خواب سب کے لیے
کل اتوار کے اخباروں میں کسی تھکے ماندے جواں سال مزدور کی ایک تصویر چھپی ہے وہ دیوار کے پتے پر لمبی تان کر سو رہا ہے۔۔۔
کل اتوار کے اخباروں میں کسی تھکے ماندے جواں سال مزدور کی ایک تصویر چھپی ہے وہ دیوار کے پتے پر لمبی تان کر سو رہا ہے اس کے قریب ایک بوری رکھی ہے جس کا منہ کھلا ہے، یہ اس کی مزدوری کی نوعیت کا کچھ پتہ دیتی ہے کہ وہ یا تو اس میں کچھ سامان ڈالتا ہے یا پھر اس میں موجود سامان کو فروخت کرتا ہے بہر حال یہ بوری اس کا ذریعہ روز گار ہے لیکن اس وقت وہ اپنے کھرب پتی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نیندوں سے بے خبر اپنی غربت میں مست ہو کر سو رہا ہے' دونوں اپنے اپنے خواب دیکھ رہے ہیں۔
اسے کچھ معلوم نہیں کہ وہ اپنی مزدوری سے جو حقیر رقم حاصل کرتا ہے اس کا ایک حصہ حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے حیران کن اخراجات کا حصہ بھی بنتا ہے۔ تصویر میں وہ سر کے نیچے اینٹ کا ٹکڑا رکھ کر اینٹوں کے اس کھردرے پشتے کو بستر بنا کر سو رہا ہے اس خانہ بدوش کی طرح جو ایک تنور کے گرد رات بسر کر گیا۔ یہ قصہ سنا تو چکا ہوں لیکن اس مزدور نے اسے پھر یاد دلا دیا ہے اور دکھی بھی کر دیا ہے۔ سنا ہوا قصہ پھر سے سن لیجیے شاید کسی قاری نے نہ پڑھا ہو۔ ایک خانہ بدوش درویش سردیوں کی رات کے کسی پہر کسی ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔ اسی تلاش کے دوران اس نے دیکھا کہ کچھ دور روشنی ہو رہی ہے، وہ اس طرف خوشی خوشی چل پڑا اور دیکھا کہ شکاریوں نے خیمے لگا رکھے ہیں اور ان میں آرام کر رہے ہیں، اس نے ایک خیمے کا پردہ اٹھا کر اندر جھانکا تو اندر سے اسے جھڑکا گیا کہ تم کون ہو بھاگ جاؤ۔
پھر اس نے جس خیمے میں بھی جھانکا اسے جھڑکیاں ہی ملیں بالآخر وہ شکاریوں کے سردار کے خیمے میں جا گھسا کہ بڑے لوگ کھلے دل کے ہوتے ہیں لیکن گرم سمور کی کھال میں لپٹا ہوا یہ رئیس سب سے زیادہ سخت نکلا اور اسے ملازموں کے ذریعے باہر پھینکوا دیا۔ یہ سب دیکھ کر اس نے شکاریوں کے تنور کو اپنے قریب دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کر کے تنور کے پاس لیٹ گیا اور گرم تنور کی حرارت کے بے فکر ہو کر مزے لینے لگا، کوئی اسے یہاں سے اٹھانے والا نہیں تھا۔ رات کو سردی بھی لگی لیکن اس نے صبر کیا اور صبح ہونے پر انگڑائی لے کر اٹھا اور فارسی میں جو اس کی زبان تھی کہا کہ ''شب سمور گذشت و شب تنور گذشت'' کہ سمور کی گرم کھال اوڑھ کر سونے والوں کی رات بھی گزر گئی اور تنور کی گرمی کے پاس پناہ لینے والوں کی بھی۔ اس بے گھر درویش کا فرمان اور اعلان تمثیلی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا۔ دکھ اور سکھ میں زندگی بسر کرنے والوں کے لیے یہ مثل ایک سہارا بن گئی۔
جو لوگ اقتدار کے ایوانوں اور سرکاری ہاؤسوں میں رہتے ہیں جو فارم ہاؤسوں میں راتوں کو خراٹے لیتے ہیں، وہ سب آخر سوتے ہی ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ بستر کمخواب کے ہوں یا ناہموار کھدری اینٹوں کے نیند کے بعد صرف بستر ہی ہوتے ہیں، اس تصویر میں جو نوجوان سو رہا ہے لگتا ہے اس کی تھکاوٹ اس کے لیے ریشم و کمخواب کا بستر بن گئی ہے۔ اتنی حلال کی نیند کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔ کیا ہم اپنی زندگیوں کی خواہشات کو قابو کر سکتے ہیں۔ کیا ہم کرپٹ حکمرانوں کی مسلط کردہ گرانی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہو سکتے، بازاروں کے گراں فروشوں کی خبر نہیں لے سکتے۔ بات لکھنے اور کہنے کو تو آسان ہے لیکن جان لیوا حالات کا مقابلہ کون کرے اور کیسے کرے۔ فقیر نے تالاب کے کنارے کسی کو ہاتھوں کا پیالہ بنا کر پانی پیتے دیکھا تو اپنے تھیلے سے گلاس نکال کر پرے پھینک دیا۔
