نجکاری کا مطلب
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پی آئی اے ۔۔۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پی آئی اے کی نجکاری کا وعدہ کیا ہوا ہے اوراسے جان بوجھ کر نقصان میں دھکیلا جارہا ہے۔ محترم سپریم کورٹ نے ایک انتہائی معنی خیز سوال یہ کیا ہے کہ ''بتایا جائے کہ ملک سرکار چلا رہی ہے یا آئی ایم ایف؟'' اس پس منظر میں حکومت کی نج کاری کی پالیسی پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک کے اہم ترین اداروں کی نجکاری کا آئی ایم ایف سے وعدہ کر لیا ہے جنھیں نقصان میں دکھا کر ان کی نج کاری کا جواز پیدا کیا جارہا ہے تاہم وزیر ریلوے سعد رفیق نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے کہ وہ ریلوے کو کسی قیمت پر پرائیویٹائز نہیں کرنے دیں گے اگر ریلوے کو بیچنے کی کوشش کی گئی تو وہ اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ سعد رفیق کے اس موقف سے دو باتوں کی نشان دہی ہوتی ہے ایک یہ کہ ان سرکاری اداروں کو جو نقصان میں جارہے ہیں کرپشن ختم کرکے اور اصلاحات کے ذریعے نقصان سے نکال کر منافع بخش اداروں میں بدلا جاسکتا ہے دوسرے یہ کہ حکومت کی نجکاری کی پالیسی غلط ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے سرکاری ادارے ایک عرصے سے اربوں روپوں کے نقصان میں جارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی تباہی کی 100 فیصد ذمے داری بیوروکریسی پر عاید ہوتی ہے اس کی ایک مثال نیپرا کے سابق سربراہ توقیر صادق سے مل سکتی ہے۔ تمام ادارے جو نقصان میں جارہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ان اداروں کی بیوروکریسی سے کرپشن میں گٹھ جوڑ ہے۔
ریلوے میں عشروں سے جو کرپشن ہورہی ہے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکل رہا ہے لیکن وزیر ریلوے کے اس موقف سے کہ وہ ریلوے کو بیچنے نہیں دیں گے اور ریلوے کو نقصان سے نکال کر فائدہ بخش ادارہ بناکر دکھائیں گے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ سرکاری ادارے جو نقصان میں جارہے ہیں انھیں اصلاحات کے ذریعے اور کرپشن سے بچاکر منافع بخش اداروں میں بدلا جاسکتا ہے۔ اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ مسلم لیگ (ن)جب بھی اقتدار میں آئی ہے نجکاری کی روایت پر تیزی سے عمل ہوتا رہا ہے ۔
قومی اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کا رواج دراصل سوشلسٹ ملکوں کی صنعتی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ اور قومی ملکیت کا نظام سرمایہ دارانہ معیشت کے لٹیروں کے مفاد میں ہرگز فائدہ مند نہیں ہوتا کیونکہ قومی ملکیت کی وجہ سے سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے تمام مواقع ختم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دار ملکوں نے جن میں امریکا پیش پیش تھا سوشلسٹ ملکوں کی معیشت کو تباہ کرنے میں مجرمانہ کردار ادا کیا۔
جب سے حکومت نے قومی اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا ہے مزدور طبقے میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ نجکاری کے بعد قومی اداروں کو خریدنے والے سرمایہ کاروں کا پہلا اقدام مزدوروں کی چھانٹی ہوتا ہے یہ درست ہے کہ بہت سارے اداروں میں اداروں کی ضرورت سے زیادہ مزدور اور ملازمین موجود ہوں گے لیکن اس حوالے سے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے کسی قومی ادارے میں نہ میرٹ کا کوئی وجود ہے نہ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ مزدوروں کی وجہ سے اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو حکومتیں سیاسی ضرورتوں اور سیاسی مفادات کی خاطر قومی اداروں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھر دیتی ہیں یا پھر نوکریاں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔
