیا کہ جس وقت وجاہت حسین وفاقی وزیر ترقی انسانی وسائل تھے تو انھوں نے کرائون پلازہ کی وزارت کو فروخت کیلیے فرنٹ مین مسعود وڑائچ کے توسط سے چوہدری وجاہت کو 150ملین بطور کک بیک دیے تھے۔ یہ پلازہ تھرڈ پارٹی کے تخمینے کے بغیر1.02بلین روپے میں خرید لیا گیا جبکہ مارکیٹ کے غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق اس پراپرٹی کی قیمت 2012میں 600ملین روپے سے زائد نہیں ہے۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے بات چیت کرتے ہوئے عبدالقیوم نے چوہدری وجاہت کو فرنٹ مین کے ذریعے 150ملین روپے دینے کا الزام دہرایا اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ پلازے کی ڈیل میں ہر کسی نے مال بنایا لیکن کک بیک لینے والے انتہائی بااثر ہیں، اس لیے ایف آئی اے سمیت کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔
میں نے چوہدری وجاہت سمیت کئی افراد کو کک بیک کی رقم دی لیکن (ق)لیگ کے رہنما سے پوچھ گچھ کرنے کی بجائے ایف آئی اے صرف مجھے تنگ کررہی ہے۔ عبدالقیوم کے دعوے کو اس بنک کی فوٹیج سے بھی تقویت ملتی ہے جہاں سے مسعود وڑائچ نے چوہدری وجاہت کی طرف سے کک بیک کی رقم وصول کی تھی۔ یہ فوٹیج اب ایف آئی اے کے قبضے میں ہے اور اس میں دکھایا گیا ہے کہ مسعود وڑائچ اور اس کا ایک ساتھی بنک میں عبدالقیوم کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور رقم وصول کرتے ہیں۔ فوٹیج میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وڑائچ کے بعض دیگر ساتھی بینک سے باہر 2ویگو گاڑیوں میں بیٹھے ہیں۔ عبدالقیوم نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ مسعود وڑائچ کک بیک کی رقم وصول کرنے کیلیے اسے گن پوائنٹ پر بنک لے کے آیا۔ عبدالقیوم ایک عجیب کردار ہے وہ ایک طرف ای او بی آئی اسکینڈل میں چوہدری وجاہت حسین اور دیگر بااثر شخصیات کو بھاری کک بیک دینے کا اعتراف کرتا ہے تو دوسری طرف وہ کسی بھی قیمت پر تحقیقات سے بچنا چاہتا ہے۔ اس کی دولت کمانے کی حرص نے قومی خزانے کو 600 ملین روپے کا نقصان پہنچایا۔
اس کے کرائون پلازہ کی فروخت اس کا واضح ثبوت ہے۔ پھر بھی وہ مصر ہے کہ ایف آئی اے اس سے پوچھ گچھ نہ کرے کیونکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری لے کر آیا۔ ایکسپریس کے رابطے پر عبدالقیوم نے کہا کہ خدارا میری جان چھوڑیں اور ظفر وڑائچ سمیت بڑے چوروں پر دھیان دیں کہ ای اوبی آئی نے آخر مجھ سے 1.02ارب میں کرائون پلازہ کیوں خریدا؟َ جبکہ اس کی مارکیٹ ویلیو اس سے کہیں کم تھی۔ دوسری طرف ایف آئی اے عبدالقیوم سمیت دیگر ملزموں سے تحقیقات کررہی ہے۔ اس نے ای او بی آئی کے بعض چھوٹے اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹوں سے تصدیق ہوتی ہے کہ ظفر گوندل اور اس کے ساتھیوں نے ای او بی آئی میں کرپشن کا ایسا کلچر رائج کیا جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے دور میں ای او بی آئی کا دفتر مسعود وڑائچ جیسے دلالوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔
البتہ مسعود وڑائچ دیگر ملزموں سے زیادہ چالاک نکلا اور عبدالقیوم کے بیان کی سن گن ملتے ہی وہ 2ماہ قبل امریکا فرار ہوگیا۔ وجاہت حسین پہلے ہی اپنے علاج کیلیے امریکا میں مقیم ہیں۔ رابطے پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سعود مرزا نے بتایا کہ عبدالقیوم کے وجاہت حسین پر الزام کی تحقیقات کی جائے گی البتہ مسعود وڑائچ کی گرفتاری اور امریکا سے واپسی کیلیے انٹرپول کو کیس بھجوا دیا گیا ہے۔ دریں اثنا بارہا کوششوں کے باوجود چوہدری وجاہت حسین سے بیرون ملک رابطہ نہیں ہوسکا تاہم (ق)لیگ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مصطفیٰ ملک نے بتایا کہ وجاہت حسین اپنے علاج کیلیے امریکا میں مقیم ہونے کے باعث اپنے موقف دینے کیلیے دستیاب نہیں۔ البتہ انھوں نے اس بات کی تردید کی وجاہت حسین کا مبینہ فرنٹ مین مسعود وڑائچ کبھی (ق)لیگ کا عہدیدار رہا ہے۔