طلبا یونین کی بحالی
حکومت کو طلبا کی اس تحریک کو مثبت تصور کرتے ہوئے تحریکی نمائندوں سے رابطے کا آغاز کرنا چاہیے۔
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اور استحکام کا بنیادی تقاضا ہے کہ عوام کو خوشحال بنایا جائے انھیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جائے اوربااختیار بنایا جائے۔ ہر بالغ شہری کو سیاست میں حصہ لینے کا حق ہے چاہے وہ طالبعلم ہو یا نہ ہو۔
امریکا اور مغربی جمہوری ممالک قانون کی بالادستی کے ساتھ اپنے نظام کو خوش اسلوبی سے چلارہے ہیں وہاں سیاسی نظام مستحکم ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ ان کا نظم و ضبط بھی ہے۔ پہلے مرحلے میں ٹریفک کے قوانین اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر گاڑی قطار میں دو لکیروں کے درمیان چلتی ہے۔ پیدل چلنے والے بھی قوانین کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ تربیت انھیں اسکولوں میں ملی ہے۔ بڑے بڑے مظاہرے جلسے جلوس میں بھی ٹریفک جاری ساری رہتا ہے۔
سڑکوں کو تقسیم کرکے ایک حصہ جلوس یامظاہرے کے لیے رکھا جاتا ہے یا متبادل راستے پہلے سے طے کیئے جاتے ہیں۔ اس طرح ملکی معیشت اور کاروبار زندگی کی روانی میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ جمہوری آزادی کے ساتھ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے ہر شہری کی نقل و حرکت اور دیگر حقوق متاثر نہ ہوں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا کو یونین بنانے کا اختیار ہے لیکن وہ مخصوص قوانین کے تحت آزادانہ کام کرتی ہے۔ پاکستان میں طلبا یونین پر1984 میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔
پابندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی مارشل لاء حکومت طلبا یونین کو اپنے لیے خطرہ تصور کررہی تھی۔ بعدازاں مختلف سیاسی حکومتیں طلبا یونین کی بحالی سے متفق ہونے کے باوجود دیگر مسائل میں الجھنے اور بعض مصلحتوں کی وجہ سے طلبا یونین کی بحالی میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ طلبہ و طالبات میں ایک مرتبہ پھر سے اس تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ ملک بھر کے طلبہ و طالبات متحد ہورہے ہیں۔
حکومت کو طلبا کی اس تحریک کو مثبت تصور کرتے ہوئے تحریکی نمائندوں سے رابطے کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کے یہ خدشات کہ طلبا یونین کی بحالی سے تشدد کا امکان ہے یا طلبا کی تعلیمی صلاحیتوں پر منفی اثرات ہوں گے تعلیمی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوگی سب فرسودہ تصورات ہیں۔ معاشرے آزادی اور قانون کی حکمرانی اور نظم و ضبط سے آگے بڑھتے ہیں۔
طلبا یونین کی بحالی کے لیے حکومت اپنے تمام خدشات اور تحفظات کو سامنے رکھ کر ایسے قوانین وضع کرسکتی ہے جس سے طلبا کی تعلیمی سرگرمیوں اور امن و امان کی صورتحال پر کوئی منفی اثر نہ ہو بلکہ اس میں مزید بہتری آئے۔ تعلیمی اداروں میں مشیر طلبا کے شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ سیاسی عمل میں کسی حل کے لیے بات چیت کا آغاز ہی سب سے بہتر طریق کار ہے۔
طلبا یونین سے طالب علموں کی بہتر نشوونما ہوتی ہے۔ وہ انتخابی عمل کو سمجھتے ہیں بحث و مباحثے کے ذریعے ان کی فکری صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انتظامی کارکردگی میں انھیں سیکھنے کو ملتا ہے۔ نوجوان نسل میں بہت زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ ان کی سوچ مثبت ہے۔ نوجوان نسل بدعنوانی کے اثرات سے دور ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہوگا کہ وہ کس طرح طلبہ و طالبات کو مناسب مواقع فراہم کرے۔ طلبا یونین کی بحالی کے لیے پاکستان کے پچاس شہروں میں طلبا ایکشن کمیٹی کی جانب سے مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔ ان مظاہروں کو طلبا یکجہتی مارچ کا نام دیا گیا۔
