اسلام سے نفرت کیوں
ایک منظم منصوبے کے تحت یورپی ممالک میں مسلمانوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ابو بکر بغدادی کے مارے جانے کے بعدکیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ ہونا تو ایسا ہی چاہیے اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے مارے جانے کے واقعے کی اس انداز سے تشہیر کی تھی جیسے انھوں نے نہ صرف ایک بڑی عالمی دہشت گرد کو ہلاک کردیا ہے بلکہ دنیا بھر سے دہشت گردی کا صفایا کر دیا ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر افغانستان اور شام میں اب بھی داعش کے دہشت گرد کیوں موجود ہیں۔ وہ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی فوجوں کی کیوں مدد کر رہے ہیں اور شام میں شامی باغیوں کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف کیوں برسر پیکار ہیں۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ اب کوئی مغربی ممالک کے جھانسے میں آنے والا نہیں ہے۔
دراصل مغرب کی سازشوں سے عالمی ضمیر بیدار ہوچکا ہے۔ لوگ اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکا اپنے مفاد اور بالادستی کے لیے خود دہشت گرد پیدا کرتا ہے اور جب ان سے کام نکل جاتا ہے تو انھیں خود ہی ختم کرکے دنیا بھر سے داد و تحسین وصول کرنے لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بغدادی سے پہلے اسامہ بن لادن کوکس نے دہشت گرد بنایا۔
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید امریکی حکومت گول کرجائے مگر پوری دنیا پر آشکار ہوچکا ہے کہ یہ امریکا تھا جس نے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے اسامہ بن لادن اور دیگر مسلم نوجوانوں کو افغانستان میں جمع کرکے انھیں باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت دی گئی، اس معرکے میں پاکستانی نوجوانوں کو بھی استعمال کیا گیا اور ان سب کی مدد سے روس کو افغانستان سے کھدیڑ دیا گیا۔ مگر اس کے بعد امریکا نے ان نوجوانوں سے آنکھیں پھیر لیں اور انھیں ہی دہشت گرد قرار دے دیا۔
اسامہ بن لادن نے امریکی بے رخی کے بدلے میں اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردیں لیکن ایسا کرنے کی چھوٹ بھی دی گئی تاکہ اسے عالمی طور پر بدنام کیا جائے اور پھر دہشت گردی سے نجات پانے کے نام پر اس کا اس کے ساتھیوں سمیت شکار کیا جاسکے ساتھ ہی دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ القاعدہ کا اصل محرک امریکا ہی تھا اس تنظیم کے ذریعے اصل نقصان مسلمانوں کو پہنچا ان کی ساکھ پر سخت ضرب لگائی گئی۔
آخر یہ کیا تماشا ہے کہ کبھی اسامہ بن لادن تو کبھی ابو بکر البغدادی اور اب شاید کسی اور مسلم نوجوان کو دہشت گردی کے میدان میں اتار دیا جائے۔ اس سارے مغربی گھناؤنے کھیل کے پس پشت دراصل مسلمانوں سے پرانا انتقام لینے کی بو آرہی ہے۔ اسامہ ہو یا بغدادی وہ امریکی مفادات کی بھینٹ بھی چڑھ گئے اور ساتھ ہی مغربی سازشی منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بھی بن گئے۔
اسامہ بن لادن کی مغرب کے خلاف کارروائیوں کو مغربی ممالک نے اسلام سے جوڑ کر اسلامی دہشت گردی کی نئی متعصبانہ اصطلاح ایجاد کی اور اب اس اصطلاح کو مغربی میڈیا نے اتنا پکا رنگ دے دیا ہے کہ مسلمان ممالک کے اعتراض کے باوجود بھی اسے جاری رکھا گیا ہے اور شاید اسے آگے بھی جاری رکھا جائے، اس لیے کہ اس کے ذریعے اسلام کو نشانہ بنانا اصل مقصد ہے۔ جو ان کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے، شاید اس لیے کہ اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے خود امریکا اور یورپ جیسے گھناؤنے معاشروں سے بدظن ہوکر وہاں کے لوگ جوق درجوق اسلام قبول کر رہے ہیں ایک تو روزبروز مغربی ممالک کی آبادی سکڑ رہی ہے دوسرے یہ کہ اسلام ان ممالک میں اپنی جگہ بناتا چلا جا رہا ہے، چنانچہ انھیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب نہ بن جائے ، ایک منظم منصوبے کے تحت یورپی ممالک میں مسلمانوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں داڑھی رکھنے پر توکہیں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد ہے۔
