بلوچستان اور منی پاکستان کی حالت زار

بلوچستان میں بدامنی،شورش ،مزاحمت یا آزادی کی جو بھی لہر چل رہی ہے اس کے پس منظر میں ایک زمینی حقیقت تو یہ ہے...


Editorial October 28, 2013
کراچی میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے۔ ۔فوٹو: فائل

بلوچستان میں بدامنی،شورش ،مزاحمت یا آزادی کی جو بھی لہر چل رہی ہے اس کے پس منظر میں ایک زمینی حقیقت تو یہ ہے اس مسئلے کی کلید لاپتا افراد کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں سے پیدا شدہ انسانی اور سیاسی بحران سے جڑے ہوئے معاملات کا سنجیدگی اور غیر جانبداری سے تصفیے میں مضمر ہے، اس صوبے کی سیاسی،قبائلی، تاریخی اور سماجی حرکیات سے واقف دانشور اور مبصرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ بلوچستان کا راستہ سیاسی دشت کی سیاحی سے مربوط ہے، حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو ملکی سالمیت، اقتصادی صورتحال اور سیاسی استحکام کو لاحق داخلی و خارجی خطرات و خدشات کے پیش نظر اس سمت کوئی واضح پیش رفت کرنی چاہیے قبل اس کے کہ تاخیر ہوجائے۔

یہ دردناک منظر نامہ ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا اعترافاً یہ کہناکہ وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہیںالارم بیل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہم ڈائیلاگ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے، وہ تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں کہ جو بلوچستان جائے گا وہ مارا جائے گا، صوبے میں شورش کی تاریخ نئی نہیں پرانی ہے، بلوچستان میں امن لانے کے لیے سب کو اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے، امن وامان قائم کرنے کے لیے بلوچستان حکومت دسمبر میں آل پارٹیز کانفرنس بلائے گی، بلوچستان میں قتل ہونے والے صحافیوں کے کیسز کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنائیں گے، بلوچستان کے مسائل آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حل کریں گے۔

بلاشبہ سب کی تمنا یہی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں سیاسی اور اقتصادی استحکام لانا ان کی پہلی ترجیح ہے، لوگوں کو امن و امان اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنا چاہتا ہوں، اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں تاکہ صوبے کو فرقہ وارانہ تشدد اور بلوچ عسکریت پسندی سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔ ان کے اس استدلال پر کہ اگر وہ ناکام ہوئے تو یہ صرف ایک بلوچ کی ناکامی نہیں ہوگی بلکہ پورے متوسط طبقے کی ناکامی ہوگی ہر سیاسی رہنما کوغور کرنا چاہیے۔ان معروضات کی روشنی میں بلوچستان کی درد انگیز صورتحال ایک اجتماعی سوچ کی محتاج ہے،ایسی بے لاگ سوچ جو زمینی حقائق سے ماورا نہ ہو بلکہ سیاسی،سماجی ،معاشی اور جدید قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

وزیراعلیٰ ایک طرح سے گویا فریاد کناں ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ وہ تنہا حل نہیں کرسکتے،اور اس سے زیادہ سچی بات وہ کہہ بھی نہیں سکتے۔ قطع نظر اس صورتحال کے پورے پاکستان اور بیرون ملک مقیم بلوچ بیلٹ کا اضطراب وزیراعلیٰ کے لب ولہجہ میں سمٹ آیا ہے ۔اس میں اہل وطن منی پاکستان کی دگرگوں اور لیاری کی حالت زار کی بھی ہلکی سی جھلک دیکھ سکتے ہیں،ہر جگہ کہرام برپا ہے ۔ ادھر لیاری میں3 دن سے جاری دو گروپوں میں تصادم کے بعد چوتھے روز سیز فائر کا اعلان محض ایک دھوکا نکلا ۔ اتوارکوراکٹ حملوں اور فائرنگ سے خواتین سمیت15سے زائد افراد زخمی ہو ئے، رینجرز اور پولیس نے لیاری کے مختلف علاقوں سے100سے زائد افراد کو حراست میں لے کر بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ،لیاری سمیت کراچی کے متاثرہ علاقوں میں لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، مختلف علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے جب کہ بلوچستان سے بھی سندھ اور کراچی میں سکونت کے لیے خاندان آرہے ہیں۔

