نواز شریف کا دورہ امریکا کتنا کامیاب
اگرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورے کو ختم ہوئے کئی روز گزر چکے لیکن آج بھی سب سے گرم موضوع یہی ہے۔
اگرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورے کو ختم ہوئے کئی روز گزر چکے لیکن آج بھی سب سے گرم موضوع یہی ہے۔ میڈیا میں اس پر ابھی تک زوردار بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے اور عوام الناس میں بھی اس کا خوب چرچا ہورہا ہے۔ ایک طرف میاں صاحب کے نقاد ہیں جو اس دورے کے آغاز سے قبل ہی اس دورے کو ناکام ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے جب کہ حکومت کے حمایتی اس دورے کی کامیابی کے بارے میں رطب اللسان تھے۔ اس دورے کے حوالے سے سب سے زیادہ تذکرہ ڈرون حملوں کے بارے میں تھا جن سے اب تک بڑا بھاری جانی نقصان ہوچکا ہے اور جو بلا شبہ پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے کھلم کھلا اور صریحاً خلاف ہیں۔ دورے کے آغاز سے قبل وزیر اعظم نے بذات خود یہ کہا تھا کہ ڈرون حملوں کا ایشو صدر امریکا بارک اوباما سے ان کی ملاقات میں سر فہرست ہوگا۔ چناں چہ حسب وعدہ انھوں نے اس معاملے کو صدر اوباما سے اپنی بات چیت میں اولیت کے ساتھ اٹھایا۔ سربراہی ملاقات کے اختتام کے بعد انھوں نے امید ظاہر کی کہ ڈرون حملوں کی صورت میں امریکا کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ بالآخر حل ہوجائے گا۔ اپنے چار روزہ دورہ امریکا کے اختتام کے بعد میڈیا کے رپورٹرزکے ساتھ گفتگو کے دوران بھی انھوں نے یہی عندیہ دیا۔
اپنے چار روزہ دورے کے مجموعی جائزہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''ہم نے تمام ایشوز پر بات چیت کی، مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے امریکی قائدین کے ساتھ مذاکرات میں اس مسئلے کو بھی اٹھایا تھا اور ان سے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے پر بھی اصرار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی لیڈروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میاں صاحب کا استدلال تھا کہ اگر یہ مسئلہ باہمی گفت و شنید سے حل نہ ہوسکے تو اسے ثالث کی مدد سے حل کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے بتایا کہ یہ دونوں معاملات بھی زیر گفتگو آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا تھا جب کہ امریکیوں کی جانب سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ پیش کیا گیا۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں معاملوں میں رتی بھر پیش رفت بھی نہیں ہوئی جب کہ بعض حلقوں کی جانب سے تو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ میاں صاحب نے ڈاکٹر عافیہ کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا۔ معروضی صورت حال یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخالفین اور ان کے حامی امریکا کے اس دورے کو اپنی اپنی آنکھوں پر لگی ہوئی عینکوں سے ہی دیکھ رہے ہیں۔دوسری جانب بعض سینئر امریکی اہل کاروں کی زبانی یہ سننے میں آیا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی واقعے نہیں ہوگی جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ ''پنچوں کی رائے سر آنکھوں پر لیکن پرنالہ وہیں گرتا رہے گا'' ان اہلکاروں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ اٹھایا تھا لیکن بات آگے نہیں بڑھی۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود سینئر امریکی اہلکاروں نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اس دورے کو ''تاریخی'' دورہ قرار دیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ مئی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، واشنگٹن میں اپنے خطاب کے دوران صدر اوباما نے ڈرون حملوں کو ایک لازمی علت کہا تھا۔ انھوں نے ان حملوں کو محدود رکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وارننگ بھی دی تھی کہ یہ حملے جاری رہیں گے۔ صدر اوباما کے ساتھ میاں نواز شریف کی گفتگو کے دوران یہ تاثر بھی ابھرتا ہوا نظر آیا کہ اگرچہ پاکستان نے امریکیوں کے لیے ماضی میں بہت سے پاپڑ بیلے ہیں اور اپنے وجود تک کو داؤ پر لگا دیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی اپنے دل میں مہارت کے لیے ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے الٹا یہ سوال کر ڈالا کہ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف عدالتی کارروائی کیوں نہیں کر رہا۔ امریکا کا یہ رویہ ''الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے'' والی پرانی کہاوت کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ اس کے نتیجے میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوگی اور کسی Major Breakthrough کا کوئی امکان نہیں۔ چناں چہ دونوں سربراہوں کی ملاقات کے بعد ایک مختصر مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس کی حیثیت محض روایتی اور رسمی کہی جاسکتی ہے۔ اس اعلامیے کا پہلا پیراگراف باہمی جمہوری روایات کی پاسداری سے متعلق ہے جب کہ اگلے دو پیرا گراف انتہائی مختصر اور رسمی نوعیت کے ہیں۔ اس کے بعد چند پیرا گراف باہمی اقتصادی تعاون اور فوجی امداد کے بارے میں ہیں۔ اگلے پیرا گرافس میں ایٹمی عدم پھیلاؤ اور نیوکلیئر سیکیورٹی کا تذکرہ ہے۔