سچ عرض کرتا ہوں کہ میں چونکہ سونا نہیں خرید سکتا اس لیے یہ سنہری پتھر میرے ذہن میں کہیں بھی موجود نہیں ہے بالکل اسی طرح جیسے اس مزدور کی نیند بھی لاہور میں نرم ترین بستر پر سونے والے ہمارے حکمرانوں کی نیند کے برابر ہے اور اس نیند میں اترنے والے خواب ان دونوں کو نہ معلوم کیا کیا کرشمے دکھا رہے ہیں اور کہاں کہاں لیے پھرتے ہیں، قدرت نے دنیا کی دولت میں کتنا ہی فرق رکھا، خوابوں کی دنیا سب کی ایک جیسی ہے۔ قدرت نے عالم خواب کو سب کی مشترک جاگیر بنا دیا ہے۔ ہوا کی طرح خواب بھی قدرت کا ایک انعام ہیں جو کسی کی دولت اور مرتبے کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ خواب اعلان کرتے ہیںکہ سب انسان برابر ہیں کم از کم نیند کی دنیا میں ہر کوئی ایک جیسی زندگی بسر کرتا ہے۔ ہماری اشرافیہ کے اختیار میں ہوتا تو وہ ہم عوام سے نیند کے مفت خواب بھی چھین لیتا کہ ان میں سے کچھ خواب ہمیں بھی نذر کرو۔
اس مزدور کی تصویر ایک دن پہلے کی تھی۔ میں کوشش کرتا کہ اس سے ملاقات ہو جاتی لیکن جب میں یہ تصویر دیکھ رہا تھا تو وہ اپنی بیداری میں نہ جانے کس جگہ کس مزدوری میں مبتلا ہو گا اور ایسے لوگوں کو کون تلاش کر سکتا ہے مزدوراور بھکاری۔ جب ان کے راستوں پر روٹ نہیں لگتا وہ صرف کسی ٹرک کے کنارے کھڑے ہو کراس شخصیت کے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں جس کے لیے راستے روکے گئے ہیں۔ میں اپنے ان دوستوں سے اظہار ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا جو جہاں بھی ہوں سفر میں یا حضر میں خلق خدا کو تنگ کرتے ہیں اور انسانیت ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ چند دن ہوئے کہ ایک صاحب توبہ توبہ کرتے ہوئے مجھ سے ملے۔
میں نے پوچھا کہ سر کیا ہوا آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں۔ کہنے لگے اپنے جرم پر پشیمان ہوں پھر انھوں نے بتایا کہ وہ ایک بڑے کی بڑی اولاد سے کسی کام سے مل کر آ رہے ہیں۔ انھوں نے مہمان کے لیے چائے منگوائی ایک ادھیڑ عمر کا ملازم بڑے احترام کے ساتھ یہ چائے لے آیا لیکن پیش کرتے ہوئے وہ چائے کو سنبھال نہ سکا اور چند قطرے پلیٹ میں گر گئے اس پر اس معمر ملازم کو جو جھاڑ ملی اور جن الفاظ میں اس کو جھاڑا گیا، وہ ایک شریف انسان کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ لیکن میں کچھ کیے بغیر ہی یہ سوچتا سوچتا اپنا کام چھوڑ کر یہاں سے رخصت ہوا کہ کیا انسان اتنا مجبور ہوتا ہے کہ نوخیز نو دولتیوں سے اتنی بے عزتی قبول کر لے۔ یہ تو طے ہے کہ اللہ ان لوگوں کو سزا دے گا اور وہ مکافات عمل سے بچ نہیں پائیں گے لیکن بہت سوں کے لیے وہ یہ دنیا عذاب بنا دیں گے اور بس ایک خواب ان کے بس میں نہیں ہوں گے جو کسی گھریلو ملازم یا کسی مالک کے حصے میں آتے ہیں یہ خواب بھیانک ہوں یا خوش کن یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