ہماری ریلوے کی ناکامی اور خسارے کی بڑی وجوہات بڑے پیمانے پر اعلیٰ سطح کی کرپشن کے علاوہ ریلوے میں گڈز سروس کا خاتمہ ہے۔ دنیا بھر میں مال بردار ریلوے کا حصہ ریلوے کے منافع کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور پیسنجر سروس عموماً نقصان کا باعث ہی بنی رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں جب تک گڈز ٹرین سروس جاری تھی ریلوے منافع بخش ادارہ بنی رہی لیکن جب گڈز سروس کو آرمی کی لاجسٹک سروس کے حوالے کردیا گیا تو ریلوے کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اس سے چھن گیا۔ غالباً پاکستان واحد ملک ہے جہاں فوج کو اتنے بڑے پیمانے پر کاروبار کے مواقع دیے گئے ہیں اور کئی ادارے اور بینک وغیرہ فوج کی سرپرستی میں منافع بخش طور پر چل رہے ہیں لیکن قومی اداروں کو جس نقصان کا سامنا ہے اس کی تلافی کیسے ہو؟
ہمارے ایک دوست منظور رضی ریلوے مزدوروں کی تنظیم کے بہت سینئر رہنما ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر اعلیٰ سطح کی کرپشن کا خاتمہ کردیا جائے اور افسروں کی جو فوج ریلوے کو لوٹ رہی ہے اس میں کمی کی جائے اور گڈز سروس بحال کردی جائے تو ریلوے بہ آسانی منافع بخش ادارے میں بدل سکتی ہے۔ منظور رضی کا کہنا ہے کہ ریلوے کے پاس بے تحاشا زمین موجود ہے فوج کے بعد ریلوے وہ واحد ادارہ ہے جو زمین کی ملکیت کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ریلوے کی زمین کو بیچنے کے بجائے اسے پٹے پر اٹھایا جائے تو زمین کی ملکیت بھی ریلوے کے پاس رہے گی اور پٹے سے حاصل ہونے والی رقوم ریلوے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ منظور رضی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے ریلوے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری ہے اگر ان بدعنوانیوں کو روکا جائے تو ریلوے کی مالی حالت میں بہتری آسکتی ہے۔
اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے قومی اداروں کی نجکاری ہے جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے سرمایہ دارانہ نظام میں نجکاری کا مطلب قومی دولت کو مٹھی بھر لٹیروں کے ہاتھوں میں دینا ہے۔ ماضی میں نجکاری کے حوالے سے جتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی ہے اس کی داستانیں الیکٹرانک میڈیا پر پیش کی جارہی ہیں اس حوالے سے ایم سی بی کی نجکاری میں میاں برادران اور ان کے قریبی دوست میاں منشاء کا نام لیا جارہا ہے مسئلہ صرف کسی ایک بینک یا کسی ایک فرد یا افراد کی لوٹ مار کا نہیں بلکہ ایک پورے طبقے کو حاصل ہونے والی لوٹ مار کی آزادی کا ہے کیونکہ نجکاری کا دوسرا نام اربوں روپے کی لوٹ مار ہے کیا پاکستان اس لوٹ مار کا متحمل ہوسکتا ہے کیا نجکاری پاکستان کے غریب عوام کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس سوال کا جواب کون دے گا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے سرکاری ادارے ایک عرصے سے اربوں روپوں کے نقصان میں جارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی تباہی کی 100 فیصد ذمے داری بیوروکریسی پر عاید ہوتی ہے اس کی ایک مثال نیپرا کے سابق سربراہ توقیر صادق سے مل سکتی ہے۔ تمام ادارے جو نقصان میں جارہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ان اداروں کی بیوروکریسی سے کرپشن میں گٹھ جوڑ ہے۔
ریلوے میں عشروں سے جو کرپشن ہورہی ہے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکل رہا ہے لیکن وزیر ریلوے کے اس موقف سے کہ وہ ریلوے کو بیچنے نہیں دیں گے اور ریلوے کو نقصان سے نکال کر فائدہ بخش ادارہ بناکر دکھائیں گے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ سرکاری ادارے جو نقصان میں جارہے ہیں انھیں اصلاحات کے ذریعے اور کرپشن سے بچاکر منافع بخش اداروں میں بدلا جاسکتا ہے۔ اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ مسلم لیگ (ن)جب بھی اقتدار میں آئی ہے نجکاری کی روایت پر تیزی سے عمل ہوتا رہا ہے ۔
قومی اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کا رواج دراصل سوشلسٹ ملکوں کی صنعتی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ اور قومی ملکیت کا نظام سرمایہ دارانہ معیشت کے لٹیروں کے مفاد میں ہرگز فائدہ مند نہیں ہوتا کیونکہ قومی ملکیت کی وجہ سے سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے تمام مواقع ختم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دار ملکوں نے جن میں امریکا پیش پیش تھا سوشلسٹ ملکوں کی معیشت کو تباہ کرنے میں مجرمانہ کردار ادا کیا۔