پاک امریکا تعلقات Love Hate Relationship سے عبارت ہیں۔ یہ وہی سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ ہے۔ لیکن ریکارڈ سے یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان نے ابتدا سے لے کر آج تک اس تعلق داری کی ہمیشہ بھاری قیمت ادا کی ہے اور امریکا کو کبھی بھی Let Down نہیں کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات کے قیام میں پاکستان نے کتنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد سوویت یونین کے ساتھ امریکا کی افغان جنگ میں پاکستان کا کردار کیا تھا جس کا خمیازہ اسے آج تک طرح طرح سے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس حسن سلوک کے بدلے کے طور پر امریکا الٹا پاکستان کی سر زمین پر ڈرونز کی بارش کر رہا ہے جس میں نہ صرف معصوم اور بے قصور بوڑھے بچے سویلین بلکہ پاکستانی فوج کے جوان بھی شہید ہوچکے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ان ڈرون حملوں کی کھلم کھلا مخالفت اور مذمت کر رہی ہے اور حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے نے بھی ڈرون حملوں سے ہونے والے شدید نقصان کی تفصیلات جاری کر دی ہیں لیکن سفاک امریکیوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی ہے۔ تاہم یہ بات لائق تحسین ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے بلا جھجھک اور برملا پاکستان پر ڈرون حملوں کا قومی اہمیت کا مسئلہ امریکی قائدین اور بالخصوص امریکی صدر کے سامنے جرأت مندی سے اٹھایا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے امریکا کا حالیہ دورہ انتہائی نازک اور فیصلہ کن حالات میں کیا ہے اور اپنے ملک و قوم کے موقف کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا۔
اگرچہ پاکستان کو اس دورے سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جو اسے مطلوب تھے یا جن کی اسے توقع تھی تاہم اس دورے کو مکمل طور پر اور یکسر ناکام قرار دینا بھی زیادتی ہوگی۔ اس ملاقات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دونوں جانب کے موقف واضح انداز میں سامنے آگئے۔ اس کے علاوہ اس دورے سے پاکستان کے trade not aid والے موقف کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے جس کے مثبت نتائج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اقتصادی شعبے میں اس دورے کے بعض دیگر مثبت نتائج بھی کچھ عرصے بعد برآمد ہونے کی توقع ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر اوباما میاں نواز شریف کی دعوت پر دال قیمہ کھانے کب پاکستان آئیں گے۔
اپنے چار روزہ دورے کے مجموعی جائزہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''ہم نے تمام ایشوز پر بات چیت کی، مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے امریکی قائدین کے ساتھ مذاکرات میں اس مسئلے کو بھی اٹھایا تھا اور ان سے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے پر بھی اصرار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی لیڈروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میاں صاحب کا استدلال تھا کہ اگر یہ مسئلہ باہمی گفت و شنید سے حل نہ ہوسکے تو اسے ثالث کی مدد سے حل کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے بتایا کہ یہ دونوں معاملات بھی زیر گفتگو آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا تھا جب کہ امریکیوں کی جانب سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ پیش کیا گیا۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں معاملوں میں رتی بھر پیش رفت بھی نہیں ہوئی جب کہ بعض حلقوں کی جانب سے تو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ میاں صاحب نے ڈاکٹر عافیہ کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا۔ معروضی صورت حال یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخالفین اور ان کے حامی امریکا کے اس دورے کو اپنی اپنی آنکھوں پر لگی ہوئی عینکوں سے ہی دیکھ رہے ہیں۔