مسلم خواتین تک کو نہیں بخشا گیا ہے وہ برقعہ تو کیا اسکارف تک نہیں پہن سکتیں۔ کبھی مردوں کو داڑھی رکھنے پر تو خواتین کو اسکارف استعمال کرنے پر نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ انھی ممالک میں پیغمبر اسلامؐ کے خاکے بنانے کے بعد اب قرآن پاک کو جلانے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ یہی ممالک مسلمانوں کے حقوق، جائز مطالبات اور ان کی سرزمین کو قابض اقوام سے خالی کرانے کے سلسلے میں مسلسل ناانصافی اور ہٹ دھرمی کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
فلسطین اورکشمیر پرگزشتہ ستر برس سے اسرائیل اور بھارت قابض ہیں۔ حالانکہ فلسطینیوں اورکشمیریوں کو اقوام متحدہ نے حق خود اختیاری تفویض کیا ہے مگر دونوں ہی جابر ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ شاید وہ ایسا کبھی نہ کر پاتے اگر مغربی ممالک کی انھیں آشیرباد حاصل نہ ہوتی۔ اقوام متحدہ دراصل مغربی ممالک کے اشاروں پر ہی چل رہی ہے۔ اسے وہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے جو یہ ممالک چاہتے ہیں۔ ان ممالک کے پاس ویٹو پاور ہے۔ یہ دولت مند ہیں اور عسکری طور پر مضبوط ہیں۔ ان کی بے رخی اور ناانصافی مسلم ممالک کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ اب تک کسی امریکی صدر نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا تھا مگر صدر ٹرمپ نے تو باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
اقوام متحدہ نے بیت المقدس کو فلسطین کا دارالخلافہ تسلیم کیا ہے مگر ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرلیا ہے۔ سپر پاور امریکا کی جانب سے فلسطینیوں کی داد رسی کرنے کے بجائے جارح اور قاتل اسرائیل کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی غیر قانونی بستیاں بسانے کو جائز قرار دیا ہے جس سے لگتا ہے کہ اب دنیا میں جنگل کا قانون نافذ ہوچکا ہے۔
ادھر کشمیری تین ماہ سے مسلسل بھارتی حراست میں ہیں مگر امریکا خاموش ہے جب کہ ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر فوری ردعمل ظاہرکیا گیا ہے۔ اب بھارت نے کشمیر کو مکمل طور پر اپنے چنگل میں لے لیا ہے اور اس سلسلے میں ایک خود ساختہ نقشہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اس کا یہ عمل سراسر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اس خلاف ورزی کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے بھارت پر پابندیاں لگنا چاہیے تھیں اور امریکا کو بھی بھارت کے خلاف اقدامات لینا چاہیے تھے لیکن ظالم نیتن یاہو کی طرح مودی کی بھی ہمت افزائی ہو رہی ہے۔
امریکا اور ان کے مغربی ساتھیوں کی مسلمانوں کے ساتھ یہ زیادتیاں ان کے مسلمانوں سے تعصب کی واضح عکاس ہیں۔ محض اسرائیل کی بقا کی خاطر مغربی ممالک عراق، لیبیا، صومالیہ اور شام کو پہلے ہی تباہ و برباد کرچکے ہیں اور اب ایران کی باری ہے مگر ایران پر ہاتھ ڈالنے کی انھیں اس لیے جرأت نہیں ہو پا رہی ہے کیونکہ وہ فوجی طور پر ایک مضبوط ملک ہے چنانچہ وہ اس پر نئی نئی معاشی پابندیاں عائد کرکے اسے پریشان کر رہے ہیں ساتھ ہی سعودی عرب اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے ان دونوں ممالک کو جنگ میں الجھانے کی کوششیں جاری ہیں۔
مسلم امہ کو باہم جنگ وجدل سے بچانے اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کا کردار ہمیشہ شاندار رہا ہے مگر پاکستان کی مسلم امہ کو متحد رکھنے کی یہی کوششیں مغربی ممالک کو کھٹکتی رہی ہیں اور اسی لیے وہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور بھارت کی طرف داری کر رہے ہیں تاہم پاکستان شروع دن سے ان کی سازشوں کا مقابلہ کر رہا ہے بلکہ انھیں ناکام بنا رہا ہے۔
اب جہاں تک ابو بکر بغدادی اور اسامہ بن لادن کا تعلق ہے مغربی ممالک نے ان کا جو حشرکیا ہے اس سے سبق لیتے ہوئے آیندہ کسی مسلم نوجوان کو مغرب کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے اور اب وقت آگیا ہے کہ تمام مسلم ممالک کو اپنی مصلحت آمیزی کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کی اسلامو فوبیا مہم کے خلاف کھل کر میدان میں اترنا چاہیے اور ناروے میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف سخت احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