جب سے حکومت نے قومی اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا ہے مزدور طبقے میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ نجکاری کے بعد قومی اداروں کو خریدنے والے سرمایہ کاروں کا پہلا اقدام مزدوروں کی چھانٹی ہوتا ہے یہ درست ہے کہ بہت سارے اداروں میں اداروں کی ضرورت سے زیادہ مزدور اور ملازمین موجود ہوں گے لیکن اس حوالے سے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے کسی قومی ادارے میں نہ میرٹ کا کوئی وجود ہے نہ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ مزدوروں کی وجہ سے اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو حکومتیں سیاسی ضرورتوں اور سیاسی مفادات کی خاطر قومی اداروں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھر دیتی ہیں یا پھر نوکریاں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔
ہماری ریلوے کی ناکامی اور خسارے کی بڑی وجوہات بڑے پیمانے پر اعلیٰ سطح کی کرپشن کے علاوہ ریلوے میں گڈز سروس کا خاتمہ ہے۔ دنیا بھر میں مال بردار ریلوے کا حصہ ریلوے کے منافع کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور پیسنجر سروس عموماً نقصان کا باعث ہی بنی رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں جب تک گڈز ٹرین سروس جاری تھی ریلوے منافع بخش ادارہ بنی رہی لیکن جب گڈز سروس کو آرمی کی لاجسٹک سروس کے حوالے کردیا گیا تو ریلوے کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اس سے چھن گیا۔ غالباً پاکستان واحد ملک ہے جہاں فوج کو اتنے بڑے پیمانے پر کاروبار کے مواقع دیے گئے ہیں اور کئی ادارے اور بینک وغیرہ فوج کی سرپرستی میں منافع بخش طور پر چل رہے ہیں لیکن قومی اداروں کو جس نقصان کا سامنا ہے اس کی تلافی کیسے ہو؟
ہمارے ایک دوست منظور رضی ریلوے مزدوروں کی تنظیم کے بہت سینئر رہنما ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر اعلیٰ سطح کی کرپشن کا خاتمہ کردیا جائے اور افسروں کی جو فوج ریلوے کو لوٹ رہی ہے اس میں کمی کی جائے اور گڈز سروس بحال کردی جائے تو ریلوے بہ آسانی منافع بخش ادارے میں بدل سکتی ہے۔ منظور رضی کا کہنا ہے کہ ریلوے کے پاس بے تحاشا زمین موجود ہے فوج کے بعد ریلوے وہ واحد ادارہ ہے جو زمین کی ملکیت کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ریلوے کی زمین کو بیچنے کے بجائے اسے پٹے پر اٹھایا جائے تو زمین کی ملکیت بھی ریلوے کے پاس رہے گی اور پٹے سے حاصل ہونے والی رقوم ریلوے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ منظور رضی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے ریلوے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری ہے اگر ان بدعنوانیوں کو روکا جائے تو ریلوے کی مالی حالت میں بہتری آسکتی ہے۔
اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے قومی اداروں کی نجکاری ہے جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے سرمایہ دارانہ نظام میں نجکاری کا مطلب قومی دولت کو مٹھی بھر لٹیروں کے ہاتھوں میں دینا ہے۔ ماضی میں نجکاری کے حوالے سے جتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی ہے اس کی داستانیں الیکٹرانک میڈیا پر پیش کی جارہی ہیں اس حوالے سے ایم سی بی کی نجکاری میں میاں برادران اور ان کے قریبی دوست میاں منشاء کا نام لیا جارہا ہے مسئلہ صرف کسی ایک بینک یا کسی ایک فرد یا افراد کی لوٹ مار کا نہیں بلکہ ایک پورے طبقے کو حاصل ہونے والی لوٹ مار کی آزادی کا ہے کیونکہ نجکاری کا دوسرا نام اربوں روپے کی لوٹ مار ہے کیا پاکستان اس لوٹ مار کا متحمل ہوسکتا ہے کیا نجکاری پاکستان کے غریب عوام کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس سوال کا جواب کون دے گا؟