دوسری جانب بعض سینئر امریکی اہل کاروں کی زبانی یہ سننے میں آیا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی واقعے نہیں ہوگی جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ ''پنچوں کی رائے سر آنکھوں پر لیکن پرنالہ وہیں گرتا رہے گا'' ان اہلکاروں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ اٹھایا تھا لیکن بات آگے نہیں بڑھی۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود سینئر امریکی اہلکاروں نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اس دورے کو ''تاریخی'' دورہ قرار دیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ مئی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، واشنگٹن میں اپنے خطاب کے دوران صدر اوباما نے ڈرون حملوں کو ایک لازمی علت کہا تھا۔ انھوں نے ان حملوں کو محدود رکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وارننگ بھی دی تھی کہ یہ حملے جاری رہیں گے۔ صدر اوباما کے ساتھ میاں نواز شریف کی گفتگو کے دوران یہ تاثر بھی ابھرتا ہوا نظر آیا کہ اگرچہ پاکستان نے امریکیوں کے لیے ماضی میں بہت سے پاپڑ بیلے ہیں اور اپنے وجود تک کو داؤ پر لگا دیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی اپنے دل میں مہارت کے لیے ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے الٹا یہ سوال کر ڈالا کہ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف عدالتی کارروائی کیوں نہیں کر رہا۔ امریکا کا یہ رویہ ''الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے'' والی پرانی کہاوت کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ اس کے نتیجے میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوگی اور کسی Major Breakthrough کا کوئی امکان نہیں۔ چناں چہ دونوں سربراہوں کی ملاقات کے بعد ایک مختصر مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس کی حیثیت محض روایتی اور رسمی کہی جاسکتی ہے۔ اس اعلامیے کا پہلا پیراگراف باہمی جمہوری روایات کی پاسداری سے متعلق ہے جب کہ اگلے دو پیرا گراف انتہائی مختصر اور رسمی نوعیت کے ہیں۔ اس کے بعد چند پیرا گراف باہمی اقتصادی تعاون اور فوجی امداد کے بارے میں ہیں۔ اگلے پیرا گرافس میں ایٹمی عدم پھیلاؤ اور نیوکلیئر سیکیورٹی کا تذکرہ ہے۔
پاک امریکا تعلقات Love Hate Relationship سے عبارت ہیں۔ یہ وہی سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ ہے۔ لیکن ریکارڈ سے یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان نے ابتدا سے لے کر آج تک اس تعلق داری کی ہمیشہ بھاری قیمت ادا کی ہے اور امریکا کو کبھی بھی Let Down نہیں کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات کے قیام میں پاکستان نے کتنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد سوویت یونین کے ساتھ امریکا کی افغان جنگ میں پاکستان کا کردار کیا تھا جس کا خمیازہ اسے آج تک طرح طرح سے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس حسن سلوک کے بدلے کے طور پر امریکا الٹا پاکستان کی سر زمین پر ڈرونز کی بارش کر رہا ہے جس میں نہ صرف معصوم اور بے قصور بوڑھے بچے سویلین بلکہ پاکستانی فوج کے جوان بھی شہید ہوچکے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ان ڈرون حملوں کی کھلم کھلا مخالفت اور مذمت کر رہی ہے اور حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے نے بھی ڈرون حملوں سے ہونے والے شدید نقصان کی تفصیلات جاری کر دی ہیں لیکن سفاک امریکیوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی ہے۔ تاہم یہ بات لائق تحسین ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے بلا جھجھک اور برملا پاکستان پر ڈرون حملوں کا قومی اہمیت کا مسئلہ امریکی قائدین اور بالخصوص امریکی صدر کے سامنے جرأت مندی سے اٹھایا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے امریکا کا حالیہ دورہ انتہائی نازک اور فیصلہ کن حالات میں کیا ہے اور اپنے ملک و قوم کے موقف کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا۔
اگرچہ پاکستان کو اس دورے سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جو اسے مطلوب تھے یا جن کی اسے توقع تھی تاہم اس دورے کو مکمل طور پر اور یکسر ناکام قرار دینا بھی زیادتی ہوگی۔ اس ملاقات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دونوں جانب کے موقف واضح انداز میں سامنے آگئے۔ اس کے علاوہ اس دورے سے پاکستان کے trade not aid والے موقف کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے جس کے مثبت نتائج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اقتصادی شعبے میں اس دورے کے بعض دیگر مثبت نتائج بھی کچھ عرصے بعد برآمد ہونے کی توقع ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر اوباما میاں نواز شریف کی دعوت پر دال قیمہ کھانے کب پاکستان آئیں گے۔