یونین کے انتخابات کے علاوہ طلبا ایکشن کمیٹی کی جانب سے جو مطالبات پیش کیئے گئے ان میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کا خاتمہ، فیسوں میں اضافے کی واپسی، مفت تعلیم، تعلیمی اداروں میں حلف نامے کا خاتمہ، جنسی ہراسانی کا خاتمہ، ایچ ای سی کے بجٹ کی کٹوتی کی واپسی، مفت ہاسٹل، مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی، طبقاتی تعلیمی نظام کا خاتمہ، ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کا قیام، فارغ التحصیل طلبا کے لیے روزگار، بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے وظیفہ، سیکیورٹی اداروں کی مداخلت کا خاتمہ، قوم، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر طلبا کے ساتھ تعصب اور ہراسانی کو بند کرنا۔
اسلام آباد میں دوردراز علاقوں سے آنے والے طلبا کو ہاسٹل کی فراہمی یقینی بنانے اور پرائیویٹ ہاسٹلز کو بند نہ کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ طلبا کی اس تحریک کے مرکزی رہنمائوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ یہ مسئلہ فوری طور پر حل نہیں ہوگا۔ اگر وہ اپنے مقاصد کو محدود رکھ کر دیگر سیاسی قوتوں بشمول برسراقتدار سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی اشتراک ِ عمل اور مذاکرات کے ذریعے کسی متفقہ حل کے لیے کوشش کریں تو کامیابی کی راہ نکل سکتی ہے۔
ملک میں مجموعی طور سیاسی کشیدگی اور محاذآرائی کی فضا ہے اگر طلبا کی تحریک اس کے زیراثر آگئی تو اس تحریک پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ قومی اور صوبائی حکومتوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ موجودہ دور میں جمہوریت کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل میں نوجوان نسل کی شرکت سے جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ امریکا اور مغربی ممالک کی نقل کرنے کے بجائے ان کی ترقی، آزاد ی اور خودمختاری سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
وہاں کے تعلیمی نظام، سیاسی نظام اور نظم و ضبط کا بغور جائزہ لینا اس کا مطالعہ کرنا اپنے نوجوانوں کو وہاں کے بہترین تعلیمی اداروں میں بھیج کر انھیں جدید تعلیم سو تربیت سے آراستہ کرنا بعد میں ان کی تربیت کرنا انھیں ملک میں ایسا ماحول مہیا کرنا جس میں وہ اپنے علم و تجربے کے ذریعے ملک کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ اسی صورت میں ہم ملک میں معیاری تعلیم و تربیت اور تحقیق کا ماحول تیار کرسکیں گے۔ طلبا پر بے جا پابندیاں لگا کر انھیں مثبت سرگرمیوں سے روکنا معاشرے کی ترقی و نشوونما کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
1884میں برطانیہ میں طلبا کی یونین کا آغاز ہوا تھا۔ اس وقت طلبا یونین کی سرگرمیوں میں مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد، سماجی سرگرمیاں، نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں شامل تھیں۔ رفتہ رفتہ سیاسی آزادیوں کے ساتھ طلبا یونیوں کا کردار بھی بڑھتا گیا اور طلبا یونین ایک ایسا ادارہ بن گئی جہاں سے آئندہ کی قیادت بھی تیار ہوئی۔ امریکا کی بے شمار جامعات میں طلبا حکومت کا شعبہ ہے جس کی ایک علیحدہ عمارت ہوتی ہے وہاں طلبا کو ہر طرح کی رہنمائی اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کا باقاعدہ تنخواہ دار عملہ بھی ہوتا ہے۔
آج کے جدید دور میں مختلف ممالک کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ ٹیکنالوجی، علم اور تحقیق میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے ہرممکن کوشش ہورہی ہے۔ نوجوان نسل کو مناسب سہولت، آزادی، تعلیم، تحقیق، نظم و ضبظ اور بہتر تربیت سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اس تیز رفتار بدلتی دنیا میں موثر کردارا دا کرسکیں۔ طلبا یونین کی بحالی بھی اس عمل کا ایک حصہ ہے جس سے طلبا میں مزید اعتماد پیدا ہوگا وہ زیادہ خودمختار ہوں گے۔ متحد ہوکر نظم و ضبط کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کی راہ تلاش کریں گے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو مزید فروغ دیں گے جس سے پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کا عمل تیز ہوگا۔