طالبان سے مذاکرات ……گومگو کی کیفیت ختم کی جائے
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے معاملے کی مختلف ذرایع سے نئی جہتیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے معاملے کی مختلف ذرایع سے نئی جہتیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ طالبان مختلف گروپوں میں تقسیم ہیں ،کچھ گروپ حکومت سے مذاکرات کے حامی اور کچھ مخالف ہیں' جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے تو بعض ذرایع کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے حکیم اللہ محسود اور حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے گا جب کہ مولوی فضل اللہ گروپ کو اس عمل میں شریک نہیں کیا جائے گا' تاہم کس گروپ سے مذاکرات ہوں گے اور کس سے نہیں حکومت کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ حکومت مذاکرات کے لیے کیا تیاریاں کر رہی ہے' اس کا ایجنڈا کیا ہو گا' مذاکراتی ٹیم کن افراد پر مشتمل ہو گی اس حوالے سے بھی گومگو کی کیفیت جاری ہے اور حالات واضح طور پر کھل کر سامنے نہیں آ رہے ہیں۔
بعض سیاسی جماعتیں حکومت پر دبائو بڑھا رہی ہیں کہ اے پی سی کے ایجنڈے کے مطابق طالبان سے فی الفور مذاکرات کیے جائیں۔ تحریک انصاف' جے یو آئی فضل الرحمان گروپ اور جماعت اسلامی مسلسل حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے۔ خیبر پختونخوا حکومت بھی وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے شدت سے مطالبہ کر رہی ہے۔ جہاں کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں حکومت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے دبائو بڑھا رہی ہیں وہاں ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے اور کچھ جماعتوں نے ان مذاکرات کی مخالفت اور حکومت سے آپریشن کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔
ہفتہ کو سرگودھا میں سنی علماء کونسل کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علما کرام نے کہا کہ اسلام کے نام پر ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے باعث پاکستان اور اسلام کا تشخص مجروح ہو رہا ہے جس کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ انھوں نے حکومت پر زوردیا کہ ملک سے دہشت گردی اور لاقانونیت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اتوار کو نشتر پارک کراچی میں عظمت ولایت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کے اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے مزید بم دھماکے اور لاشیں ملیں گی۔
دوسری جانب اتوار ہی کو ملتان میں پاکستان علماء کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اپنا موقف پیش کیا کہ حکومت فوری طور پر طالبان سے مذاکرات کرے اور قوم کو ان مذاکرات سے آگاہ کیا جائے۔ پہلے مذہبی جماعتیں حکومت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں، آل پارٹیز کانفرنس میں بھی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا مگر اب اس حوالے سے نئی پیشرفت ہوئی ہے اور کچھ مذہبی جماعتوں نے مذاکرات کی مخالفت اور طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے' اس طرح اس معاملے میں ایک اختلافی فضا نے جنم لیا ہے۔
اب حکومت پر یہ بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں تاخیر نہ کرے کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے گی اختلافی فضا میں شدت آتی چلی جائے گی اور رائے عامہ دو متضاد گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی جو نہ صرف حکومت کے لیے بھی مشکلات کا سبب ہو گا بلکہ ملکی وحدت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم' ق لیگ اور بعض دیگر سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے محتاط ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ اب تک مذاکرات کے تناظر میں حکومت صرف بیانات پر اکتفا کر رہی ہے عملی طور پر وہ قدم نہیں اٹھا رہی۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی تاخیر عوامی اور سیاسی سطح پر مزید تقسیم کا باعث بنے گی جو ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں حکومت فی الفور واضح پالیسی کا اعلان کرے تاکہ گومگو کی کیفیت ختم ہو سکے۔
بعض سیاسی جماعتیں حکومت پر دبائو بڑھا رہی ہیں کہ اے پی سی کے ایجنڈے کے مطابق طالبان سے فی الفور مذاکرات کیے جائیں۔ تحریک انصاف' جے یو آئی فضل الرحمان گروپ اور جماعت اسلامی مسلسل حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے۔ خیبر پختونخوا حکومت بھی وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے شدت سے مطالبہ کر رہی ہے۔ جہاں کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں حکومت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے دبائو بڑھا رہی ہیں وہاں ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے اور کچھ جماعتوں نے ان مذاکرات کی مخالفت اور حکومت سے آپریشن کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔
ہفتہ کو سرگودھا میں سنی علماء کونسل کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علما کرام نے کہا کہ اسلام کے نام پر ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے باعث پاکستان اور اسلام کا تشخص مجروح ہو رہا ہے جس کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ انھوں نے حکومت پر زوردیا کہ ملک سے دہشت گردی اور لاقانونیت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اتوار کو نشتر پارک کراچی میں عظمت ولایت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کے اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے مزید بم دھماکے اور لاشیں ملیں گی۔
دوسری جانب اتوار ہی کو ملتان میں پاکستان علماء کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اپنا موقف پیش کیا کہ حکومت فوری طور پر طالبان سے مذاکرات کرے اور قوم کو ان مذاکرات سے آگاہ کیا جائے۔ پہلے مذہبی جماعتیں حکومت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں، آل پارٹیز کانفرنس میں بھی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا مگر اب اس حوالے سے نئی پیشرفت ہوئی ہے اور کچھ مذہبی جماعتوں نے مذاکرات کی مخالفت اور طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے' اس طرح اس معاملے میں ایک اختلافی فضا نے جنم لیا ہے۔
اب حکومت پر یہ بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں تاخیر نہ کرے کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے گی اختلافی فضا میں شدت آتی چلی جائے گی اور رائے عامہ دو متضاد گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی جو نہ صرف حکومت کے لیے بھی مشکلات کا سبب ہو گا بلکہ ملکی وحدت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم' ق لیگ اور بعض دیگر سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے محتاط ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ اب تک مذاکرات کے تناظر میں حکومت صرف بیانات پر اکتفا کر رہی ہے عملی طور پر وہ قدم نہیں اٹھا رہی۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی تاخیر عوامی اور سیاسی سطح پر مزید تقسیم کا باعث بنے گی جو ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں حکومت فی الفور واضح پالیسی کا اعلان کرے تاکہ گومگو کی کیفیت ختم ہو سکے۔