کشیدہ صورتحال کے باعث لیاری میں کہیں کہیں عارضی غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا۔پیر کی صبح تک رینجرز چاکیواڑا ، سنگھولین اور عیدو لین سمیت پورے علاقے میں اپنی نفری تعینات کیے ہوئے تھے۔ (آج) منگل کو سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منی پاکستان کی غربت زدہ مگر ماضی کی امن پسنداور بندہ نواز بستی لیاری کو اس کی معاشی محرومیوں ، سیاسی مصلحت اور مفادات کی بھینٹ چڑھایا نہ جاتا تو گینگ وار کا بلائے ناگہانی جیسا ناسور کراچی کے سماجی ،معاشی اور کاروباری معمولات کی تباہی کا پیش خیمہ نہ بنتا ۔گینگ وار کا دردناک پہلوایک محنت کش علاقے کو دیدہ و دانستہ تاراج کرنے کی چنگیزیت کی نئی داستان ہے۔ایسی لاقانونیت پاکستان کی تاریخ میں حیران کن ہے ۔

گینگ وار کے باعث کراچی پر قتل گاہ کا خطاب عالمی میڈیا نے بھی چسپاں کردیا جو ملک کے سب سے بڑے اقتصادی اور کاروباری مرکز کی سیاسی اور اقتصادی شاخت کے لیے دھچکا اور ملکی معیشت کی تباہی کے لیے انتہائی سنگین خطرہ بھی ہے ، مزید برآں انسانی جانوں کی بے دریغ ہلاکت ، بھتہ خوروں کی درندگی ، اور شہر بھر میں ٹارگٹ کلرزکی فرقہ وارانہ، سیاسی ، خاندانی دشمنی اور بطور انتقام قتل وغارت کی روک تھام کے لیے رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن اگرچہ مسائل اور مشکلات کا جزوی شکار نظر آتا ہے تاہم اس مفید کارروائی کے خلاف بیانات سے صورتحال مزید وحشت ناک ہوسکتی ہے ۔اس وقت کراچی حالت جنگ میں ہے۔ دوران جنگ گھوڑوں کی تبدیلی کا خیال دل سے نکالنا ہوگا۔

منی پاکستان میں امن و امان کا قائم ہونا ملکی ضرورت ہے۔لیکن امن اس وقت تک قائم ہوہی نہیں سکتا جب تک کہ غیر قانونی اسلحہ اور بارود کے شہر میں لاقانونیت اور بربریت پسپا نہیں ہوتی۔گینگ کارندوں اور ٹارگٹ کلرز نے اب قانون نافذ کرنے والی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ،اس لیے انارکی پر کمر بستہ عناصر سے نمٹنے کی حکمت عملی میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بیگناہ زد میں نہ آئیں، عوام کو ذرا صبر سے کام لینا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی بھی صورتحال کی بہتری اور قانون شکن شکن عناصر کے خاتمے کی اس جدوجہد میں حکومت اور فورسز کی رہنمائی اور مدد کرنی چاہیے ۔ارباب اختیار کو ادراک کرنا چاہیے کہ منی پاکستان میں کالعدم تنظیموں اور طالبان سمیت دیگر ریاست دشمن مافیائوں کی ہمہ جہت اور کثیرالامقاصد سرپرستی کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے جب کہ بلوچستان کی مخدوش صورتحال کا عکس بھی لیاری کی ناگفتہ بہ صورتحال کے پس منظر میں نظر آتا ہے۔

آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں گینگ وار اور دیگر ملزمان ہلاک ہورہے ہیں جب کہ حراست میں لیے جانے والوں کی فہرست لمبی ہوگئی ہے ، پولیس اور رینجرز کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث ملزمان سمیت 119جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کر کے اسلحہ ، دستی بم اور دیگر سامان برآمد کر لیا ، ادھر سیکٹر کمانڈر سچل رینجرز نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں صرف شریف آدمی رہے گا جرائم پیشہ عناصریا تو بھاگ جائیں گے یا ختم ہو جائیں گے۔ترجمان رینجرز کے مطابق لیاری گینگ وار کے ملزموں کے خاتمہ تک آپریشن جاری رہے گا۔تاہم جب تک کراچی کی تباہی کے ذمے دار بڑے ٹارگٹ کلرز اور مجرمانہ مگرمچھ ٹھکانے نہیں لگ جاتے منی پاکستان شاید روتا ہی رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں